بسلسلہ یوم وفات امیرالمومنین
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ: 22رجب(25جون، 2011ئ)
عصر حاضر کے فاضل مورخ ڈاکٹر خورشید احمد فاروق P.H.D فرماتے ہیں۔ امیر
معاویہؓ کو اندیشہ تھا اور بجاطور پر کہ اگر وہ خلافت کا معاملہ معلق چھوڑ
کر وفات پاگئے تو حریفان خلافت لڑیں گے اور ان کی لڑائیوں کے سامنے جمل و
صفین کی لڑائیاں گرد ہوجائیں گی۔ مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ سرحد
پار کے دشمنوں کی بن آئے گی اور اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔
قریش کے کئی سمجھ دار لوگوں نے جن کو ان امور کا تجربہ تھا رائے دی کہ یزید
کو ولی عہد نامزد کیا جائے۔ (برہان، اپریل 1960 ءبحوالہ سیدنا معاویہؓ از
فاروقی ص71 )
اس سلسلے میں پہلی رائے سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کی تھی جو مسلمانوں کی باہمی
خانہ جنگی کا خونی ڈرامہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے
حضرت معاویہ ؓ سے فرمایا کہ وہ ساری فرقہ بندیاں اور خونریزیاں جو حضرت
عثمانؓ کی شہادت کے بعد ہوئیں میری نگاہوں میں ہیں۔ اس لیے میری رائے یہ ہے
کہ امت کو اختلاف اور فتنہ وفساد سے بچانے کے لیے اگر آپ ولی عہدی یزید کی
بیعت لے لیں تو مناسب ہے۔ ورنہ پھر آپ کے بعد وہی حالت ہوجائے گی۔ جو حضرت
عثمانؓ کے بعد ہوئی۔ (تاریخ ملت، ج 3 ص 22 بحوالہ سیدنا معاویہ ؓ از فاروقی
ص 71 )
حضرت معاویہؓ نے حضرت مغیرہؓ کی رائے قبول کرنے سے پہلے عام امت کی رائے
لینا بھی ضروری سمجھا۔ چنانچہ 51 ھ میں تمام صوبوں کے اشراف و سادات کو خط
لکھ کر بلوایا اور ا س متعلق ان سے رائے طلب کی۔ (البدایہ، ابن کثیر ص 80 ج
8 )شیوخ کوفہ نے کہا ہم اس رائے کو پسند کرتے ہیں کہ ولی عہدی کی بیعت لی
جائے۔ روسائے بصرہ نے کہا ہمارے خیال میں امیر المومنین کی رائے درست معلوم
ہوتی ہے۔ اکابرین شام نے کہا ہماری رائے یہی ہے کہ آپؓ یزید کو ولی عہد
مقرر کردیں۔ (مروج الذھب، المسعودی الشیعی، ص 50 ج 2 ) (عقد الفرید، ابن
عبد ربہ ص 238 ، ج 2 بحوالہ سیدنا معاویہؓ فاروقی ص 72)
صرف مدینہ سے مخالفت کی آواز اٹھی۔ حضرت معاویہؓ آخری ایام خلات 56 ھ میں
خود مدینہ گئے اور قریشی بزرگوں سے ملے اور وہ تمام اندیشے پیش کیے جن کا
تذکرہ حضرت مغیرہؓ اور دیگر نے کیا۔ یہاں بھی لوگ تیار ہوگئے۔کوئی خوشی
خوشی اورکوئی بادل نخواسہ جن لوگوں نے اختلاف کیا ان میں حضرت ابن زبیرؓ،
حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن ابی بکرؓ کے سو اس کسی نے اپنی
مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔(سیدنا معاویہؓ از فاروقی ص 72 )
اس سے ایک اہم اعتراض حضرت معاویہؓ پر یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ابوبکرؓ و
عمرؓ کی سنت چھوڑ کر قیصرو کسریٰ کی بدعت اختیار کی لیکن اسے بدعت نہیں کہا
جاسکتا اگر باپ کے بعد بیٹے کا تخت نشیں ہونا، بدعت ہوتا تو حسن مجتبیؓ
اپنے والد ماجد کے جانشین خلافت ہرگز نہ ہوتے۔ جبکہ اکابر و اعاظم سادات
اور اصحاب مبشرہ موجود تھے۔
حضرت معاویہؓ نے لوگوں کے اختلاف کو دیکھا تو جس طرح سابقہ خلفاءراشدین اہم
معاملوں میں حضرت عائشہؓ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے وہ بھی ام المومنینؓ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اماں! اس مسئلہ میں کچھ لوگ اختلاف کررہے
ہیں۔ آپؓ ہمیں کیا مشورہ دیتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا تم اس کام میں
عجلت نہ کرو۔ (الامامة والسیاسة۔ ابن قتیبہ، ص 198 ج 1 )
مشورہ بہت دوراندیش تھا۔ حضرت معاویہؓ نے پھر کسی سے کچھ نہیں کہا اور دمشق
جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اسی درمیان ابن عمرؓ تشریف لائے اور بقول طبری
انہوں نے بیعت کرلی۔ پھر باقی لوگ بھی آمادہ ہوگئے۔ فباع لہ الناس فی سائر
الاقالیم (سیدنا معاویہؓ از ضیاءالرحمن فاروقی ص 72 )، پھر حضرت ابن حنیفہؓ
آئے اور انہوں نے بھی بیعت کرلی۔ پھر باقی لوگ بھی آمادہ ہوگئے۔ حضرت
معاویہؓ کی زندگی بھر کسی نے مخالفت نہیں کی۔ تکمیل بیعت کے بعد حضرت
معاویہؓ اللہ تعالی کے حضور یہ دعا مانگی:”خدایا اگر میں نے یزید کو اس لیے
ولی عہد بنایا کہ وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کی ولی عہدی قبول فرما
اور اگر میں نے محبت پدری کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو قبول نہ فرما۔ (البدایہ۔
ص 80 ج )
دیگر تمام صحابہ کرامؓ کی مانند سیدنا معاویہؓ کادامن اطہر بھی دنیاوی جاہ
و حشم اور حرص اقتدار سے قطعی پاک تھا۔ اگر ایسانہ ہوتا تو نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کبھی بھی سیدنا معاویہؓ کو کاتب وحی مقرر نہ فرماتے۔ لہٰذا مقام
صحابہ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سیدنا امیر معاویہؓ سمیت کسی بھی صحابیؓ کے
متعلق دل و دماغ کے کسی گوشے میں رتی برابر بھی منفی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔
اگر ایسا ہے تو یہ ایمان کے لیے خطرہ ہے اور اس خطرے اور مرض کے علاج کے
لیے عظمت صحابہ کے میدان میں ید طولیٰ رکھنے والے علماءو مشائخ کی صحبت میں
بیٹھ کر اپنے دل و دماغ کی صفائی کروانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب و
اذہان میں مقام صحابہ صحیح معنیٰ میں اجاگر کردے اور ہمیں عظمت صحابہ کے
تحفظ کے لیے ہر لمحہ ہر طرح کی قربانی کے لیے مستعد رہنے والا بنادے، آمین! |