عاطی لاہوریا اور مبینہ پولیس مقابلہ: وہ گینگسٹر جس کا تعاقب گوجرانوالہ پولیس کو سربیا کے جنگلوں تک لے گیا

image
 
جرائم کی دنیا میں ان کے سفر کا آغاز نو عمری ہی میں اس وقت ہو گیا تھا جب غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں انھیں پہلی مرتبہ جیل جانا پڑا تھا۔ اس وقت عاطف زمان کی عمر محض 16 برس تھی۔
 
اگلے دس برس میں یہ نوجوان لڑکا چھوٹے موٹے جرائم کرتا ایک منظم گینگ کا سرغنہ بن چکا تھا۔ اس کے پاس ایک وقت میں درجن بھر سے زیادہ ’گینگسٹر موجود ہوتے تھے جن میں زیادہ تر اجرتی قاتل تھے۔‘ عاطف زمان اب خود کو عاطی لاہوریا کہلواتا تھا۔
 
عاطی لاہوریا نے اگلے پانچ برسوں میں مبینہ طور پر کئی افراد کو قتل کیا جن میں پولیس کا ایک اہلکار بھی شامل تھا۔ گرفتاری کے خوف سے سنہ 2015 میں وہ ملک سے فرار ہو گئے۔ متحدہ عرب امارات اور ترکی سے ہوتے وہ وسطی یورپی ممالک کی سرحدوں تک جا پہنچے۔
 
صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کی پولیس ان کے تعاقب میں پہنچی۔ ان کا پیچھا کرنے والے پولیس کے افسر کو چھ روز سربیا اور ہنگری کی سرحد پر واقع ایک جنگل میں گزارنا پڑے تھے۔ وہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے اس گروہ میں شامل ہو گئے تھے جس میں عاطی لاہوریا موجود تھے۔
 
یہ لوگ انسانی سمگلروں کی مدد سے سربیا سے ہنگری میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تھے۔ گوجرانوالہ پولیس کے سپیشل آپریشنز سیل کے انچارج خالد نواز واریا کو وہ چھ روز نہیں بھولتے۔
 
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اس جنگل میں جگہ جگہ انسانی کھوپڑیاں اور ڈھانچے دیکھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو غیر قانونی طریقے سے یورپ داخل ہونے کی کوشش میں اسی جنگل میں ختم ہو گئے تھے۔ ان کی لاشیں وہیں چھوڑ دی جاتی تھیں۔‘
 
تاہم پولیس عاطی لوہوریا کو گرفتاری کے بعد فوری طور پر پاکستان منتقل نہیں کر پائی تھی۔ انھوں نے ہنگری کی عدالت اور یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت میں اپیل کر دی تھی کہ ’پاکستان لے جا کر پولیس انھیں قتل کر دے گی۔‘
 
گوجرانوالہ پولیس کو یورپ کی عدالتوں کو اس بات پر مطمئن کرنے میں کہ عاطی لاہوریا ایک خطرناک مجرم تھے اور پاکستان میں انھیں قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، تقریباً چار برس لگے۔ تب جا کر انھیں ملزم کو پاکستان منتقل کرنے کی اجازت ملی۔
 
image
 
حال ہی میں انھیں ہنگری سے گوجرانوالہ منتقل کیا گیا تاہم دو ہی روز کے اندر عاطی لاہوریا کو گوجرانوالہ میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔
 
پولیس کے مطابق انھیں ’اسلحہ برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ ان کے ساتھیوں نے انھیں چھڑوانے کے لیے پولیس پر حملہ کر دیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں عاطی لوہوریا اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔‘
 
ماضی میں پاکستان میں ہونے والے مبینہ پولیس مقابلوں کا جائزہ لیں تو ان سب میں نہ تو پولیس کا طریقہ کار بدلا ہے اور نہ ہی کہانی۔
 
پاکستان میں عام طور پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس ہر گینگسٹر یا ملزم کی گرفتاری کے لیے اتنی تگ و دو نہیں کرتی، تو عاطی لاہوریا کے لیے پولیس اتنی دور تک کیوں گئی؟
 
گوجرانوالہ پولیس کے ایس او سی کے انچارج خالد واریا کے مطابق ’عاطی لاہوریا نہ صرف مختلف مقدمات میں مطلوب تھے بلکہ وہ باہر بیٹھ کر بھی پاکستان میں بھتے اور کرائے کے قتل کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کارروائیوں کو روکنے کا واحد حل ان کی گرفتاری تھی۔‘
 
تاہم کیا یہی اس کی واحد وجہ ہو سکتی تھی۔ پولیس نے یورپ پہنچ جانے کے باوجود عاطی لاہوریا کا سراغ کیسے لگا لیا اور ان کو گرفتار کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی۔
 
عاطی لاہوریا کون تھا؟
ان کی پیدائش یوں تو گوجرانوالہ میں ہوئی تھی لیکن آباؤ اجداد کا تعلق لاہور سے ہونے کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ لاہوریا لگانا پسند کرتے تھے۔ پولیس کے مطابق جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد عاطی لاہوریا ایک سفاک قاتل اور بے باک قسم کے گینگسٹر بن کر سامنے آئے تھے۔
 
وہ پولیس پر بھی گولی چلانے سے نہیں گھبراتے تھے۔ سنہ 2011 میں فیروزوالا کے مقام پر چھ افراد کو چند نا معلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
 
اس واقعہ میں پولیس کی تحقیقات عاطی لاہوریا تک پہنچی تھیں۔ سپیشل آپریشنز سیل کے انچارج خالد نواز واریا نے بی بی سی کو بتایا کہ قتل ہونے والوں میں سے چار افراد کے دشمنوں نے عاطی لاہوریا کو ان کی سپاری دے رکھی تھی۔
 
’جرائم کی دنیا میں سپاری پیسے کے عوض کسی شخص کو قتل کرنے کے ہدف کو کہا جاتا ہے۔ عاطی لاہوریا خود گولیاں چلانے والوں میں شامل تھا۔‘
 
image
 
عاطی لاہوریا کا نشانہ بننے والوں میں کون کون شامل تھا؟
خالد واریا نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2011 میں جب پولیس ان کو گرفتار کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی تو پولیس کانسٹیبل محمد نسیم اس کوشش میں پیش پیش تھے۔ عاطی لاہوریا اور ان کے ایک معاون گینگ کے سرغنہ مہران عرف چندو نے مل کر محمد نسیم کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
 
ان کا نشانہ بننے والوں میں ایک پولیس اہلکار شامل ہو چکا تھا۔ عمومی طور پر پاکستان میں پولیس اپنے کسی بھی وردی والے ساتھی کے قتل کو نہیں چھوڑتی تاہم پولیس کے مطابق عاطی لاہوریا نے آنے والے برسوں میں قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری رکھا تھا۔
 
دو سال بعد تھانہ اروپ کی حدود میں ایک تاجر ملک حنیف کھوکر کو عاطی لاہوریا کے گینگ کے افراد نے مبینہ طور پر گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ اگلے ہی برس علی پور چٹھہ میں محمد الیاس نامی تاجر مبینہ طور پر ان کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ انھوں نے عاطی لاہوریا کو بھتہ کی رقم ادا کرنے سے انکار کیا تھا۔
 
’کسی کی ٹانگ میں گولی ماری تو کسی کے بازو میں‘
ایس او سی کے انچارج خالد واریا کے مطابق اس سے قبل بے شمار ایسے واقعات تھے جہاں بھتہ نہ دینے والے افراد کو دھمکانے کے لیے عاطی لاہوریہ نے مبینہ طور پر ان پر قاتلانہ حملے کیے اور ’کسی کی ٹانگ میں گولی مار دی، کسی کے بازو میں گولی مار دی۔‘
 
سنہ 2015 میں عاطی لاہوریا نے مبینہ طور پر ایک تاجر کاشف شہزاد کو قتل کیا۔ پولیس کے مطابق عاطی لاہوریا اور ان کے گینگ نے بھتہ دینے سے انکار کرنے اور پولیس کو اطلاع کرنے پر کاشف شہزاد کے والد کو بھی سنہ 2008 میں قتل کر دیا تھا۔
 
کاشف شہزاد کو مبینہ طور پر قتل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عاطی لاہوریا کی دھمکیوں میں نہ آتے ہوئے اپنے والد کے قتل کا مقدمہ لڑنے پر ڈٹ گئے تھے۔ گوجرانوالہ اور گرد و نواح کے اضلاع کی کاروباری شخصیات کے لیے خاص طور پر عاطی لاہوریا کا نام دہشت کی علامت تھا۔
 
’تاجر نے 20 ہزار روپے بھتہ کم دیا تھا، اسے مار دیا‘
خالد واریا کے مطابق عاطی لاہوریا بس ایک کال کرتا تھا۔ ’یہ اس کا طریقہ واردات تھا۔ انٹرنیٹ سے اپنی شناخت چھپا کر وہ اپنے ہدف کو کال کرتا تھا تاکہ کال ٹریس نہ ہو سکے۔ بھتے کی رقم ایسی جگہ پر رکھنے کا کہا جاتا تھا جہاں پولیس نہ پہنچ سکے۔ اس کے آدمی وہ رقم اٹھا کر لے جاتے تھے۔‘
 
گوجرانوالہ پولیس عاطی لاہوریا کو گرفتار کرنے کے قریب پہنچی تو وہ پہلے متحدہ عرب امارات کی طرف فرار ہو گئے۔ تاہم بیرونَ ملک میں جا کر ان کی کارروائیوں میں زیادہ تیزی آ گئی تھی۔ پولیس کے مطابق اب انھیں رقم کی زیادہ ضرورت تھی۔
 
image
 
پولیس کے مطابق اگلے دو برس کے عرصے میں گوجرانوالہ سے ہنڈی کے ذریعے عاطی لاہوریا کو لاکھوں روپے منتقل کیے گئے۔
 
سنہ 2017 میں محمد عمران نامی تاجر کو دو موٹر سائیکل سوار نوجوان لڑکوں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق ان لڑکوں کا تعلق عاطی لاہوریا کے گینگ سے تھا۔ ’عمران تاجر کو بھتے میں مانگی گئی رقم میں سے 20 ہزار روپے کم ادا کرنے پر قتل کیا گیا۔‘
 
پولیس نے عاطی لاہوریا کا بیرونِ ملک تعاقب کیسے کیا؟
گوجرانوالہ پولیس نے سنہ 2016 میں عاطی لاہوریا کی گرفتاری کے لیے انٹرپول یعنی انٹرنیشنل پولیس سے رابطہ کیا تاہم گرفتاری سے قبل وہ متحدہ عرب امارات سے ترکی کی طرف فرار ہو گئے۔ وہاں سے سنہ 2017 میں وہ غیر قانونی طریقے سے یونان میں داخل ہوئے۔
 
یہاں بھی وہ زیادہ دیر نہیں رکے اور رومانیہ، بوسنیا، سربیا اور ہنگری کے راستے وسطی یورپ کے ممالک کی طرف چل نکلے۔
 
گوجرانوالہ پولیس کے سپیشل آپریشنز سیل کے انچارج خالد واریا نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس پاکستان میں ان کے ساتھیوں سے ہونے والے ان کے رابطوں کے ذریعے ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی جبکہ انھیں انٹرپول کا تعاون بھی حاصل تھا۔
 
’ان کی کالز کو ٹیپ کیا جا رہا تھا اور سوشل میڈیا کے استعمال کرنے پر بھی ہم ان کی لوکیشن جان لیتے تھے کیونکہ وہ غیر قانونی طریقے سے ان ممالک میں سفر کر رہا تھا اس لیے وہ زیادہ تر سرحدی علاقوں کے قریب رہتا تھا۔‘
 
ملزم نے پولیس سے بچنے کے لیے سربیا کا رخ کیوں کیا؟
خالد واریا اور ان کے ساتھی عاطی لاہوریا کے تعاقب میں تھے۔ پولیس کے مطابق ملزم کو اس کی پیشگی اطلاع مل جاتی تھی۔ کئی ممالک میں انٹرپول کی مدد سے ان کی گرفتاری کے لیے کیے جانے والے ریڈ سے پہلے ہی وہ وہاں سے فرار ہو چکے ہوتے تھے۔
 
پولیس سے بچنے کے لیے عاطی لاہوریا نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں ان کے خیال میں گوجرانوالہ پولیس کے لیے ان کے تعاقب میں آنا ممکن نہیں تھا۔ وہ جب سربیا میں پہنچے تو انھوں نے سربیا اور ہنگری کے سرحدی علاقے کا رخ کیا تھا۔
 
ہنگری کی سرحد سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاؤں دنیا بھر سے غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ تھا۔ وہ یہاں سے ہنگری یعنی یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تھے تاہم ان کے راستے میں ایک طویل اور پر خطر جنگل آتا تھا جو انھیں عبور کرنا پڑتا تھا۔
 
پولیس کے مطابق اس علاقے میں ان کی گرفتاری کے لیے آپریشن کرنا ناممکن تھا۔ ایس او سی کے انچارج خالد واریا نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کی اطلاعات کے مطابق عاطی لاہوریا اسی راستے سے ہنگری اور وہاں سے آسٹریا جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
 
image
 
’ان کو ڈھونڈنے کے لیے آٹھ تارکین وطن کے گروہوں میں شامل ہوا‘
خالد واریا اور ان کے ساتھیوں نے ابتدا میں آسٹریا پہنچنے پر عاطی لاہوریا کی گرفتاری کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ صحیح وقت پر اس بات کا علم ہو پائے کہ وہ کب اور کس طرح ہنگری میں داخل ہوتے ہیں ورنہ ان کو گرفتار کرنے کے مواقع ختم ہو سکتے تھے۔
 
تاہم مشکل یہ تھی کہ سربیا میں عاطی لاہوریا کو کیسے تلاش کیا جائے۔ ان کو تلاش کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ اتنا علم تھا کہ انسانی سمگلروں کی مدد سے کسی گروہ کے ساتھ سرحد عبور کرنے کی کوشش کریں گے۔
 
ان کے تعاقب میں خالد واریا نے بھی سربیا کے اسی سرحدی گاؤں میں جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں سے انسانی سمگلر گروہوں کی صورت میں تارکینِ وطن کو سرحد پار ہنگری پہنچاتے تھے۔
 
’ان کو ڈھونڈنے کے لیے میں تقریباً آٹھ مخلتف ایسے گروہوں میں تارکِ وطن کے طور پر شامل ہوا۔ جب وہ اس ایک گروہ میں نہیں ملتا تھا تو میں ایک دن بعد اس کو چھوڑ دیتا تھا۔‘
 
’جگہ جگہ کھوپڑیاں اور ڈھانچے پڑے تھے‘
بالآخر نویں مرتبہ خالد واریا کو کامیابی ہوئی۔ ایک گروہ میں عاطی لاہوریا انھیں مل گئے تاہم گوجرانوالہ پولیس کے افسر کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ جس جنگل سے گزریں گے وہ کیسا تھا۔
 
ان کے مطابق وہاں نہ صرف بارڈر گارڈز کا خطرہ تھا جو انھیں نشانہ بنا سکتے تھے یا پھر جرائم پیشہ افراد سے بھی سامنا ہو سکتا تھا۔ جنگل کی سختیاں اس کے علاوہ تھیں۔
 
’ہم نے چھ دن اس جنگل میں گزارے جس میں چار دن مسلسل بارش ہوتی رہی۔ جنگل میں جگہ جگہ مجھے انسانی کھوپڑیاں اور ڈھانچے پڑے نظر آئے۔ جو یہاں مر جاتا تھا اس کی لاش وہیں چھوڑ دی جاتی تھی۔ جرائم پیشہ افراد سے سامنا ہونے کا خطرہ اس کے علاوہ تھا۔‘
 
خالد واریا کے مطابق یہ چھ دن ان کے تمام تر آپریشن کے کٹھن ترین دن تھے۔ سونے کے لیے جگہ اور موقع کم ملتا تھا اور گروہ کے اندر جرائم پیشہ افراد بھی شامل تھے۔
 
image
 
عاطی لاہوریا کو کہاں اور کیسے حراست میں لیا گیا؟
خالد واریا انٹرپول اور ان کے تعاون سے ہنگری کی پولیس کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ دوران سفر انھوں نے اپنا پلان تبدیل کر لیا۔ اب وہ عاطی لاہوریا کو آسٹریا کے بجائے ہنگری ہی میں گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ اس بات کا امکان تھا کہ وہ ہنگری ہی سے غائب ہو جاتے۔
 
ہنگری کی پولیس کے ساتھ ان کے منصوبے کے مطابق جب ان کا گروہ سرحد عبور کر کے ہنگری میں داخل ہوا تو انسدادِ انسانی سمگلنگ کی کارروائی میں گروہ کے تمام افراد کو پکڑ لیا گیا۔
 
’ہم نے اس کارروائی کو ایسا رنگ دیا کہ جیسے یہ انسانی سمگلنگ کے خلاف کی جا رہی ہے۔ عاطی لاہوریا کو گرفتار کرنے کے بعد وعدے کے مطابق گروہ کے باقی افراد کو واپس سربیا ملک بدر کر دیا گیا تھا‘ تاہم یہاں سے عاطی لاہوریا کو واپس پاکستان لانا اب بھی ممکن نہ ہوا۔
 
’یورپ میں بھی اسلحہ مل جاتا ہے۔۔۔ پیچھے آنے والوں کو دیکھ لوں گا‘
ہنگری کے ساتھ پاکستان کی ایکسٹراڈیشن ٹریٹی یعنی ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں خالد واریا ملزم کو آسٹریا میں گرفتار کرنا چاہتے تھے جس کے ساتھ ایکسٹراڈیشن ٹریٹی موجود تھی۔
 
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عاطی لاہوریا نے ہنگری پولیس کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا جرائم سے تعلق نہیں تھا اور یہ کہ اگر وہ واپس پاکستان گئے تو پولیس انھیں قتل کر دے گی۔
 
اس صورتحال میں خالد واریا اور ان کی ٹیم کا پہلا ہدف یہ تھا کہ کسی طرح عاطی لاہوریا کو ہنگری ہی میں جیل میں رکھا جائے جب تک ان کی پاکستان منتقلی کے لیے راہ ہموار نہیں ہو جاتی۔ اس میں عاطی لاہوریا کی اس کال نے ان کی مدد کی جو انھوں نے ٹیپ کی تھی۔
 
’پاکستان میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کال میں عاطی لاہوریا کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا تھا کہ یورپ میں بھی اسلحہ مل جاتا ہے، جو پولیس والے میرے پیچھے آ رہے ہیں میں ان کو دیکھ لوں گا۔‘
 
خالد واریا کے مطابق اس ٹیپ نے ہنگری کی پولیس اور عدالت کو قائل کرنے میں مدد دی کہ ملزم انتہائی خطرناک تھا اور ان کے ملک میں بھی انتشار پھیلا سکتا تھا۔
 
’انھوں نے میرے بھائی کو ہلاک کر دیا تھا، مجھے بھی کر دیں گے‘
عاطی لاہوریا جیل چلے گئے تاہم انھوں نے یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت سے بھی رجوع کر لیا اور بات ہنگری کی عدالتِ عظمیٰ تک بھی پہنچ گئی۔
 
اپنے دفاع میں عاطی لاہوریا نے ایک واقعے کو بنیاد بنایا جس میں ان کے بھائی قتل ہو گئے تھے۔ انھوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ’گوجرانوالہ پولیس نے میرے بھائی اعظم بٹ کو ایک مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔ وہ مجھے بھی پاکستان واپس لے جا کر ہلاک کرنا چاہتے تھے۔’
 
اس واقع پر بات کرتے ہوئے ایس او سی کے انچارج خالد واریا نے بتایا کہ اعظم بٹ اور ان کے ساتھی ایک پولیس کے دو افسران کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جب انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
 
’ایک موقع پر پولیس ان کو شواہد جمع کرنے کے لیے لے کر جا رہی تھی تو عاطی لاہوریا کے بھیجے گئے آدمیوں نے پولیس پارٹی پر دھاوا بول دیا۔ ان کی فائرنگ سے اعظم بٹ اور اس کا ایک ساتھی ہلاک ہو گئے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ اس واقع میں پولیس کے دو اہلکار شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔
 
عاطی لاہوریا کو پاکستان لانے میں چار سال کیوں لگے؟
خالد واریا نے بی بی سی کو بتایا کہ ہنگری میں قانونی کارروائی کے دوران گوجرانوالہ پولیس نے عدالت کو واقعے کی تفصیلات اور پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کے حوالے سے آگاہ کیا اور شواہد پیش کیے تھے۔
 
خالد واریا کے مطابق اس کے علاوہ پاکستانی حکومت نے بھی پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ عاطی لاہوریا کو ’فور سکوائر سیکیورٹی‘ فراہم کی جائے گی تاہم انھیں پاکستان میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔
 
لگ بھگ چار سال کے عرصے پر محیط قانونی جنگ لڑنے کے بعد گوجرانوالہ پولیس ہنگری اور یورپی یونین کی عدالتوں سے عاطی لاہوریا کی پاکستان منتقلی کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
 
کیا عاطی لاہوریا کے خدشات درست ثابت ہوئے؟
چند روز قبل انھیں ہنگری سے گوجرانوالہ منتقل کیا گیا تھا جہاں پولیس نے انھیں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے بھی پیش کیا تھا۔ خالد واریا کے مطابق عاطی لاہوریا کے گینگ میں تقریباً 13 کے قریب لوگ شامل تھے۔
 
’ان میں سے زیادہ تر کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا تھا اور چند پولیس کے ساتھ مقابلوں میں مارے گئے تھے۔ یہ آخری تھا جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
 
پولیس کے مطابق عاطی لاہوریا گوجرانوالہ پولیس کو لگ بھگ 13 مقدمات میں مطلوب تھے تاہم وہ بھتہ خوری، قتل، اقدامِ قتل، اغوا اور دہشت گردی جیسی 50 کے قریب وارداتوں لاہور، سیالکوٹ اور گجرات اضلاع کی پولیس کو بھی مطلوب تھے۔
 
تاہم عدالت میں پیش کرنے سے قبل ہی عاطی لاہوریا مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
 
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے خلاف الزامات کی تردید کی تھی۔ مبینہ پولیس مقابلے میں ان کی موت یہ سوال ضرور چھوڑ گئی کہ کیا عاطی لاہوریا کے پولیس کے بارے خدشات درست تھے؟
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: