#العلمAlilm علمُ الکتاب (((( سُورةُالکہف ، اٰیت 109
)))) ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
قل
لو کان البحر
مدادا لکلمٰت ربی
لنفدالبحر قبل ان تنفد
کلمٰت ربی ولو جئنا بمثلہ
مددا 109
اے ھمارے رسُول ! اہلِ زمین کو آگاہ کردیں کہ اِس کائنات کی ہر شئی اللہ کے
اَحکام کے دائرہِ علم و عمل میں ھے اور اللہ کے اِس دائرہِ علم و عمل کی ہر
شئی کی حرکت و عمل میں اللہ کا وہ قانونِ توازن موجُود ھے جس نے کائنات کی
ہر شئی میں ایک ایسا اَبدی توازن قائم کر رکھا ھے کہ ھماری اِس کائنات کی
کوئی شئی کبھی بھی اپنے مُقررہ دائرہِ عمل سے نکل کر کسی دُوسری شئی کے
دائرہِ عمل میں داخل نہیں ہوسکتی ، ھمارے سمُندر کا مزاج اگرچہ غیر مُتوازن
ہو کر پھیلنا اور پھیل کر زمین کو اپنی گرفت میں لانا ھے لیکن ھم نے اپنے
قانونِ توازن کے مطابق اِس کی بیتاب لہروں کو آفتابِ جہاں تاب کی اُن کرنوں
سے باندھا ہوا ھے کہ جن کرنوں نے روزِ اَوّل ہی سے اِس سیلابِ آب کی حرکت و
عمل میں ھمارے قانونِ توازن کے مطابق ایک حُسنِ توازن نظام قائم کر رکھا ھے
، اگر ھمارے اِس سمُندر کا یہ سیلاب آب کبھی اپنی مُقررہ حدُود سے تجاوز
کرنے لگے گا تو ھم اِس کی لہروں کو ایک اور چاند کی کرنوں سے باندھ دیں گے
!
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
عُلماۓ روایت نے اٰیتِ بالا کا جو روایتی ترجمہ کیا ھے وہ ترجمہ یہ ھے کہ {
اے محمد کہو کہ اگر سمندر میرے رَب کی باتیں لکھنے کے لیۓ روشنائی بن جاۓ
تو وہ ختم ہو جاۓ مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں ، بلکہ اگر اتنی ہی
روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے } عُلماۓ روایت کے اِس
ترجمے کی یہ بات تو ظاہر و باہر ہی ھے کہ عُلماۓ روایت کے اِس ترجمے سے
عُلماۓ روایت کی مُراد اللہ تعالٰی کے اَحکامِ اَمر و نہی کی وہ باتیں نہیں
ہیں جو قُرآنی اٰیات کی صورت میں لکھی ہوئی موجُود ہیں بلکہ عُلماۓ روایت
کی اللہ تعالٰی کی باتوں سے مُراد اللہ تعالٰی کی وہ لامحدُود قُوتیں اور
قُدرتیں ہیں جن کی تفصیل قُرآنِ کریم میں لکھی ہوئی نہیں ھے اِس لیۓ انسان
اُن باتوں کے بارے میں اپنے محدُود علم کے مطابق ایک مُجرد خیال ہی کر سکتا
ھے اِس سے زیادہ کُچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالٰی کی اِن قُوتوں
اور قُدرتوں کا تعلق انسان کی اُس عملی حیات کے ساتھ نہیں ھے جس عملی حیات
کی قُرآن نے تعلیم دی ھے اور جس تعلیم و تفہیم کی بنا پر انسان اِس کا
مُکلف و جواب دہ ہوا ھے بلکہ اللہ تعالٰی کی اِن قُوتوں اور قُدرتوں کا
تعلق انسان کے اُس علمِ اعتقادات کے ساتھ ھے جس کا انسان مُکلف یا جواب دہ
نہیں ھے مگر سوال یہ ھے کہ اگر روشنائی کے ایک سمُندر کے بعد روشنائی کا
صرف ایک دُوسرا یا تیسرا سمُندر ہی نہ آۓ بلکہ اِس سمُندر جیسے ایک لاکھ ،
ایک اَرب بلکہ ایک کھرب سمُندر بھی آجائیں اور اللہ تعالٰی کے پیدا کیۓ ہوۓ
سارے جن و انس اور سارے خلائق و ملائک مل کر اللہ تعالٰی کی اُن قوتوں اور
اُن قدرتوں کو لکھنا شروع کردیں تو کیا وہ اللہ تعالٰی کی اُن قُوتوں اور
قُدرتوں کو لکھ سکتے ہیں جو اَزل سے جاری ہیں اور اَبد تک کے لیۓ جاری ہیں
، ظاہر ھے کہ اِس سوال کا سادہ سا جواب ایک سادہ سی نہیں سے زیادہ کُچھ
نہیں ھے جس کا مطلب یہ ھے اِس اٰیت کا مفہوم وہ عقل دُشمن مفہوم نہیں ھے جو
اِن عُلماۓ روایت نے اپنی علم دُشمن عقل سے سمجھا اور اِس اُمت کو سمجھایا
ھے کیونکہ اٰیت ھٰذا کا موضوعِ سُخن اللہ تعالٰی کی قُوتوں اور قُدرتوں کی
پیمائش کرنا نہیں ھے بلکہ اٰیت ھٰذا کا موضوعِ سُخن اللہ تعالٰی کی کائنات
کا وہ نظم ھے جس نظم میں انسان موجُود ھے اور اٰیت ھٰذا کا مقصد اِس نظم
میں موجُود انسان کو پہلی بات تو یہ سمجھانی ھے کہ جس طرح اللہ تعالٰی کی
یہ ساری کائنات اُس کے نظم کی پابند ھے اسی طرح انسان کو بھی اس نظم کا
پابند ہونا ھے اور دُوسری بات انسان کو یہ بتانی ھے کہ اِس کائنات کا جو
فَرد اِس نظم سے انحراف کرتا ھے اُس کو بہر طور اس نظم کا پابند بنایا جاتا
ھے اور اُس کو بہر طور اِس نظم کا پابند بننا ہوتا ھے اور اِس بات کو اِس
اٰیت میں اِس مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ھے کہ ھمارے سمندر کا مزاج یہ ھے
کہ وہ پھیلنا چاہتا ھے اور پھیل کر زمین کو اپنی گرفت میں لانا چاہتا ھے
لیکن سمُندر کے مزاج کی اِس آزادی کو ھم نے ماہتاب کی کرنوں کے ساتھ مربوط
کر کے اپنے اُس نظم کا پابند بنا دیا ھے جس نظم سے وہ کبھی بھی باہر نہیں
آۓ گا ، جو آۓ گا تو ایک اور ماہتاب کی کرنوں میں جکڑ دیا جاۓ گا ، زبان و
لُغت کے اعتبار سے دیکھا جاۓ تو اٰیت ھٰذا میں جو پہلا توجہ طلب لفظ ھے وہ
مصدر "مداد" ھے جس کا معنٰی کھینچنا یا پھیلانا ہوتا ھے اور چونکہ روشنائی
بھی قلم سے کھینچ کر دوات سے باہر لائی جاتی ھے اِس لیۓ روشنائی سے لکھنے
والے لوگوں نے اپنی روشن خیالی سے روشنائی پر بھی اِس لفظ کو مُنطبق کردیا
ھے لیکن اِس لفظ کا مقصدی معنٰی روشنائی نہیں ھے ، مزید براں یہ کہ یہ مصدر
"مداد" بذاتِ خود جس مصدر سے صادر ہوا ھے وہ "المَد" میم کے زبر کے ساتھ
آتا ھے جس کی جمع "مدُود" ہوتی ھے اور جس کا معنٰی سیلاب ہوتا ھے اور اسی
معنویت کی رُو سے "مدالبحر" کا معنٰی سمُندر کا زمین کی طرف بڑھنا ہوتا ھے
، حرف پر حرف کو کھینچ کر پڑھنے کی غرض سے مَد کی جو علامت ڈالی جاتی ھے وہ
بھی اسی معروف مصدر سے صادر ہوئی ھے ، اٰیت ھٰذا کا دُوسرا توجہ طلب لفظ
"کلمٰت" ھے جو لفظِ"کلمة" کی جمع ، کلمة کا معنٰی پیش گوئ ھے اور پیش گوئی
اُس بات کو کہتے ہیں جو مُستقبل کے لیۓ کہی جاتی ھے اور قبل اَز مُستقبل
کہی جاتی ھے ، کلمہِ اسلام کو بھی اسی بنا پر کلمہ کہاجاتا ھے کہ وہ ایک
انسان کے مُسلمان ہونے اور مُسلمان رہنے کی ایک پیشگی اطلاع کے لیۓ بولا
جاتا ھے اور اٰیت ھٰذا کے اِس مُفصل مفہوم میں اِس کا مُجمل مفہوم یہ ھے کہ
سمُندر کا جو کام ھے وہ کام سمُندر کو سمُندر کے لَمحہِ تخلیق میں ہی بتا
دیا گیا ھے اور اسی طرح سمُندر میں مَد و جزر پیدا کرنے کا جو کام ماہتاب
کو دیا گیا ھے ماہتاب بھی اُس کام کو اپنے یومِ پیدائش سے جانتا ھے اور تَب
سے اَب تک وہ اپنے اِس کام کو پُوری جاں فشانی کے ساتھ اَنجام دے رہا ھے ،
جس روز فلک کا یہ ماہتاب زمین کے سمُندر میں مَد و جزر پیدا کرنا چھوڑ دے
گا اُس روز زمین کا سارا نظام در ہم برہم ہوجاۓ گا کیونکہ آبِ سمُندر میں
مَد و جزر نہیں ہو گا تو سمُندر کی آبی مخلوق کو سانس لینے کے لیۓ ہوا نہیں
ملے گی اور آبی مخلوق کو سانس لینے کے لیۓ تو یہ ساری آبی مخلوق ہلاک ہو
جاۓ گی ، اسی طرح ماہتاب کی ماہتابی کشش کی وجہ سے زمین پر 3.5 ڈگری کا جو
جُھکاؤ موجُود رہتا ھے اور جس جُھکاؤ کی وجہ زمین پر چار موسم پیدا ہوتے
اور چار ماحول بنتے رہتے ہیں وہ سارے موسم و ماحول ختم ہو جائیں گے جن کے
ختم ہونے کے بعد زمین حیوان کے لیۓ چارہ اور انسان کے لیۓ فصلیں پیدا نہیں
کر سکے گی اور زمین کے انسان و حیوان بُھوک سے مر جائیں گے ، اسی طرح اگر
ماہتاب اپنے زورِ کشش سے سمندر میں مَد و جزر پیدا نہیں کرے گا تو زمین کی
اپنے محور کے گرد ہونے والی معمول کی گردش میں کمی آجاۓ گی جس سے دن کا
دورانیہ کم ہوجاۓ گا اور دن کا دورانیہ کم ہونے سے زمین کے موسموں میں جو
تغیر آۓ گا وہ انسان کی زندگی کو اجیرن بنا دے گا لیکن اللہ تعالٰی نے
انسان کو تسلی دی ھے کہ انسان کے یہ مفروضے کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکیں گے
کیونکہ کائنات کی ہر شئی اللہ تعالٰی کے اُس نظم کی پابند ھے جس نظم میں
کبھی کوئی تعطیل نہیں ہوتی اور جس نظم میں کبھی کوئی تعطل بھی نہیں ہوتا
اور جب تَخلیقِ کائنات کا کوئی کائنات رُکن اپنی طبعی عُمر کو پُہنچتا ھے
تو اُس کے فنا ہونے سے پہلے ہی قُدرت کا دستِ قُدرت اُس کی بقا کا اِنتظام
کر لیتا ھے !!
|