کامیابی کی قیمت ( دوسرا اور آخری حصہ)

کامیابی کی قیمت
( دوسرا اور آخری حصہ)

محمد یوسف میاں برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہمارے اس مضمون " کامیابی کی قیمت " کے پہلے حصے میں ہم نے دنیاوی کامیابی کے مختلف حصول اور اس پر ادا ہونے والی قیمت کے مختلف انداز دیکھے جبکہ اس دوسرے حصے میں ہم اصل کامیابی یعنی آخرت کی کامیابی کا ذکر کریں گے اور اس کے حصول میں جو قربانیاں بطور قیمت دینی پڑتی ہیں ان کا ذکر کریں گے جناب جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بیشمار ایسے لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو اپنی زندگی ایسے لوگوں کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں جو گناہوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے لیکن صاف دل اور گناہوں سے بچنے پر کامیابی حاصل کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے انہیں اس کی قیمت تو چکانی پڑتی ہے لیکن نیک نیتی کے سبب اللہ تعالیٰ ان کی مدد بھی کرتا ہے ایسا ہی ایک سچا واقعہ یہاں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ واقعہ ایک ایسی نوجوان اور خوبصورت لڑکی کا ہے جس
کا نام ماری تھا جو ایک آسٹریائی اداکارہ تھی جس نے فلم "قندیل ام ہاشم" میں شکری سرحان کی محبوبہ کا کردار ادا کیا تھا ماری بنیادی طور پر ایک جرمن لڑکی تھی ماری ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جو بکھرا ہوا خاندان تھا ماری کے والد اور والدہ اپنی خواہشات کے لیئے ہر ناجائز کام کرنے سے رکتے نہیں تھے جبکہ ماری کے بہن بھائیوں بھی شارٹ کٹ راستوں سے سب کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں ہر ناجائز کام میں ملوث تھے لیکن ماری نے اپنے آپ کو ان تمام معاملات سے دور رکھا اور اس نے صحیح اور جائز کام کرنے کی نیت سے ایک ہوٹل میں ویٹرس کی نوکری کرلی ان دنوں کسی فلم کا ایک پروڈیوسر اکثر اس ہوٹل میں آتا رہتا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دن اس پروڈیوسر نے ماری کو دیکھا اوراسے چھوٹے چھوٹے کرداروں میں کام کرنے کی پیشکش کی۔ اس طرح وہ جرمنی اور آسٹریا میں بطور اضافی کردار کام کرنے لگی جب فلم "قندیل ام ہاشم" کی شوٹنگ کے لیے ٹیم جرمنی پہنچی، تو انہیں ایک جرمن اداکارہ کی ضرورت تھی جو کم خرچ ہو۔ ماری نے اس کردار کے لیے آڈیشن دیا اور منتخب ہو گئی یہ فلم دراصل ایک اسلامی واقعہ کو لیکر بنائی گئی تھی جبکہ اس پر ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے اس فلم میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اہل بیت کا ذکر ہے جس کی وجہ سے ماری کو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اہل بیت کی پاکیزگی اور سادگی کے بارے میں کافی مطالعہ کرنا پڑا جسے پڑھ کر وہ بہت متاثر ہوئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب فلم کی شوٹنگ ختم ہوئی تو ماری چونکہ پہلے ہی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اہل بیت سے متاثر تھی اس نے اپنی جمع پونجی سے مصر کا ٹکٹ خریدا اور قاہرہ پہنچ گئی پھر اس نے اپنی زندگی کو بھی ان کے مطابق ڈھال کر گزارنا شروع کردیا قاہرہ پہنچ کر اس نے سب سے پہلے حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے روزہ مبارک پہنچی اسے عربی زبان نہیں آتی تھی لہذہ اس نے وہاں کے مقامی لوگوں کی مدد لی اور اس کے بعد اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے لہذہ وہاں کے ایک مفتی کے ہاتھوں اس نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اس کا نام " زینب الحسین علی رکھا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد اس نے قرآن کو جرمنی ترجمعہ کے ساتھ پڑھنا شروع کیا وہ جب جب قرآن پڑھتی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے گزرتے وقت کے ساتھ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریمﷺ کے دربار کی زیارت کی خواہش پیدا ہوگئی وہاں کے ایک مقامی مسلمان اداکار جناب عبدالوارث عسکری نے ان کے قدم قدم پر رہنمائی کی اور انہوں نے ہی ایک میاں بیوی محمد توفیق اور ان کی اہلیہ کے ساتھ مل کر زینب یعنی ماری کو حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیئے بھیجا محمد توفیق کی اہلیہ کہتی تھی کہ ہم نے دیکھا کہ اسے کہیں پر بھی کسی قسم کی تھکاوٹ محسوس نہ ہوتی بلکہ ہر جگہ وہ ہم سے آگے رہتی تھی اور یوں جب وہ مکہ سے روانہ ہوکر مدینہ کی طرف سفر پر نکلی تو سارے راستے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کی خوشی میں آنکھوں سے آنسو جاری تھے جب وہ مدینہ منورہ پہنچی اور حضور ﷺ کے روضہ مبارک کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو وہ کانپ اٹھی خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت میں اس نے قرآن مجید کو اپنے سینے سے لگایا اور زور سے چیختے ہوئے کلمہ شہادت پڑھا اور اس کی روح پرواز کرگئی اس کی موت اسی وقت واقع ہوگئی جس کے بعد اس خوش نصیب لڑکی کو جنت البقیع میں دفنا دیا گیا کاش ایسی موت اور تدفین کے لیئے ایسی جگہ ہم سب کا بھی مقدر بنے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں ایک ایسا گھر جس کا ہر فرد گناہوں کے دلدل میں دھنسا ہوا تھا ایسے میں ایک لڑکی اپنی نیک نیتی کی وجہ سے وہاں سے بچ کر نکلی تو یہ آخرت کی کامیابی کی طرف اس کا پہلا قدم تھا پھر ویٹرس کی نوکری کی تکالیف کم تنخواہ میں گزارا کرنا اور یوں چھوٹے چھوٹے اسلامی کرداروں کی مدد سے آگے بڑھنا اس کی قربانیوں کا وقت تھا اور پھر یہ ہی قیمت ادا کرتے ہوئے اس کا مسلمانوں کی صف میں آکھڑا ہونا حج کی سعادت حاصل کرنا اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر اپنی موت کے منہ میں چلے جانا اس کی وہ کامیابی تھی جو اس کی آخرت سنوار گئی اور دنیا و آخرت میں وہ کامیاب ہوگئی اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ایسی موت عطا فرمائے آمین ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں اپنی تحریروں میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا رہا ہوں کہ یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے اور یہاں ہمیں ملنے والی زندگی بھی عارضی ہے گویا یہ دنیا ہمارے لیئے " دارالعمل " ہے اور آخرت " دارالجزا" ہے یعنی اس عارضی دنیا میں ہم جو عمل کریں گے اس کی جزا یا سزا ہمیں آخرت میں ملے گی اور عارضی چیز کبھی مستقل نہیں رہتی بلکہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے جیسے ہماری زندگی کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ آج ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں جس مذہب کو ماننے والے ہیں جس اسلام کا ہم نام لے رہے ہیں وہ ہم تک پہنچا کیسا اور اسے ہم تک پہنچانے میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا قربانیاں دیں انہیں کتنی بھاری بھاری قیمت ادا ادا کرنی پڑی تب جا کر اس کائنات میں اسلام کے نام لیوا پیدا ہوئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم انبیاء کرام علیھم السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کتنی تکالیف اور آزمائشوں سے گزر کر اس دین کی حفاظت کی اور ہم تک پہنچایا جبکہ کتنی بھاری بھاری قیمت انہیں ادا کرنی پڑی ہمارے لیئے تو اس دین کا ملنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہمیں وقت پر تیار کھانا مل جاتا ہے لیکن اسی کھانے کی تیاری میں گھروالوں کو کتنی محنت درکار ہوتی ہے اور انہیں وقت پر ہمارے سامنے کھانا رکھنے کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے یہ وہ ہی جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ کا کئی جنگوں میں بذات خود حصہ لینا کافروں کا آپ ﷺکو لہو لہان کر دینا آپﷺ کے دندان مبارک کو شہید کردینا آپﷺ پر پتھر برسانا یہ سب اپنے رب تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرکے اسے ہم تک پہنچانے کی قیمت ہی تو تھی جو ادا کرنی پڑی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپﷺ کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک صحابی ایسی تکالیف اور آزمائشوں سے گزرتا ہوا دکھائی دیا قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام میں اس تفاصیل بڑے واضح طریقے سے موجود ہیں حضرت آدم علیہ السلام کا جنت سے نکلنے اور اپنی خطاء پر معافی مانگنے کے لیئے مسلسل دو سو سال تک روتے رہنا بھی قیمت ادا کرنے کے زمرے میں آتا ہے بالکل اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادتیں بھی دین کی خدمات اور اس کی حفاظت کرکے امت محمدی تک پہنچانے کی قیمت تھی جو ان جلیل القدر صحابیوں نے ادا کی اسی طرح دین کی خدمات اور اس کی حفاظت کے لیئے کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شہادتوں کے واقعات بھی ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں اور اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہادت جسے ہم شہادت کربلہ کے نام سے یاد کرتے ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے نانا جان حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دین کو بچانے کے لیئے اپنا پورا گھرانہ قربان کرکے اپنی طرف سے قیمت ادا کردی جو تاریخ کا ایک سنہرا واقعہ بن کر رہتی قیامت تک لوگوں کے دل و دماغ میں محفوظ رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں آپ یہ غور کریں کہ جیسے کہا گیا ہم جتنی قیمت ادا کرتے ہیں ہمیں اسی قیمت کے مطابق چیز مہیا کی جاتی ہے تو حضور ﷺ آپ ﷺ کے اہل بیت اور صحابہ کرام کو وہ ہی مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا جس طرح کی انہوں نے قیمت ادا کی اور یہ سلسلہ باقی آنے والے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں میں بھی جاری رہا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جانا حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بچپن میں صندوق کے ذریعے فرعون کے گھر پہنچنا اور وہیں پرورش پانا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا امتحان سے گزرنا حضرت نوح علیہ السلام کا کشتی کو طوفان سے بچنے کے لیئے اپنے لوگوں کو لیکر جانا اور اس کے علاوہ بھی کئی انبیاء کرام علیہم السلام نے رب تعالی کے دین کی حفاظت اور آگے بڑھانے میں بڑی قیمت ادا کی ہے جبکہ یہ سلسلہ ان کے بعد تابعین تبع تابعین اولیاء کرام اور بزرگان دین تک جاری و ساری ہے اور رہتی قیامت تک رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جس طرح کچھ حاصل کرنے لیئے قیمت ادا کرنے کے مختلف انداز ہم نے دیکھے بالکل اسی طرح کامیابی کے حصول کے بھی مختلف انداز ہمیں ملتے ہیں کسی مقصد کا حل ہوجانا کسی مقصد میں کامیابی حاصل کرلینا یا کسی مقام تک پہنچ جانا ہی کامیابی نہیں بلکہ بعض اوقات وہ نیک عمل یا کام جس کی ہم نے نیت نہیں کی ہوتی اور ہم سے ہوجاتا ہے اور وہ ہمارے رب تعالی کو پسند آجاتا ہے اب اللہ رب العزت چاہے تو دنیا میں اس کا انعام عطا فرما دیتا ہے یا پھر بروز محشر ہمیں عطا فرماتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ دنیاوی اعتبار سے کوئی کامیاب انسان ہو یا آخرت کے اعتبار سے اسے کامیابی کے حصول کے لیئے ناکامی جیسی قیمت چکانی پڑتی ہے کیونکہ ناکامی کا پہلا قدم کامیابی کی پہلی سیڑھی جیسا ہوتا ہے اور یہ بات جہاں ہمیں ہمارے اسلاف کی زندگیوں سے سیکھنے کو ملتا ہے وہیں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں موجود جانوروں سے بھی سیکھنے کو ملتا ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے شکار کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ٹائیگر خوراک کے لیےاپنے شکار پر حملہ کرتا ہے مگراس کی ناکامی کا تناسب 90فیصد ہے ۔ یعنی اس کےسو حملوں میں سے نوے حملے ناکام رہتے ہیں اسی طرح چیتا اگر اپنی خوارک کے لیے سو دفعہ حملہ کرے تو ان میں سے پچاس بار وہ ناکام لوٹتاہے ایک اکیلا شیر جو دن کی روشنی میں شکار کے لیے نکلتا ہے اس کی ناکامی کا تنا سب80 فیصد ہے اس کے سو میں سے اسی حملے ناکام رہتے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں چیتا اگر انسانوں میں رہتا ہو تو ہم اسے طعنے دے دے کر اس کی زندگی عذاب بنا دیں کہ بہت افسوس ہے تم پر ! تم فلاں ہرن نہیں پکڑے سکے ، فلاں خرگوش بھی تم کو چکما دے گیا یہ میں اور آپ ہیں جن کو ناکامیاں خوف زدہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے ارادے ترک کر دیتے ہیں جبکہ نیچر کا یہ نظام ہمیں بتا رہا ہے کہ ناکامیوں سے مت گھبرائیں، کوشش ترک نہ کریں یاد رکھیں کامیابی آسان لوگوں کے لیے نہیں یہ ان کے لیے ہے جو بلند حوصلہ ، مستقل مزاج اور ناکامی کے لمحات کو قیمت کے طور پر ادا کرتے ہیں تب جاکر انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آخرت کی کامیابی کے کئی رنگ ہمیں تاریخ اسلام میں ملتے ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لئے ہمارے انبیاء کرام علیہم السلام اور ہمارےاسلاف نے کئی قربانیوں کی صورت میں قیمتیں ادا کی ہیں کیونکہ تکلیف اور آزمائش پر صبر و شکر کی قیمت ادا کرکے حاصل ہونے والی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے اسی طرح علم و فضل کی راہ پر اپنی زندگیوں کو گزار کر ایک مقام حاصل کرنے والے بڑے بڑے نام ہمیں اپنے اسلاف میں ملتے ہیں جنہوں نے حقیقی علم کے حصول کی خاطر کتنی تکالیف اٹھائی کتنی صعوبتیں برداشت کیں پھر جاکر انہیں وہ مقام ملا کہ آج ہم ان کا ذکر کررہے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں علامہ اسحاق بن منصور مروزی علیہ الرحمہ جو نیشاپور کے رہنے والے تھے اور نیشا پور ایران کے شمال مشرق میں واقع ہے آپ علیہ الرحمہ کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ ایک مدت تک امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے پاس رہے۔ ان کے بیان کردہ فقہی مسائل کو اپنی کتاب میں قلم بند کرتے رہے اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ اپنے وطن نیشاپور واپس چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے جو مسائل قلمبند کیے تھےوہ اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ عرصے بعد انہیں معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے کتنے ہی مسائل سے رجوع کر لیا ہے یعنی ان میں تبدیلی کرلی ہے تو علامہ اسحاق علیہ الرحمہ نے اس کتاب اور دیگر کتب کو ایک گٹھڑی میں باندھا اور اسے اپنی پشت پر رکھا اور پیدل ہی بغداد کی طرف چل دیے۔ بغداد پہنچ کر انہوں نے امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ سے ملاقات کی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انہیں اپنی کتاب میں لکھے ہوئے مسائل سے آگاہ کیا اور کہا کہ کچھ عرصہ پہلے آپ نے ان مسائل میں یہ فتاویٰ جاری کیے تھے‘ اب آپ کا فتویٰ کیا ہے؟ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے واقعی پہلے ان مسائل میں یہ فتاویٰ دیے تھے لیکن اب جبکہ میرے پاس مزید تحقیق اور علم آگیا ہے صحیح احادیث مل گئی ہیں تو میں نے اپنے سابقہ فتاویٰ سے رجوع کر کے نئے فتاویٰ دیے ہیں امام اسحاق بن منصور علیہ الرحمہ نے نئے فتاویٰ کو قلم بند کیا اور اپنے وطن واپس چلے گئے۔ امام احمد بن حنبل نے علیہ الرحمہ اپنے اس شاگرد کی جانب سے اس نیک مقصد کے لئے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے پر تعجب اور مسرت کا اظہار کیا تھا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر حضرت امام اسحاق بن منصور علیہ الرحمہ اور ایسے دیگر بزرگوں کا ذکر ہم آج بھی کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کے سبب اور وہ کامیابی جو انہوں نے کئی صعوبتوں اور تکلیفوں جیسی قیمت ادا کرکے حاصل کی کامیابی حاصل کرنے اور اس کے عیوض قیمت ادا کرنے کا یہ بھی ایک انداز ہوا کرتا تھا جبکہ آج ہمارے پاس دنیا کے کسی بھی ملک ، شہر یا علاقے میں جانے کے لیئے اعلی سے اعلی سواری موجود ہے علم کے حصول کے لیئے ایک سے بڑھ کر ایک کتاب موجود ہے ہر جگہ ہر شہر اور علاقے میں دینی مدارس کا ایک جال بچھا ہوا ہے ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں لیکن دینی علوم کے حصول کا جذبہ لوگوں میں کم کم دکھائی دیتا ہے اسی لیئے لوگ صرف دنیاوی علوم کو حاصل کرنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں اور اس کے لیئے جو بھی قیمت ہو جس قسم کی بھی قیمت ہو وہ ادا کرنے کے لیئے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں اور دنیاوی عارضی کامیابی کے لیئے دن رات ایک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ ہر اہل ایمان مسلمان کا یہ عقیدہ ہے اور ہونا چاہئے کہ یہ دنیا کی زندگی جس طرح عارضی ہے یہاں کی کامیابی بھی عارضی ہے جبکہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے آخرت کی کامیابی دنیاوی علوم کے حصول میں نہیں بلکہ دینی علوم کے حصول میں پوشیدہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آخرت کی کامیابی کا ایک اور رنگ ملاحظہ کیجیئے جو اس واقعہ سے ہمیں ملتا ہے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس قبیلہ جہینہ کی ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ میں زنا کی مجرم ہوں اور اس کے سبب حاملہ ہوں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم جو سزا دینا چاہیں میں حاضر ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اس کے ساتھ موجود اس کے سرپرست سے فرمایا کہ جب اس کا حمل مکمل ہو جائے تو اس عورت کو میرے پاس لے آنا لہذہ جب اس کا حمل مکمل ہوا تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر کیا گیا تو آپ نے اس کی گردن اڑادی اور غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھائی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم یہ زانی عورت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی تو ارشاد فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس عورت نے جو توبہ کی ہے اگر اس توبہ کو مدینہ کے ستر لوگوں میں تقسیم کردیا جائے تو یہ ان کے لیئے کافی ہوگی اور جو عورت خود اپنے گناہ سے توبہ کی نیت کرکے میرے پاس حاضر ہوئی اور اللہ کے لیئے اپنی جان تک پیش کردی تم سمجھتے ہو کہ اس سے بڑی بھی کوئی توبہ ہوسکتی ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اتنی ہمت اتنی جرات اور اتنی بہادری صرف اس شخص کے دل میں پیدا ہوتی ہے جو اپنے کیئے ہوئے گناہ سے دل سے شرمندہ ہو اور اس کی معافی اور چھٹکارے کی خاطر قیمت کے طور پر اپنی جان تک قربان کرنے کے لیئے تیار ہوں ایسے لوگوں کو یقینی طور پر آخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے اب اندازا لگایئے زنا جیسا کبیرہ گناہ پھر اس پر شرمندہ ہونا پھر صدق دل سے توبہ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ کا اللہ تعالیٰ کے حکم سے معاف کرنا پھر حضور ﷺ کا خود نماز جنازہ پڑھانا پھر بھلا ایسے انسان کو آخرت کی کامیابی ملنے سے کون روک سکتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مضمون میں جو بات میں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ کامیابی کا اصل دنیاوی کامیابی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی ہے کیونکہ یہ دنیا تو ایک عارضی جگہ ہے ایک فانی جگہ ہے جبکہ آخرت کی دنیا اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہے کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے لہذہ کامیابی حاصل کرنے کی کوشش اور محنت اگر کرنی ہے تیاری اگر کرنی ہے تو آخرت میں کامیابی کے حصول کے لیئے کیجیئے جو صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے اور اس کے حبیب کریمﷺ احادیث پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیئے جو بھی قیمت چکانی پڑے وہ چکانی چاہیئے کیونکہ اس کا مطلب اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریمﷺ کا راضی ہونا ہے اور اللہ تعالی کا راضی ہونا جنت کا حصول ہے اور جنت کا حصول آخرت کی کامیابی ہے جو ہم سب کو نصیب ہو ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 192 Articles with 172162 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.