عالمی یوم کتاب اور الکتاب


تحریر: شبیر ابن عادل
عالمی یوم کتاب ہر سال 23 اپریل کواقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عوام میں کتب بینی کا فروغ، اشاعتِ کتب اور اس کے حقوق کے بارے میں شعور کو اجاگر
کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کی ابتدا 1995 میں ہوئی۔
عالمی یوم کتاب منانے کا مقصد کتاب بینی کے شوق کو فروغ دینا اور اچھی کتابیں تحریر کرنے والے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔یوم کتا ب کے حوالے سے اس کتاب کا ذکر بہت ضروری ہے، جو ام الکتاب یا الکتاب ہے، یعنی قرآن کریم۔ کیونکہ اس حوالے سے اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے:
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ (البقرہ۔ 185)
دراصل مطالعہ کابنیادی مقصد زندگیاں سنوارنا ہے اور اس بارے میں اسی عظیم ہستی کی طرف دیکھا جائے گا جس نے زندگی بنائی، یعنی اللہ تعالیٰ۔ نہ صرف انسان کی تخلیق فرمائی، بلکہ ہماری زمین سمیت پوری کائنات بھی اللہ ہی نے بنائی، جس کی وسعت کا اندازہ انسان سے ممکن ہی نہیں۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ جدید سائنس اب تک کائنات کے ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کا صرف پانچ فیصد دریافت کرسکی ہے اور فضا، زمین اور سمندر کے اندر پائی جانے والی مخلوقات کی اقسام کی مکمل گنتی ہی ممکن نہیں ہوسکی۔
دوسری طرف انسان صدیوں سے زندگی گزارنے کے تجربات کرتا رہا اور اب تک یہ دریافت نہیں کرسکا کہ کامیاب زندگی گزارنے کا راز کیا ہے؟ اور یہ ممکن بھی نہیں۔اس لئے زندگی گزارنے کے لئے ہمیں اپنے خالق کی طرف دیکھنا ہوگا،جس نے ہمیں تخلیق کیا۔ ذرا ایک نظر اپنی ہستی پر تو ڈالیں، انسانی جسم ایک ایسا عجوبہ ہے اور اس میں اتنے سسٹم کارفرما ہیں کہ ان کے لئے سیکڑوں ہزاروں کتب لکھی گئیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
اللہ رحمن الرحیم نے انسان کو پیدا کرکے یوں ہی زمین پر نہیں چھوڑ دیا، اس نے جہاں ایک طرف اس کے کھانے پینے، سرچھپانے اور جسم ڈھانکنے سمیت تمام ضروریات زندگی فراہم کیں۔ وہیں زندگی گزارنے کے طریقے سمجھانے کے لئے پیغمبر بھی بھیجے۔ پہلے انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو پیغمبر بنایا گیا، تاکہ وہ اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کے اصول سمجھا سکیں۔
ان کے بعد انبیاء اور رسل کی آمد کا سلسلہ جاری رہا، ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب پیغمبر مبعوث ہوئے اور آخری رسول حضرت محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ رسولوں کو مبعوث کرنے کے ساتھ ساتھ آسمانی کتب بھی نازل ہوتی رہیں تاکہ زندگی کو طریقے سے گزارنے میں سہولت ہو۔ ہم بحیثیت مسلمان تمام آسمانی کتب پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن ان سب میں تحریف کی جاچکی ہے، چاہے وہ تورات ہو، انجیل ہو یا زبور۔ صرف قرآن کریم ایسی آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔
قرآن کریم انسان کو زندگی بلکہ سنہری اور خوبصورت زندگی گزارنے کے اصول بتاتا ہے۔ اس میں اگلی پچھلی قوموں کے قصے ہیں، تاکہ ہم عبرت حاصل کرسکیں۔ اس میں انسانوں کی اقسام یعنی مسلم، منافق اور کافرکا ذکر ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ نیکی اور نیک کاموں کے کرنے سے انسان کی نہ صرف یہ کہ ذاتی زندگی سنور جاتی ہے، بلکہ پورے معاشرے میں انقلاب آجاتا ہے۔ اس میں محبت کا درس دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ سے نبی کریم ﷺ سے۔ اس میں بار بار والدین کے احترام کا ذکر ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دوسروں سے اچھے اور بہترین اخلاق سے پیش آیا جائے اور کسی کی دل شکنی نہ کی جائے، دل نہ دکھایا جائے، مذاق نہ اڑایا جائے، غیبت سے بچا جائے، جھوٹ، بدگمانی، چغلی اور ایسی ہی برائیوں سے دور رہا جائے۔
بے شرمی، بے حیائی اور فحاشی معاشروں کو تباہ وبرباد کردیتی ہے، اس سے بچنے کا حکم ہے۔ دوسروں سے میٹھے لہجے میں گفتگو کرنے کی تعلیم ہے۔ معاشرتی تعلقات کے اصول ہیں، حکومت کرنے کے آداب ہیں، معیشت، تجارت، عدالت اور معاشرت سمیت زندگی کا کوئی ایسا شعبہ یا حصہ نہیں، جس کے بارے میں نہ بتایا گیا ہو۔

نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ قرآن کی عملی تفسیر تھی، انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن کی آیات سنائیں، سمجھائیں، ان کے نفس کا تزکیہ کیا اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کی۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ پوری دنیا پر غلبہ حاصل ہوا، بلکہ ان کے اعلیٰ اخلاق سے پوری دنیا متاثر ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے صرف ملک ہی فتح نہیں کئے، بلکہ دلوں کو بھی مسخر کیا۔ انہوں نے صرف جہاد ہی نہیں کیا، بلکہ راتوں کو جاگ کر اپنے ربّ سے تعلق کو مضبوط کیا۔
قرآن ہی سے تمام علوم کے سوتے پھوٹتے ہیں، یہ مسلمانوں نے ثابت کرکے دکھا دیا۔ ریاضی، فزکس، کیمسٹری، طب اورجغرافیہ سمیت سائنس کے ہرشعبے کی بنیادیں رکھیں، بہت سی چیزیں ایجاد کیں۔ اس کے علاوہ فلسفہ، تاریخ،فلکیات، علم الرجال سمیت سو سے زائد علوم وضع کئے۔ یہ سب کچھ قرآن کریم کے سرچشمے کا اعجاز تھا۔ کیونکہ قرون وسطیٰ کے مسلمان قرآن پر عمل کرتے تھے، جس میں جگہ جگہ انسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ غور وفکر کریں اور اسی غوروفکر کے نتیجے میں مسلمانوں کو نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل ہوا، بلکہ علمی اور فکری غلبہ حاصل ہوا۔ اندلس (موجودہ اسپین)، بغداد اور شام کے کتب خانے، دارالتراجم اور سائنسی تحقیق کے مراکز میں یورپ سمیت پوری دنیا سے لوگ آتے تھے۔ جیسے اب آکسفورڈ اور ہارورڈ سمیت مغرب کا رخ کرتے ہیں۔
کبھی ہم نے غور کیا کہ مسلمانوں کے علمی زوال کے اسباب کیا ہیں؟ زیادہ تر لوگ اسے مغر ب کی سازش قرار دیں گے۔ لیکن درحقیقت اس کا سبب ہماری اپنی غفلت اور لاپرواہی ہے۔ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا اور اس کی تشریح کرنے والے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو فراموش کردیا۔اول تو ہم قرآن کی تلاوت بہت کم کرتے ہیں، صرف رمضان کے رمضان اوربغیر سمجھے۔ یقینا ناظرہ قرآن تلاوت کرنے کا ثواب ہے۔ لیکن اسے سمجھ کر پڑھنے اور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ اور احادیث کے مطالعہ کو یومیہ کاموں کا حصہ بناکر ہم اپنی زندگیاں بدل سکتے ہیں۔ صرف مرنے کے بعد آخرت ہی کی نہیں، بلکہ اس دنیا کی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
جب دنیا میں کامیاب زندگی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں کار، بنگلہ، بھاری بینک بیلنس، اور دیگر عیاشی آجاتی ہے۔ جبکہ کامیاب زندگی یہ ہے کہ دوسروں کے کام آیا جائے، اپنے اور اپنے بچوں کے اخلاق اور کردار سنوارے جائیں۔ یہ کام انفرادی سطح کے ساتھ ساتھ اجتماعی سطح پر بھی کیا جائے۔ دوسروں سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ غیبت، چغلی، بدگمانی، بہتان، الزام تراشی، کردار کشی، بدگوئی، گالم گلوچ، عریانی اور فحاشی سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اس طرح ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں سکون ہی سکون اور خوشی ہی خوشی ہوگی۔ کیونکہ خوشیاں بانٹنے کا نام ہے، چھیننے کا نہیں۔ اس طریقے پر عمل کرنے میں افلاس نہیں آئے گا، رزق میں برکت ہوگی، تھوڑے میں بھی بہت اچھا گزارا ہوجائے گا۔
معاشرے کا سیٹ اپ یہی رہے گا، یعنی کوئی بہت امیر، کوئی متوسط، کوئی غریب اور کوئی بہت ہی غریب۔ لیکن انسانی زندگی سے حرص وہوس اور لالچ نکل جانے سے معاشرہ مثالی بن جائے گا، استحصال ختم ہوجائے گا، سب کے ساتھ انصاف ہوگا۔ جسے پیسے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کامیابی کا پیمانہ دولت کے بجائے خوشیوں کوبنایا جائے۔
یہی عالمی یوم کتاب کا پیغام ہے اور ہونا چاہئے، بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ عالم اسلام کو عالمی یوم کتاب 27رمضان کو منانا چاہئے، جس دن قرآن ناز ل ہوا۔کیونکہ قرآن ہی تمام علوم کا سرچشمہ ہے اور ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسی کتا ب ہے، جس کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں۔ یقین جانیے کہ اگر ہم روزانہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ، احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہؐ کے مطالعہ کو اپنی عادت بنالیں تو برسوں میں نہیں، چند روز ہی میں کامیابی ہمارے قدم چومے گی اور ہم رازِ حیات پالیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128223 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.