اگلے دوتین دنوں میں رمضان کی آمد ہے ،یہ مہینہ رحمتوں ،
برکتوں اورعبادتوں کا مہینہ ہے ۔ اس مہینے میں مسلمان جہاں نماز، روزہ
اوراذکار کو پابندی کے ساتھ اداکرتے ہیں۔ وہیں مسلمان اپنے مال کو خرچ کرنے
میں بھی فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اسی مال کو مختلف طریقوں سے خرچ کیا
جاتا ہے، بعض لوگ مسجدوں ، مدرسوں پر خرچ کرتے ہیں تو بعض لوگ تنظیموں ،
اداروں ، جماعتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے رشتہ داروں ، غریبوں
اورمستحق افراد تک اپنے مال کا زکوۃ ، صدقہ وفطرہ پہنچاتے ہیں۔ غرض کہ جس
کی جتنی استطاعت ہوتی ہے وہ اپنے اپنے طریقے سے مال کو خرچ کرتے ہیں۔ اس
مضمون میں ہم خاص توجہ دلانے کی کوشش کریں گے، وہ یہ کہ مسلمان اگرچاہیں تو
اپنے مال کو صحیح طریقے سے خرچ کرتے ہوئے ملک کے ضرورتمند ومستحق مسلمانوں
کی مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن اسکے لیے منظم طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اندازے
کے مطابق ہندوستان بھر میں 10 ہزار کروڑ روپئے کا سالانہ زکوۃ نکالتے
ہیںاوریہ زکوۃ بھارت کے اقلیتی امور کے بجٹ سے دس گنا زیادہ ہے۔ سال
2019-20 میں بھارتی حکومت نے 4700کروڑ روپئے کا بجٹ سال 2020 میں 5029کروڑ
کا بجٹ منظور کیا گیا ہے۔ یعنی بھارت کی حکومت نے دوسالوں کیلئے جو بجٹ ملک
کے اقلیتوں کیلئے منظور کرتی ہے وہ رقم ملک کے مسلمان ایک سال میں اپنے
زکوۃ کے طور پر نکالتے ہیں۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ زکوٰۃ کے اتنے کروڑ
روپئے آخرکہاں جارہے ہیں، کہاں خرچ ہورہے ہیں۔ 10ہزار کروڑ روپئے کوئی
معمولی رقم نہیں ہے۔ بلکہ ایک چھوٹی ریاست کا بجٹ مانا جاسکتا ہے۔ لیکن
مسلمان ہر کسی ایرے غیرے کو اپنے مال کا زکوٰۃادا کردیتا ہے۔ یہ نہیں سوچتا
کہ وہ آخر کیا کام کررہے ہیں۔ کچھ لوگ تصویریں دکھاکر جذباتی بناکر
زکوٰۃکا مال اینٹھتے ہیں اور ا س مال کا صحیح استعمال نہیں کرتے ، جیسے ہی
رمضان کا آغازہوتو کچھ تنظیمیں رمضان کٹ، بنانے کیلئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں
تو کچھ تنظیمیں عید کٹ کیلئے زکوٰۃ کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں
کہتے کہ رمضان کٹ اورعید کٹ بانٹنا غلط ہے۔ بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ قوم
کواس لائق بنایا جائے کہ وہ زکوٰۃ لیکر چند سالوں میں زکوٰۃ دینے والی قوم
بن جائے۔ ہرسال زکوٰۃدینے سے یقیناً دینے والے کے مال میں کمی نہیں آتی ،
لیکن جسکو ہم زکوٰۃدیتے ہیں اسےاس منظم طریقے سے زکوٰۃ دین کہ وہ زکوٰۃکی
رقم کا استعمال کرتے ہوئے چار پیسے کمانے کا کاروبار شروع کرے۔ ایسا نہ ہو
کہ آپ کی جانب سے دی جانے والی زکوٰۃعام لوگوں کیلئے صرف ہونٹ بھگونے تک
ہی محدود رہ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو زکوٰۃ کا حقیقی مقصد ہی فوت ہوجائےگا۔
یقین جانئے کہ کچھ لوگوں نے زکوٰۃ کا کاروبار بھی شروع کیا ہے۔ ایسے
کاروباری زکوٰتیوں سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ زکوٰۃ کے سسٹم کو منظم
طریقے سے نافذ کیا جائےتو بہت بڑا کام کیا جاسکتا ہے۔ کسی محلے میں زکوٰۃ
دینے والے 4 افراد جن کی زکوٰۃ 25 سے 30 ہزارروپئے ہو ، وہ 5 ، پانچ ہزار
روپئے اکٹھا کرکے بآسانی ایک کالج پڑھنے والے طالب العلم کی فیس اداکرسکتے
ہیں۔ چند ایک ایسے لوگ بھی ہیں جو تھوڑی سی مالی امداد مل جائےتو بہت بڑے
پیمانے پر کام کرنے کی چاہ رکھتے ہیں۔ اکثر اس بات کو بھی دیکھا گیا ہے کہ
چند لوگ تحقیق کئے بغیر ہی ایسے اداروں کو چندہ پہنچاتے ہیں جو صرف کاغذی
حد تک ہی کام کرتے ہیں عملی سطح پر انکا کوئی کام ہی نہیں ہوتا اس لئے
ہماری تجویز ہے کہ ان جماعتوں ، اداروں اور افراد کو اپنا زکوٰۃ ادا کریں
جو زمینی سطح پر کام کرتے ہیں ، جو ہماری نسلوں کو جذباتی بنانےکے بجائے
تعلیم یافتہ ، ہنرمند اور برسرروزگار بنانے کے لئے کام کررہے ہیں ، اگر
مالداروں نے اپنے مال کے ساتھ ذرا بھی اس بارے میں توجہ دینا شروع کیا تو
یقین جانئے کہ ہماری قوم خود مختار ہوجائیگی ۔
|