میں نے یہ ایمبولینس اپنے لوگوں کے لئے خود بنائی۔۔۔ پانی پر تیرتی انوکھی ایمبولینس جو تمام جدید طبی آلات سے لیس ہے

image
 
ایمبولینس کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے یہ ایک ایسی گاڑی ہوتی ہے جو نہ صرف مریض کو اسپتال پہنچانے کا کام کرتی ہے بلکہ موجودہ زمانے نے ایمبولینس کی جدت میں بھی اضافہ کیا ہے اب ایمبولینس میں فوری طبی امداد کی سہولیات جیسے آکسیجن سلینڈر وغیرہ بھی موجود ہوتے ہیں تاکہ مریض کو راستے میں جانی نقصان سے بچایا جاسکے۔ لیکن ایسی جگہ جہاں ارد گرد چاروں طرف پانی ہو اور مریض کو اسپتال پہنچنے کے لئے پانی والے راستے سے سفر کرنا ناگزیر ہو اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے سرینگر کے شہری نے ایک ایسی ایمبولینس بنائی ہے جو اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔
 
میں نے یہ ایمبولینس خود بنائی کیونکہ۔۔۔
یہ سرینگر کے شہری طارق احمد پتلو ہیں جو ڈل جھیل کے قریب رہتے ہیں۔ انھیں اور ان کے آس پاس رہنے والوں کو اسپتال یا کہیں بھی پہنچنے کے لئے پہلے جھیل کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
 
طارق کہتے ہیں“جب مجھے کورونا وائرس کی وباء لگی تو سماجی فاصلہ اختیار کرتے ہوئے لوگوں نے میرا بائیکاٹ کردیا اور کوئی مجھے اسپتال نہیں لے جاتا تھا۔ میں 20 دن قرنطینہ میں تھا لیکن اسپتال جاتے ہوئے مجھے جھیل عبور کرنے میں بہت مشکل ہوئی پھرمیں نے سوچا کہ کیسے میں اپنے لوگوں کی مدد کروں۔ میں نے گوگل کیا کہ ایمبولینس کیسی ہونی چاہیے اور پھر میں نے ایک شکارہ کو ایمبولینس بنانے کا فیصلہ کیا“
 
image
 
اس ایمبولینس میں کون کونسی سہولیات موجود ہیں
یہ ایمبولینس مریضوں کو اسپتال پہنچانے کا کام ہی نہیں کرتی بلکہ اس میں طبی امداد کے علاوہ فائر سروس بھی موجود ہے۔ اس ایمبولینس کو بنانے میں طارق احمد کو ایک مہینے کا وقت لگا اور اسے بنانے کے لئے انھوں نے دیودار کی لکڑی اور ایلومینئیم کے علاوہ لوہا اور فوم بھی استعمال کیا ہے۔ البتہ بناوٹ میں طارق نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ شکارہ ایمبولینس بھاری نہ ہو اور پانی میں بہت جلدی خراب بھی نہ ہو۔
 
image
 
ایمبولینس میں کتنے لوگ آسکتے ہیں
طارق احمد کہتے ہیں کہ اس ایمبولینس میں مریض کے علاوہ چار لوگوں کی مذید گنجائش ہے۔ طبی سہولیات کے بارے میں بتاتے ہوئے طارق کہتے ہیں کہ اس میں فرسٹ ایڈ باکس، تھرمامیٹر، آکسی میٹر، بلڈ پریشر چیک کرنے کا آلہ، وہیل چئیر، اسٹریچر موجود ہے اور بہت جلد آکسیجن سلینڈر اور پیشنٹ مانیٹر بھی آجائے گا
 
لوگ اس ایمبولینس کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں
سرینگر میں آئی ایک سیاح دِشا پانڈے کہتی ہیں کہ ڈل جھیل کے آس پاس دو ہزار سے زائد افراد رہتے ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ کسی شہری کو سب کی مدد کا خیال اور جذبہ پیدا ہوا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ایمبولینس کی تشہیر کی جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو انھیں کس نمبر پر رابطہ کرکے ایمبولینس کی سہولت مل سکتی ہے۔
image
YOU MAY ALSO LIKE: