رمضان یعنی ماہِ قرآن کی آمد آمد ہے ۔ ایسے میں ملعون
وسیم رضوی کا معاملہ عدالت عظمیٰ میںٹائیں ٹائیں فش ہوگیا ۔ یہ احمقانہ
مقدمہ جب سماعت کے لیے پیش ہوا تو جسٹس نریمان نے حیرت سے پوچھا کہ کیا آپ
سنجیدہ ہیں ؟ آپ کا اصرار ہے یعنی آپ اس مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں؟پھر سوال
کیا اور کیا واقعی لڑنا چاہتے ہیں ۔ اس تیور سے وسیم رضوی کے وکیل آر کے
رائے زادہ کو اندازہ لگا لینا چاہیے تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے ؟ لیکن
وکیل کوفیصلے سے کیا غرض ؟ عد الت کا فیصلہ تو استغاثہ کے حق میں یا خلاف
آتا ہے اور دونوں صورتوں میں وکیل کو فیس برابر ملتی ہے ۔ سینئر وکیل رائے
زدہ نےحق نمک ادا کرکے ہاں کہا اور اپنی لن ترانی کا آغاز کردیا۔ اس کے
خاتمے پر جسٹس نریمان کی بنچ نے فیصلہ سنایا کہ ’یہ مجسم ( frivolous)
دعویٰ ہے ۔ جسٹس نریمان اس ایک لفظ میں ایک جہان سمیٹ دیا ۔ انگریزی زبان
میں frivolousکے معنی ہلکا وادنیٰ، نکما اور غیر سنجیدہ کے ہوتے ہیں اور یہ
تینوں باتیں اس پر صادق آتی ہیں ۔ اس کے بعد مقدمہ کو خارج کرتے ہوئے
عدالت نے وسیم رضوی پر ۵۰ ہزار کا جرمانہ بھی ٹھونک دیا۔
ہندوستان کے اندر میں قرآن مجید کو عدالت میں چیلنج کرنے کا یہ دوسرا واقعہ
ہے۔ اس سے پہلے 1987 میں چاند مل چوپڑا نامی شخص نے کلکتہ ہائی کورٹ میں
قرآن کو چیلنج کیا تھا۔اس کا موقف تھا کہ نعوذباللہ قرآن حکیم کی85 آیات
تشدد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ چاند مل کی درخواست کو سماعت کے لیےمنظور کر کے
کلکتہ ہائی کورٹ کی جج پدما خستگر نے ہنگامہ کھڑا کردیا ۔ اس وقت مغربی
بنگال میں جیوتی باسو کی اور مرکز میں راجیو گاندھی کی حکومت تھی ۔ دونوں
حکومتوں نے مسلمانوں کی طرف سےہائی کورٹ میں یہ مقدمہ لڑا اور بالآخر یہ
مقدمہ جسٹس باسکر کی عدالت میں منتقل کیا گیا ۔ انہوں نے یہ کہہ کر مقدمہ
خارج کردیا کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ نہیں چل
سکتا۔کورٹ نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ قرآن کی آیات پر پابندی آزادیٔ
مذہب بشمول مذہب کو ماننے اس پر چلنے اور اس کی تبلیغ میں مداخلت ہے ۔
قرآن کو صدیوں سے ایک مقدس کتاب کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ دنیا کے سارے
مہذب ممالک میں اسے پڑھا، چھاپا ،تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کی پیروی کی
جاتی ہے۔ ابھی تک ہندوستان یا دنیا کے کسی ملک میں قرآن کی تحریف نہیں
ہوئی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے قرآن کو شائع کرنے یا تبلیغ کرنے سے قوموں
کے درمیان بدامنی پھیلے گی۔ یہ بات بھی ناقابلِ تسلیم نہیں ہے کہ قرآن کی
تعلیمات دیگر مذاہب یا اقوام کی توہین کرتی ہیں ۔
اس دوٹوک فیصلے کی نذیر سامنے رکھ کر وسیم رضوی کو مقدمہ کرنے سے گریز کرنا
چاہیے تھا لیکن مفادات انسان کو اندھا کردیتے ہیں۔ وسیم رضوی کی مفاد پرستی
محض قیاس آرائی نہیں ہے۔وہ فی الحال حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور
نریندر مودی کا بہت بڑا بھکت بنا ہوا ہے لیکن وہ بھی اس کی ابن الوقتی ہے۔
رضوی کسی زمانے میں سماج وادی پارٹی کا منظور نظر تھا ۔ 1995 تا 2020 تک
اتر پردیش میں شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین بھی رہا تاہم 2012 میں بدعنوانی کے
الزام میں ا سے پارٹی سے نکال باہر کیا گیامگر اب بھی سی بی آئی اس کی
تفتیش کررہی ہے۔ آگے چل کر جب قومی اور ریاستی سطح پر بی جے پی کی سرکار
آئی تو خود کو جیل جانے سے بچانے کے لیے اس نے کمل تھام لیا۔ اپنے سیاسی
آقاوں کو خوش کرنے کے لیے رضوی مسلمانوں کی دلآذاری کرتا رہا اور مدرسوں
کے خلاف زہر افشانی کرکے یوگی کے تلوے چاٹتا رہا۔ این آرسی کےخلاف احتجاج
کرنے والی خواتین کو اس نے ’بدکردار عورتوں‘ کے لقب سے یاد کیا۔ 2019 میں
میں ’رام کی جنم بھومی‘ نامی فلم لکھ کر اسے بنایا ۔بابری مسجد کی جگہ مندر
بنانے کے فیصلے پر خوش ہوکر ۵۱ ہزار روپیہ عطیہ دینے کا اعلان کیا اور یہ
بھی کہا کہ اگر وہ کیس کو ہار گیا تو خودکشی کر لے گا۔
وسیم رضوی کو چاہیے کہ اس ۵۱ ہزار میں سے جو اس نے یقیناً ابھی تک نہیں
دیئے ہوں گے ۵۰ ہزار روپیہ عدالت میں جرمانہ ادا کردے اور ایک ہزار روپئے
کی اچھی سی رسی خرید کر اپنا عہد پورا کردے تاکہ ’خس کم جہاں پاک‘ والا
محاورہ اس پر صادق آجائے۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتا تو بی جے پی کے نزدیک اس
کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور یوگی جی اس کو جیل میں پہنچا دیں گے
۔ سیاست کا اصول یہ ہے کہ بیٹھ جانے و الے گھوڑے گولی ماردی جاتی ہے۔ وسیم
رضوی کے ساتھ فی الحال عام مسلمان تو دور اس کا اپنا خاندان بھی نہیں ہے اس
لیے ایسے شخص پالنے کی غلطی بی جے پی نہیں کرے گی۔ اس مقدمہ کے بعد وسیم
رضوی کی حیثیت اس استعمال شدہ ٹیشو پیپر کی سی ہوگئی ہے جس کی جگہ کوڑے دان
میں ہے۔اس مقدمہ کے ذریعہ وسیم رضوری کا اولین مقصد تو بی جے پی کی خوشنودی
حاصل کرکے اپنے آپ کو جیل جانے سے بچانا تھا ۔ وہ تو اب پورا ہونے سے رہا۔
اس فتنہ پروری کی دوسری غرض و غایت مسلمانوں میں شیعہ سنی منافرت پھیلانا
تھی۔ اس لیے بڑی چالاکی سے اس نے قرآن حکیم میں تحریف کا بہتان پہلے تین
خلفائے راشدین پر ڈال دیا ۔ اسے امید رہی ہوگی کہ سارے اہل تشیع اس کی پشت
پناہی کریں گے لیکن وہ سلمان رشدی کے ساتھ شیعہ فرقہ کا سلوک بھول گیا ۔
سلمان رشدی کو بھی یہ توقع رہی ہوگی کہ شیطانی آیات نامی کتاب لکھنے کے
بعد اسے ایران میں سب سے بڑے قومی اعزاز سے نوازہ جائے گا کیونکہ اس نے
حضرت عائشہؓ کی کردارکشی کرنے کی مذموم کوشش کی ہے لیکن اس کے خلاف سب سے
پہلے امام خمینی کا فتویٰ جاری ہوا اور وہ زندگی بھر چھپ چھپ کر سرکاری
تحفظ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔ اس معاملہ نے امت کو بے شمار کرب
میں مبتلا کیا مگر امت نے اس دوران غیر معمولی اتحاد و اتفاق کا ثبوت دے کر
ایک خطرناک سازش کو ناکام بنادیا ۔ پھر ایک بار سنی و شیعہ دونوں نے مل کر
رضوی کے منہ کالا کردیا۔
وسیم رضوی کے اس فتنہ کا ایک ایسا فائدہ بھی ہوا کہ جو کیو کے تصور خیال
میں نہیں تھا ۔ آج کل چونکہ مغرب نے لفظ جہاد کو بہت بدنام کردیا ہے اس
لیے مسلمانوں میں اس کا ستعمال کم ہوگیا ہے ۔ اس رویہ سے اول تو جہاد کی
حقیقت سامنے نہیں آتی نیز غلط فہمیاں پھیلتی رہتی ہیں۔ وسیم رضوی نے پھر
ایک بار جہاد پر مباحثہ چھیڑ کر مسلمانوں کو اس عظیم عبادت کو سمجھنے اور
سمجھانے کا نادر موقع عنایت کردیا ۔ اس بار مسلمان بالکل بھی مدافعت میں
نہیں گئے ۔ کسی نے جہاد کی معذرت خواہانہ توجیہ نہیں کی بلکہ مختلف طبقات
نے نہایت خود اعتمادی کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں جہاد کا مطلب پیش کیا ۔
یہ جرأت و اعتماد قابلِ تحسین ہے ۔ اس دوران مختلف زبانوں میں کئی مضامین
اور ویڈیوز کے ذریعہ نہ صرف ان ۲۶ آیات کی تفہیم کرائی گئی بلکہ ان کی مدد
سے غیر مسلمین کے سامنےاسلام کی دعوت بھی پیش کی گئی ۔ اس خوش آئند پیش
رفت پر امت مبارکباد کی مستحق ہے۔
قرآن حکیم میں قتال و جہاد کو مثال بناکر حکمت موعظت کی ایک اور اہم بات
کہی گئی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:’’ تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار
معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے
بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ
تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بےخبر ہو‘‘۔ یہاں پر
حکمِ جہاد کی مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز
تمہیں گراں اور ناگوار ہو تو ضروری نہیں کہ وہ نقصان دہ بھی ہو کیونکہ اس
کا انجام تو صرف اللہ تعالٰی جانتا ہے ۔ وسیم رضوی نے جو فتنہ اٹھایا وہ ہر
مومن کے لیے بہت ناگوار تھا لیکن اس کےنتیجے میں جس طرح ہمارا ایمان تازہ
ہوا ۔ جو اتحاد و اتفاق کی فضا بنی ۔ جہاد کی آیات کو جس طرح پھر ایک بار
مسلمانوں نے سمجھا اور برادران وطن کے سامنے پیش کیا وہ امت کے لیے فائدے
کا سبب بنا۔ یہاں یہ بات بھی کہی گئی کہ جس چیز کو انسان اپنے لیے مفید
سمجھتا ہے وہ نقصان دہ بھی ہوسکتی مثلاً اس فتنے کو اپنے لیے فائدہ بخش
سمجھ کر وسیم رضوی نے دنیا اور آخرت کا خسارہ مول لے لیا ۔ فرمان قرآنی
ہے :’’اور کافروں نے خفیہ منصوبہ بنایا اور اللہ نے خفیہ تدبیر فرمائی اور
اللہ سب سے بہتر تدبیر فرمانے والا ہے‘‘۔ |