جمعہ نامہ: روزہ اور اس کا اجر ِعظیم

روزہ بھی ایک اجتماعی عبادت ہے لیکن اس کی انفرادیت اظہار کے بجائے اخفاء ہونے میں ہے۔ کلمہ شہادت اعلان ہے ۔ نماز میں تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک ساری حرکات ظاہر ہوتی ہیں ۔ زکوٰۃ لاکھ چھپا کر دی جائے تب لینے والے کو تو پتہ چل ہی جاتا ہے۔حج کا کیا کہنا کہ ساری دنیا اسلامی اخوت و مساوات کا بے مثالنظارہ ہر سال بشرو چشم کرتی ہے لیکن روزے کو رب کعبہ کے سوا کوئی دیکھ نہیں سکتا ۔حدیث قدسی ہے:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے، مگر روزہ، یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ یہ انتہائی محبت و انسیت کا اظہار ہےکیونکہسارے ہی معروف ا عمال رضائے الٰہی کی خاطر ہوتے ہیں اورانہیں اپنی فلاح و نجات کے لیے انجام دیاجاتا ہے لیکن روزے کی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کو ممتاز فرماکررب ذوالجلال یہ بشارت دیتا ہے ،’’ یہ میرے لیے ہے اس لیے اس کا بدلہ میں خود دوں گا‘‘۔

اس حدیث مبارک کے اختتام میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ معاوضہ کب اور کیسے ملے گا ؟ فرمایا :’’ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک اس کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ روزہ کھولتا ہے اور دوسری اس موقع پر حاصل ہو گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا۔‘‘ اس طرح تو گویا اللہ تعالیٰ نے روزے دار بندے کو ملاقات کا وقت دے دیا۔ اس سعادتِ عظمیٰ کا اندازہ تو وہی بندہ مومن کرسکتا ہے جس کا دل میں وصالِ رب کی تڑپ موجود ہو۔ارشادِ ربانی ہے’’اور اس دن(جنت میں)کئی چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے‘‘۔رسول اکرم ﷺ نے بھی فرمایاہے کہ : ’’اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا جو انہیں جنت کی دیگر تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب ہوگا۔‘‘ اس کےآگے ساری نعمتیں ہیچ ہوں گی۔

قرآن حکیم میں حضرت موسیٰ ؑ کے اس دنیا میں دیدارِ الٰہی کی خواہش کا ذکر ہے۔ ارشادِ حق ہے :’’ ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے(کوہ طورپر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی ‘‘۔ اس مقدس سفر پر نکلنے سے قبل :’’موسیٰؑ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ "میرے پیچھے تم میری قوم میں جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا" لیکن اس سفر کے اختتام کا منظر بڑا دلچسپ ہے: ’’جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ "اے رب، مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں" فرمایا "تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا" چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰؑ غش کھا کر گر پڑا جب ہوش آیا تو بولا "پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں"۔
دورانِ روزہ مومن کے دل کی دکھائی نہ دینے والی کیفیت کا ادراک کسی فردِ بشر کے لیے ممکن نہیں وہ تو نظر نہ آنے والا مالک حقیقی ہی جان سکتا ہے ۔ روزے کی مانند اس کی غرض و غایت بھی خفی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’ اے اہل ایمان! تم پر روزہ فرض کاق گاا جساے کہ تم سے پہلے لوگوںپرفرض کام گا تھا ‘تا کہ تم مں تقویٰ پدتا ہو جائے .‘‘۔ یعنی روزے کامقصد پرہیزگاری کی افزائشہے۔ بندہ ٔ مومن کے قلب میں تقویٰ یعنی اللہ کی محبت اور اللہ کا خوف سے رب کائنات ہی واقف ہوسکتاہے کوئی فردِ بشر اسے دیکھ یا چھو نہیں سکتا ۔ کسی کے دل کا حال کوئی اور بندہ نہیں جان سکتا بلکہ وہ توخالق کائنات ہی جانتا ہے جس کو اس دنیا میں دیکھنا ممکن نہیں ہے ۔ ارشادِ قرآنی ہے:’’(دنیا میں کسی کی) آنکھیں اس(اللہ) کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ نہایت باریک بین اور با خبرہے‘‘۔یہی صفترب کائنات کو یگانہ و یکتا بناتی ہے اور اس کا اعتراف غالب نے کیا خوب کاہ ہے؎
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451005 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.