حجۃ الودع سے پردہ فرمانےتک : اہم واقعات و مراحل

ازقلم: علشبہ فاروق جمالی
طالبہ جامعہ اسلامیہ حنفیہ، شعبہ درسِ نظامی (دورۃ الحدیث)

دسویں سال کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک حضور خاتم النبیینﷺ کا حج کرنا ہے۔ حج کی فرضیت نو ہجری میں ہوئی اور دس ہجری میں آپﷺ خود حج کیا، اس حج کو "حجۃ الوداع" بھی کہا جاتا ہے۔
حضور کریمﷺ ذوالقعدہ کی آخری جمعرات کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور مدینے سے چھ میل دور میقات ذوالحلیفہ پر احرام باندھا، چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، عمرہ ادا کیا اور پھر آٹھ ذوالحجہ چاشت کے وقت منیٰ کی جانب روانہ ہوئے، نو ذوالحجہ جمعہ کے دن عرفات کی جانب روانہ ہوئے، مقام عرفہ پر طویل خطبہ ارشاد فرمایا: عین اسی حالت میں جب کہ خطبے میں اپنا فرضِ رسالت ادا فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 کا یہ جزء نازل فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-
(آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا)

خطبے کے بعد ظہر اور عصر کی نماز جمع کرکے ادا کی اور پھر مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز جمع کرکے ادا کی۔ پھر معشر حرام کے پاس رات بھر امت کے لیے دعائیں مانگتے رہے، پھر منیٰ کیلئے روانہ ہوئے جمرہ پر کنکریاں ماریں، پھرمنیٰ میں طویل خطبہ ارشاد فرمایا، اس کے بعد جانور ذبح فرمائے، قربانی کے بعد سر کے بال حضرت معمر بن عبداللہ سے منڈوائے اور کچھ حصہ حضرت ابو طلحہٰ انصاری کو عطا فرمایا، باقی موئے مبارک مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ 13 ذوالحجہ منیٰ سے روانہ ہوئے اور صبح طوافِ وداع ادا فرما کر مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوئے۔
مدینے سے واپسی پر مقامِ غدیرِ خم پر اہل یمن کی حضرت علی سے تلخ کلامی ہوئی، جس پر آپﷺ نے مقامِ غدیر خم پر تمام ہمراہیوں کو جمع فرما کر مختصر خطبہ ارشاد فرمایا :
آگاہ ہو جاؤ! میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں؛ ایک قرآن کریم، دوسری میری اہل بیت۔ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ اس کے بعد فرمایا :اللہ تعالیٰ میرا مولا ہے اور میں تمام مسلمانوں کا مولا ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
مَن کنتُ مولاه فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه و عاد من عاداہ
(جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ)
چند روافض کا کہنا ہے کہ یہاں نبی کریمﷺ نے حضرت علی کرم کی خلافت بلافصل کا اعلان کیا، لیکن اگر عقل استعمال کی جائے تو معلوم ہوگا کہ خلافت بلافصل کا اعلان کرنا ہوتا تو عرفات یا منیٰ کے مقام پر کرتے جہاں صحابہ کرام کی کثیر تعداد موجود تھی، نہ کے مقام غدیر خم پر جہاں صرف یمن اور مدینہ جانے والے اصحاب موجود تھے۔

ہجرت کا گیارہواں سال:
حجۃ الوداع سے واپسی پر حضور خاتم النبیینﷺ کثرت سے یہ کلمات ادا فرماتے:
سبحانک اللہم وبحمدک اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم
صحابہ نے کثرتِ ورد کی وجہ عرض کی تو آپﷺ نے فرمایا: جان لو اورآگاہ ہو جاؤ! کہ مجھے عالم بقا کی طرف بلایا گیا ہے اور تسبیح و تحمید و استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔

اہلِ بقیع کیلئے استغفار:
صفر المظفر کے آخری ہفتے میں آپ کو اہلِ بقیع کے لیے استغفار کرنے کا حکم ہوا، جس کو امام احمد بن حنبل نے "مسند احمد بن حنبل" میں حدیث نمبر 24140 میں روایت کیا ہے:
حضرت ابو موھیبہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے آدھی رات کو بلایا اور فرمایا:
"اے ابو موھیبہ ! مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اہلِ بقیع کے لئے استغفار کروں، چلو میرے ساتھ۔"
چنانچہ میں آپ ﷺ کے ساتھ گیا۔ جب آپ ﷺ قبور کے درمیان کھڑے ہوئے تو فرمایا: اے قبروالو! تم پر سلامتی ہو۔ تمہیں مبارک ہو کہ تم اس حال میں ہو جس میں لوگ نہیں ہیں۔ فتنے رات کے اندھیروں کی طرح آرہے ہیں، ایک کے بعد ایک، ہر اگلا پچھلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ پھر آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:اے ابو موھیبہ ! مجھے دنیا کے خزانے اور ہمیشہ کی زندگی کے ساتھ جنت کی چابیاں دی گئیں اور یہ اختیار دیا گیا کہ چاہوں تو وہ لوں یا اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر جنت اختیار کروں۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ دنیا اور اس کی بقا کے ساتھ جنت لے لیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، ابو موھیبہ ! اللہ کی قسم، میں نے اپنے رب کی ملاقات اور جنت کو اختیار کیا ہے۔

آغاز مرض:
صفر کے آخری ایام میں جب آپﷺ ام المؤمنین سیدہ میمونہ کےحجرے میں تشریف فرما تھے، آپ کو دردِ سر کا عارضہ لاحق ہوا، جب آپﷺ کی علالت شدید ہونے لگی تو آپﷺ نے تمام ازواج کو جمع کرکے ام المؤمنین حضرت عائشہ کے حجرے میں قیام کی اجازت لی اور پھر حجرہ عائشہ صدیقہ ہی میں قیام کیا۔ انہی ایام میں آپ ﷺ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق امامت کروائیں گے، چنانچہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی ظاہری حیات میں 17 نمازیں حضرت ابو بکر صدیق نے پڑھائیں۔
حضرت انس سے مروی ہے کہ پیر کے دن حضرت ابوبکر صدیق صحابہ کرام کی امامت فرمارہے تھے کہ حضورﷺ نے حجرۂ مبارکہ کا پردہ ہٹایا اور صحابہ کرام کو دیکھا۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کو صحابہ کرام نے دیکھا تو آپﷺ کا چہرہ انور یوں معلوم ہوا کہ ورقِ مصحف ہے، آپﷺ (نے صحابہ کرام کو عبادتِ خدا میں مصروف دیکھا اور حضرت ابوبکر صدیق کی اقتدا میں نماز ادا کرتے دیکھا تو اظہارِ رضا اور پسندیدگی کے) مسکرائے، ہم سمجھے کہ آپﷺ مسجد میں آنا چاہتے ہیں ہم نے ارادہ کیا نماز چھوڑ کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہو جائیں، مگرآپﷺ نے اشارہ کیا کہ نماز مکمل کرو اور آپﷺ نے پردہ ڈال دیا۔ یہ آخری موقع تھا کہ جب صحابہ کرام نے جمالِ نبوت پروانہ شمع رسالتﷺ کا دیدار کیا۔

قبر کو سجدہ گاہ مت بناؤ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ اور حضرت عباس سے روایت ہے کہ وقتِ وصالِ ظاہری حضور خاتم النبیینﷺ نے اپنے چہرہ انور
سے کمبل ہٹایا اور فرمایا: یہود و نصاری پر لعنت ہو، انہوں نے انبیاء کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور پھر صحابہ کرام اور اہل ایمان کو ان جیسے اعمال و افعال کرنے سے منع فرمایا۔

وقتِ وصالِ ظاہری:
ام المؤمنین حضرت عائشہ کی گود مبارک میں حضور خاتم النبیینﷺکا سر اقدس تھا، آپﷺ نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا: بل الرفیق الاعلی (بلکہ رفیقِ اعلیٰ)، یہی الفاظ زبانِ اقدسﷺ پر تھے کہ جسمِ اقدسﷺ پُرسکون ہوگیا۔
ہجرت کے گیارہویں سال 63 سال کی عمر میں بوقتِ چاشت پیر کے دن آپﷺ نے دارِ آخرت کی طرف سفر فرمایا۔

کیفیتِ صحابہ کرام :
حضور خاتم النبیینﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کو بہت بڑا صدمہ ہوا۔ تمام لوگ رنج سے نڈھال ہو گئے تھے، جلیل القدر اصحاب ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے، حضرت عمر نے تلوار نکالی اور مدینے کی گلیوں میں چکر لگانے لگے اور یہ کہتے رہے اگر کسی نے کہا کہ رسول اللہﷺ وفات پا گئے تو میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا،
جب حضرت ابوبکر صدیق کو خبر ملی تو آپ حجرہ عائشہ میں داخل ہوئے چہرہ انورﷺ کو بوسہ دیا اس کے بعد مسجد میں تشریف لائے اس وقت حضرت عمر لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: بیٹھ جاؤ۔
حضرت عمر کے عملاً انکار پر آپ نے انہیں چھوڑ کر لوگوں کی جانب متوجہ ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا:
حمد و ثنائے باری تعالیٰ کے بعد فرمایا تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے محمدﷺ پردہ فرما چکے ہیں اور جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرتا تھا، تو خدا زندہ ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے سورۃ ال عمران کی آیت مبارکہ 144 تلاوت فرمائی:
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ -اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْؕ-وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ -وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ
اور محمدﷺ ایک رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وصال کر جائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤگے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا اور عنقریب اللہ شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا فرمائے گا۔

کیفیتِ غسل:
حضور خاتم النبیینﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میری تجہیز و تکفین میرے اہل بیت اور اہل خاندان کریں گے لہٰذا حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں:
جب حضورﷺکے غسل کی تیاری ہوئی تو گھر میں سوائے خاندانِ نبویﷺ کے کوئی دوسرا موجود نہیں تھا، بس آپﷺ کے چچا حضرت عباس ، حضرت علی المرتضی ،حضرت فضل بن عباس ، حضرت قثم بن عباس ، حضرت اسامہ بن زید ، حضرت صالح ( جو آپﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے) موجود تھے۔

تجہیز و نمازِ جنازہ:
حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور خاتم النبیینﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا دو سفید سحول گاؤں کے بنے ہوئے کپڑے اور ایک یمنی چادر۔
حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ حضورﷺ پر بغیر امام کے نماز ادا کی گئی۔ اہلِ اسلام گروہ در گروہ حجرۂ مبارکہ میں داخل ہوتے، درود و سلام پڑھتے اور باہر آجاتے۔ پہلے مرد حاضر ہوئے اس کے بعد عورتوں نے حاضری پیش کی۔

قبر انور و تدفین:
حضرت ابوبکر صدیق سے مروی ہے کہ میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہر نبی وہاں دفن ہوتاہے، جہاں اس کی روح قبض کی جاتی ہے ، چنانچہ حجرہ عائشہ صدیقہ کو ہی آپﷺ کا روضہ بنایا گیا۔
حضرت ابو طلحہ انصاری نے قبر مبارک تیار کی اور حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جسمِ اطہر کو حضرت عباس، حضرت علی المرتضی، حضرت فضل بن عباس اور حضرت عقیل بن ابی طالب نے قبرا انور میں اتارا۔

زیارتِ روضۂ رسولﷺ:
حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور خاتم النبیینﷺ نے فرمایا:
جس نے مدینہ منورہ میں طلب رضا الہی اور ثواب کی خاطر میرے مزارِ اقدس کی زیارت کی تو کل بروزِ قیامت اس کی شفاعت کرنا مجھ پر واجب ہو جائے گا اور وہ میری شفاعت کا حق دار بن جائے گا۔

محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

 

Alishba Farooq Jamali
About the Author: Alishba Farooq Jamali Read More Articles by Alishba Farooq Jamali: 36 Articles with 68224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.