#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 110ازقلم
مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
قل انما
انا بشر مثلکم
یوحٰی الی انما الٰھکم
الٰہ واحد فمن کان یرجوا
لقاء ربہٖ فلیعمل عمل صالحا
ولا یشرک بربہٖ احدا 110
اے ھمارے رسُول ! آپ اللہ تعالٰی کی اُلُوہیت و ربوبیت اور اپنی عبدیت و
بشریت کے بارے میں انسانوں کے سامنے یہ دوٹوک اعلان کردیں کہ میں دُنیا کے
اَندھیرے میں تُمہارے لیۓ اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت و روشنی کا یہ پیغام
وحی لے کر آیا ہوں تاکہ تُم شرک کے اَندھیرے میں بہٹکنے کے بجاۓ توحید کی
روشنی میں آجاؤ اور تُمہارے لیۓ پیغامِ وحی یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کے سوا
کوئی بھی تُمہارا اِلٰہ نہیں ھے اِس لیۓ تُم میں سے جو انسان اللہ تعالٰی
کے رُو برُو پیش ہو کر اپنے اعمال و افعال کی جواب دہی کا یقین رکھتا ھے تو
وہ دُنیا میں اَعلٰی اعمال اور اَعلٰی اَقدار کو فروغ دے اور میرے
پروردِگار کے اقتدار و اختیار میں کبھی بھی کسی اور کو شریک نہ کرے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
معیاری کلام کا معیارِ کلام یہ ہوتا ھے کہ اُس کلام کا مُتکلّم اِبتداۓ
کلام میں سُننے والے کے سامنے اپنا مقصدِ کلام بھی بیان کردیتا ھے اور
اِنتہاۓ کلام میں سُننے والے کو اُس مقصدِ کلام کی یاد دھانی بھی کرادیتا
ھے تاکہ سُننے والا پہلی بار یہ کلام کو سُنے تو اُس کو اِس خاص آغازِ کلام
کے حوالے سے یہ کلام جلدی سے جلدی سمجھ آجاۓ اور دُوسری بار سُنے تو وہ اِس
کلام کو اِس کے اِس خاص اَنجامِ کلام کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ دیر تک
اپنے حافظے میں محفوظ رکھ سکے ، معیاری کلام کا یہ معیارِ کلام جو قُرآنِ
کریم کی دیگر سُورتوں میں عام طور پر نظر آتا ھے وہ سُورةُالکہف میں خاص
طور پر اِس طرح نظر آتا ھے کہ اِس سُورت کے اِفتتاحِ کلام میں اللہ تعالٰی
نے اپنی شانِ اُلُوہیت کو اور سیدنا محمد علیہ السلام کی شانِ عبدیت کو
بیان کر کے اپنے کلام کا مقصد بیان کیا ھے اور اِس سُورت کے اِختتامِ کلام
پر اللہ تعالٰی نے اپنی شانِ ربوبیت کو اور سیدنا محمد علیہ السلام کی شانِ
بشریت کو بیان کر کے اپنے مقصدِ کلام کی یاد دھانی بھی کرا دی ھے تاکہ جو
انسان سُورةُ الکہف کو آغاز سے پڑھے تو وہ آغاز ہی میں یہ بات جان جاۓ کہ
اللہ تعالٰی اِلٰہ ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام عبدِ اِلٰہ ہیں اور جو
انسان سُورةُالکہف کو اِِس کے اَنجامِ کلام تک پڑھے تو اُس کو اِس کے
اَنجامِ کلام پر پُہنچ کر اللہ تعالٰی کے پروردِگار اور سیدنا محمد علیہ
السلام کے بشارت کار ہونے کا مُکمل یقین ہو جاۓ لیکن عُلماۓ روایت نے اپنی
روایت کے عین مطابق سُورةُالکہف کی اِس آخری اٰیت کو بھی ایک طویل زمانے سے
نبی علیہ السلام کے بشر نہ ہونے بلکہ نُور ہونے یا نُور نہ ہونے بلکہ بشر
ہونے کی ایک لایعنی بحث بنایا ہوا ھے جب کہ علمی حوالے سے بشر کی ضِد نُور
نہیں ھے بلکہ مَلک ھے اور نُور کی ضِد بشر نہیں ھے بلکہ ظُلمت ھے ، جہاں تک
اٰیت ھٰذا کا تعلق ھے تو قُرآنِ کریم نے اِس اٰیت میں نبی علیہ السلام کے
نُور یا بشر ہونے کی بحث نہیں کی ھے کیونکہ آپ کا نسلِ آدم سے ہونا ، عبد
اللہ بن عبدالمطلب کے گھر گھرانے میں پیدا ہونا نظر میں آنے والی ایسی ہی
ایک نظری حقیق تھی جیسا کہ سُورج کا موجُود ہونا نظر میں آنے والی ایک نظری
حقیقت ھے اور ایک اَندھے انسان کے سوا کسی دُوسرے انسان کے دل میں یہ خیال
اور یہ سوال کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا ھے کہ سُورج روشن ھے یا نہیں ھے جس کا
مطلب یہ ھے کہ تردید یا تائید صرف اُس چیز کی اُس صفت کی ہوتی ھے جس چیز کی
جس معروف صفت کے بارے میں کسی کو کوئی شک ہوتا ھے اور جس چیز کی جس صفت کے
بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہوتا ھے تو اُس چیز کی اُس صفت کے بارے میں
کوئی بحث مباحثہ بھی نہیں ہوتا ھے جس طرح کہ سُورج کے روشن ہونے کے بارے
میں کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوتا ھے ، اِس لیۓ اٰیت ھٰذا میں جو مضمون بیان
ہوا ھے اِس مضمون میں اِس بات کا کوئی اِمکان نہیں ہو سکتا تھا کہ عھدِ
نبوی کا کوئی انسان سیدنا محمد بن عبد اللہ علیہ السلام کے مُجرد انسان و
بشر ہونے کا انکار کر دیگا بلکہ اگر کوئی امکان ہو سکتا تھا تو صرف اِس بات
کا امکان ہو سکتا تھا کہ اِس اُمت کا کوئی فرد سیدنا محمد علیہ السلام کی
شانِ عبدیت و شانِ بشریت کا انکار کر کے اپنے دل میں آپ کی شانِ اُلوہیت کا
گمان نہ پیدا کر لے جس طرح کہ ماضی میں یہُود و نصارٰی نے اپنے اَنبیاء کی
شانِ عبدیت کا انکار کر کے اُن کو شانِ اُلُوہیت کا حامل بنا دیا تھا ، یہی
وجہ ھے کہ قُرآنِ کریم کی اٰیت ھٰذا میں اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ
السلام کو اپنی بشریت کے اقرار اور اپنی اُلوہیت کے انکار کا اعلان کرنے کا
حُکم دیا ھے اور اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق آپ علیہ السلام نے اِس بات
کا اعلان کیا ھے کہ میں دُنیا کے اَندھیرے میں تُمہارے لیۓ اللہ تعالٰی کے
ایک عبد کی حیثیت میں اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت و روشنی کا یہ پیغامِ
وحی لے کر آیا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا میرا اور تُمہارا کوئی اور اِلٰہ
نہیں ھے لہٰذا ہر وہ انسان جس کو اللہ تعالٰی کے رُو برُو پیش ہو کر اپنے
اعمال و افعال کی جواب دہی کا یقین ھے تو لازم ھے کہ وہ انسان دُنیا میں
اَعلٰی اعمال کو فروغ دے اور اللہ تعالٰی کے اقتدار و اختیار میں کسی اور
کو شریک نہ کرے ، اُس اٰیت کے اِس مضمون میں نبی علیہ السلام کے نُور یا
بشر ہونے کا دُور دُور تک بھی کوئی خیال یا سوال موجُود نہیں ھے بلکہ اِس
اٰیت کے اِس مضمون میں صرف یہ پیغام موجُود ھے کہ اللہ تعالٰی اپنی ذات میں
وحدہٗ لاشریک ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام اپنی ذات میں اللہ تعالٰی کے
عبدِ کامل ہیں اور اِس عبدِ کامل پر اللہ تعالٰی کی جو کتاب نازل ہوئی ھے
وہ کتاب بھی ایک کتابِ کامل ھے !!
|