اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے
پیارے محبوب، نبی مکرم، رسول محتشم ،وجہ تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفےٰﷺ کو
بے حد و حساب فضائل و کمالات اور بے شمار والا تعداد معجزات عطا فرمائے ۔ان
معجزات میں سب سے بڑا معجزہ واقعہ معراج ہے جو درحقیقت کئی ایک
چھوٹے بڑے
معجزات کا مجموعہ ہے ۔واقعہ معراج کا ذکر قرآن مجید میں دو مقامات پر صراحت
کیساتھ ہوا ہے ۔ایک تو سورة بنی اسرائیل میں دوسرا سورة النجم میں ۔نیز کتب
احادیث میں تفصیل و تواتر کیسا تھ اس کا ذکر وارد ہوا ہے ۔یہ واقعہ در اصل
رسول اکرم ﷺ کی ایک نہایت ہی طویل ترین سیر پر مشتمل ہے جس میں آپکو بڑے
تزک و احتشام اور عزت افزائی کیسا تھ بارگاہِ خداوندی میں پذیرائی نصیب
ہوئی کہ اولین و آخرین میں کسی کو یہ عظمت و ہیبت نصیب نہ ہوئی ۔اولو ل
اعزم انبیاءو رسل انگشت بدنداں رہ گئے ۔ملائکہ المقربین غلامانہ حاضر خدمت
ہوئے فرشتوں کے سردارحضرت جبرائیل امین آگے بڑے قدموں کے بوسے لئے جب میرے
آقا ﷺبن سنور کر سوئے باری تعالیٰ چلے تو اس شان سے چلے کہ :اعلیٰ حضرت
امام اہلسنت حضرت مولانا امام شاہ احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ
فرماتے ہیں :
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفےٰ کے یوں
کیف کے پرجہاں جلے کوئی بتا ئے کیا کے یوں
معراج کی غرض و غایت:ہر سفر کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے ۔اللہ
تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو سیر کرانے کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد
فرمایا:لنریہ من اٰیٰتنا۔”سیر ا س لئے کرائی کہ محبوب ﷺکو اپنی قدرت کی
نشانیاں دکھائیں ۔“
سفر یاارادہ سفر کسی ایرے غیرے کا ہو تو مقصد کے حصول میں کامیابی کی امید
اور ناکامی کا کھٹکا پہلو بہ پہلو چلتے ہیں اور کئی جویانِ منزل ،عزم مصّمم
،جُہدِ مسلسل اور زادورفاقت کے باوجود ناکام لوٹتے ہیں ۔لیکن یہاں ارادہ
فرمانے والی وہ ہستی ہے جو قادر مطلق ہے۔علیٰ کل شی ءاور فعال لما
یرید۔اسکی شان ہے اس کا ہر امر اسی کے ۔”کن “ کے تابع فرمان ہے ۔آیت
مقدسہ:انماامرہ اذا اراد شیا ا ن یقول لہ کن فیکون ۔
اسی پر دلیل ہے :جب رب قدوس کا ارادہ ہو محبوب ﷺکو اپنی قدرت کی نشانیاں
دکھانے کا تو کون اس کے ارادے میں حائل ہو سکتا ہے اور کون اس کی تکمیل میں
رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ وہاں تو ناکامی کا تصور بھی محال قطعی ہے ۔رب قدوس خود
”ذوالجلال والاکرام“ ہے محبوب ﷺبے مثل و مثال ہے بلکہ لا زوال و باکمال ہے
وہ عجائب دکھاتا اور یہ دیکھتا چلا گیا ۔اللہ رب العزت نے کامیابی کی سند
عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :لقد راٰی من اٰیٰت ربہ الکبریٰ۔”محبوبﷺ نے
اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔“ (سورة النجم)
یعنی جو ارادہ ہم رکھتے تھے اسے کما حقہ پایہ تکمیل تک پہنچایا میرے محبوب
ﷺاپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھ کر واپس ہوئے ۔وہ بڑی بڑی نشانیاں کیا
تھیں ؟کون کونسی تھیں؟حقیقتِ حال تو دکھانیوالا جانے یا دیکھنے والا جانے
۔البتہ ان نشانیوں میں سے جنہیں آپ نے مناسب سمجھا اُمت کے سامنے بیان
فرمایا ان میں سے چند ایک ہدیہ قارئین ہیں۔
حضرت امام قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں
:”آیات کبریٰ سے مراد عالم ملکوت کی عجیب و غریب چیزیں ہیں جن کا معراج کی
رات آپ ﷺ نے سفرِ معراج پر جاتے اور آتے ہوئے مشاہدہ فرمایا ۔ مثلاً براق
،ہفت افلاک اور انبیاءکرام (کی زیارت و ملاقات)سدرة المنتہیٰ اور جنت
الماویٰ ۔“ (تفسیر مظہری)
امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت
کیا ہے کہ حضور ﷺ نے یقینا بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا ان میں سے ایک یہ ہے :
راٰی جبریل علیہ السلام لہ ست ما ئة جناح۔”آپ ﷺ نے جبریل امین کو اپنی اصلی
صورت میں دیکھا کہ آپ کے چھ سو پر تھے ۔“(بخاری و مسلم)
اما م بخاری و امام ترمذی رحمة اللہ علیہما آیت مذکور :ولقد راٰی من اٰیٰت
ربہ الکبریٰ۔کے تحت لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ حضور ﷺ نے سبز رنگ کا رفرف دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ
رکھا تھا ۔
قبر موسیٰ :دوران سفر آپکا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر سے ہوا
جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں :مررت بقر موسیٰ فاذا ھو قائم یصلی فی قبرہ۔”میں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرا کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی
قبر میں کھڑے صلوٰة پڑھ رہے ہیں ۔“
اس روایت میں ”یصلی“کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ ”صلوٰة “ہے جس کا
معنیٰ ”نماز “و”درود“ وغیرہ کے ہیں ۔ عام طور پر روایت میں لفظ ”یصلی“ کا
ترجمہ نماز کا کیا جاتا ہے اگر چہ وہ معنیٰ بھی دُرست ہے اور قرآن و سنت
میں اس کی تائید موجود ہے ۔ لیکن دوسرا معنیٰ درود و صلوٰة والا بھی تو
قرآن و سنت کی اصطلاح ہی سے اخذ کیا گیا ہے ۔میرا عشق کہتا ہے کہ وہ دن قبر
میں نماز پڑھنے کا نہ تھا ۔معراج کی رات تو ساکنان افلاک جو ہر وقت عبادت و
ریاضت میں سرگرم رہتے تھے کو بھی اپنے رو مرہ کے معمولات سے سبکدوش کر دیا
گیا اور انہیں پابند کر دیا گیا کہ آج کی رات سبھی صف بستہ کھڑے ہو کر
محبوبﷺ کی بارگاہ میں درود و سلام کے نذرانے پیش کر کے سعادت ازلی
وابدیحاصل کر لو۔ماننا پڑے گا معراج کی رات حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی
سابقہ معمولات کو ترک کر کے مؤدبانہ کھڑے ہو کر حضور ﷺکی بارگاہ میں درود و
سلام کے نذرانے پیش کر رہے تھے ۔ جب آپ مسجد اقصیٰ پہنچے تو دیگر تمام
انبیاءکرام کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی موجود تھے ۔سبھی آپکی
بارگاہ میں ان الفاظ سے سلام عرض کر رہے تھے : ”السلام علیک یا اول، السلام
علیک یا اٰخر ،السلام علیک یا حاشر۔“(مدارج)
آپ نے یہ واقعہ بیان کر کے امت کو بتادیا کہ اللہ کے نبی زندہ ہوتے ہیں
۔جہاں چاہیں آجا سکتے ہیں ۔جب کلیم اللہ کی یہ شان ہے تو حبیب اللہ کی شان
کیا ہوگی ۔کہیں تم یہ خود ساختہ عقیدہ نہ بنالینا کہ نبی تو مر کے مٹی میں
مل گئے ۔بلکہ وہ زندہ و جاوید ہیں ۔اسی لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
بریلوی رحمة اللہ علیہ حضور امام الانبیاءﷺ کے بارے فرماتے ہیں :
تو زندہ ہے واللہ ، تو زندہ ہے واللہ
میری چشم عالم سے چھپ جانے والے
ایک بڑھیا کا دیکھنا:حضرت مولانا اسماعیل حقی رحمة اللہ علیہ تفسیر روح
البیان میں لکھتے ہیں ۔دوران سفر آپ پر دنیا کا حال ظاہر ہوا کہ اسے آپ نے
ایک بوڑھی عورت کی شکل میں دیکھا جس کے بال بنے سنور ے ہوئے تھے ۔کہنیوں سے
کپڑا اُترا ہوا تھا اس پر ہر قسم کا ہار سنگھار تھا ظاہر زینت کا صرف ایک
سبب بھی اپنی طرف راغب کر لیتا ہے پھر اس کا کیا حال ہو گا جس میں بناﺅ
سنگھار اور زیب و زینت بدرجہ کمال موجود ہو ۔اس بڑھیانے آپ کو آواز دی لیکن
آپ نے اسکی طرف توجہ نہ کی جبریل امین سے پوچھا یہ کون ہے عرض کی یہ دنیا
ہے اگر آپ اس کی بات سن کر اس کی طر ف توجہ فرماتے تو آپکی ساری اُمت دُنیا
کے فتنوں میں مبتلا ہو جاتی۔“
بے نمازی کا برا حال:پھر آپکا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جو زمین پر اوندھے
پڑے ہیں انکے سر بھاری پتھروں سے پھوڑے جا رہے ہیں ۔ ان پر فرشتے مقرر ہیں
جب پتھر انکے سر پر پڑتا ہے تو سر پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ۔پتھر
اُٹھانے سے پہلے انکے سر صحیح حالت پہ آجاتے ہیں لگا تاریہ سلسلہ جاری ہے
آپﷺ نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی یہ آپکی اُمت
کے بے نمازی ہیں ۔لہٰذا اس سخت ترین عذاب سے بچنے کے لئے نماز کا اہتمام
ضروری ہے۔
زکوٰة ادا نہ کرنے والوں کا حال:شب معراج آپﷺ نے ایک ایسی جماعت کو دیکھا
جنکی شرم گاہوں پر آگے پیچھے پھٹے پرانے بد بو دار کپڑے ہیں وہ مویشیوں کی
طرح جہنم کی وادیوں میں چر رہے ہیں اور وہاں کے درخت زقوم کے کانٹے اور
جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں ،آپﷺ نے جبریل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون
لوگ ہیں ؟عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرتے تھے
۔اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم
کیا۔زکوٰة نہ دینے پر کتنا سخت عذاب ہے ۔جبکہ ادائیگی پر مال میں برکت اور
آخرت میں نجات ہے ۔
علماءسو کا حال:شب معراج آپﷺ نے دیکھا کہ بعض ایسے لوگ ہیں جن کے ہونٹ اور
زبانیں لوہے کی بڑی بڑی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ،جب کٹ جاتے ہیں تو پھر
صحیح حالت پر آجاتے ہیں یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے ۔آپ نے پوچھا یہ کون لوگ
ہیں ؟جبریل علیہ السلام نے عرض کی! یہ آپ کی اُمت کے علمائِ سو ہیں جو
لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے فتنہ پرور تقریریں کیا کرتے تھے اور بروایت
دیگر جو کہتے تھے اُس پر خود عمل نہ کرتے تھے ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن
مجید میں فرمایا :”تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے ۔“
شب معراج آپﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانوں کی طرح
تھے ۔جن میں بڑے بڑے سانپ بھرے ہوئے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :”رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات
میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے بڑ ے مکانوں کی طرح تھے جن
میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آتے تھے میں نے پوچھا اے جبریل ! یہ کون لوگ
ہیں ؟ عرض کی یہ سود کھانے والے لوگ ہیں ۔“(احمد ،ابن ماجہ ،مشکوٰة
،صفحہ246)
یتیموں کا مال کھانیوالوں اور زانیوں کا حال:امام بیہقی روایت فرماتے ہیں
کہ :”حضو ر ﷺ نے ارشاد فرمایا دوران سفر میں نے دیکھا کہ دستر خوان بچھے
ہیں ان پر نہایت عمدہ ولذیذ بھنا ہوا گوشت رکھا ہے اور دوسری طرف نہایت بد
بو دار اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے لوگوں کی ایک جماعت ہے جن میں عورتیں بھی
ہیں اور مرد بھی وہ لذیذ گوشت کے تو پاس نہیں جاتے اور بد بو دار گوشت کو
کھائے جا رہے ہیں ۔پوچھنے پر جبریل امین علیہ السلام عرض کرتے ہیں یہ لوگ
اپنی طیب و طاہر عورتوں کو چھوڑ کر غیر عورتوں کے پاس رات بسر کیا کرتے تھے
اور یہ عورتیں وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر رات غیر مردوں کے پاس بسر
کیا کرتی تھیں ۔پھر کچھ لوگوں کو دیکھا کہ جن کے ہونٹ اُونٹوں کی طرح تھے
فرشتے انکے منہ کھول کر ان میں پتھر ڈال رہے تھے ۔جو ان کے نچلے حصے سے
باہر نکل جاتے تھے ۔میں نے سنا وہ اللہ تعالیٰ سے فریاد کر رہے تھے پوچھنے
پر جبریل امین علیہ السلام نے عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلماً
کھاتے تھے یہ لوگ درحقیقت خود ہی اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے رہے عنقریب ان
لوگوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔(دلائل النبوة 313/2)لہٰذا ہمیں حلال و
حرام میں فرق رکھتے ہوئے احکاماتِ ربانی ومصطفویﷺ پر عمل کرنا چاہیے ۔
جنت و جہنم کو دیکھنا:اسکے بعد آپ ﷺنے جنت کی سیر کی حورو قصور اور جنتی
محلات و باغات کو دیکھا جہنم کو ملاحظہ فرمایا۔ جہنم کی بڑی بھیانک آوازیں
آرہی تھیں جہنم کہہ رہی تھی اے اللہ مجھے اہل دوزخ عطا فرما جن کا تو نے
مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کیونکہ میرے طوق میری زنجیریں میرے شعلے میری گرمی و
حرارت بہت بڑھ رہے ہیں۔(دلائل النبوة 2)
الغرض آپ ﷺ نے معراج کی رات بے شمار عجائب اور قدرت کی نشانیاں دیکھیں ۔جن
کو اللہ تعالیٰ نے ایک جملے میں بیان فرما دیا ۔
ولقد راٰی من اٰیٰت ربہ ا لکبریٰ |