روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی میں آج تاریکیوں کا راج
ہے ڈھائی سے تین کروڑ کی آبادی کا شہر اب مسائلستان بن چکا ہے دراصل کراچی
کے مسائل پر لکھنے والے بھی اب لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں اور جو لو گ اپنے آپ
کو اس شہر کا اسٹیک ہولڈر یا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں درحقیقت ان ہی کی وجہ سے
اس شہر کا یہ حال ہے، دوسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی برسوں سے اقتدار میں
ہے، ان کے مسلسل دور اقتدار میں صوبہ سندھ بالخصوص کراچی پستیوں کی انتہا
پر ہے سندھ حکومت نے جس طرح سے مختلف مافیاز کو پروان چڑھایا اور ان کی
سرپرستی اس کی مثال نہیں ملتی، پینے کے پانی کا نظام جان بوجھ کر خراب کیا
گیا تا کہ پانی مافیا کے ساتھ ملکر روزانہ کروڑوں روپے کمائے جاسکیں ماس
ٹرانزٹ سسٹم کی کوئی عملی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں لوگ روزانہ ٹرانسپورٹ
کے لیئے دھکے کھاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے گھر اور دفتر پہنچتے ہیں
اس ہی طرح صفائی ستھرائی کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے ایساہی کچھ حال تعلیم
اور صحت عامہ کے شعبے کا ہے کراچی سیف سٹی پروجیکٹ مسلسل چھ سال سے التواکا
شکار ہے ایک رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کا آغاز 2015میں کیا گیا جس کے تحت
شہر بھر میں دس ہزار کیمرے لگائے جاتے جبکہ اس کے علاوہ گاڑیوں کی نمبر
پلیٹس بھی جدیدسیکورٹی فیچر کی حامل ہونا تھیں منصوبے کی ابتدائی طور پر
لاگت دس ارب روپے لگائی گئی تھی جو تاخیر اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے تیس
ارب روپے تک پہنچ ہے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت شہر بھر میں ہزاروں کیمروں کی
تنصیب کی علاوہ گاڑیوں کی روایتی پیلی نمبر پلیٹس سے جدید نمبر پلیٹس میں
تبدیل کی جانی تھیں جو کہ سیکورٹی فیچر سے لیس ہوتیں یہ نمبر پلیٹس کیمرہ
ریڈ ایبل ہوتیں اور انہیں بآسانی اسکین کر کہ تمام تر ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا
تھا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ ایکسائز کی ٹیکس کلیکشن بھی اس ہی نمبر
پلیٹ کی ذریعے کی جانی تھیں، اس سلسلے میں سیکورٹی نمبر پلیٹس کے لیئے کئی
بار ٹینڈر جاری کیے جا چکے ہیں دسمبر 2012سے اکتوبر 2019تک متعدد بار ٹینڈر
جاری کیے گئے ہیں لیکن کبھی بھی منصوبے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی سیف سٹی
پروجیکٹ کے ذریعے کیمروں سے شہر کے چپے چپے پر نظر رکھی جا تی اس منصوبے
میں ون ونڈو آپریشن کے تحت ہیلپ لائن نمبر جاری کیا جانا تھا جس میں سوئی
گیس ،کے الیکٹرک ،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور پولیس کی مدد کے ساتھ ساتھ
تمام تر یوٹیلیٹی مسائل کی شکایات درج کرائی جانی تھیں روشنیوں کے شہر میں
سیف سٹی پروجیکٹ اب تک پورا ہونا تو درکنار عملی طور پر شروع بھی نہ ہوسکا
اربوں روپے کا منصوبہ صرف کاغذات اورمیٹنگوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے یاد
رہے کہ ملک کے دیگر شہروں میں سیف سٹی پروجیکٹ کامیابی سے مکمل کر لئے گئے
ہیں، صرف چند دن پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد
کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل
لارجر بینچ نے شاہراہ قائدین تجاوزات کیس کی سماعت کی اس سماعت کے دوران
عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے جس اندا زمیں برہمی کا اظہار کیا اس میں شدید دکھ
کا احساس بھی تھا اور جو کچھ فرمایا اس کے بعد کراچی کی تباہی پر کچھ کہنے
کی ضرورت باقی نہیں رہی میرے خیال میں گزشتہ چالیس برسوں میں کئی نام نہاد
عوامی نمائندوں نے ایسی بھرپور نمائندگی کراچی کی ہو، چیف جسٹس صاحب نے کہا
کمشنر کراچی کو فارغ کریں جو شہر سے لاعلم !کہاں سے امپورٹ کیا، فیروزآباد
میں مختار کار پہلی مرتبہ سن رہا ہواگر یہاں مختار کار شہر کو آپریٹ کرتا
ہے تو پھر شہر گیا، اب یہاں کسی کی جائیداد محفوظ نہیں رہے گی کسی کو شہر
کی پرواہ ہے نہ فکر، اگر مختار کارآگیا تو نومور کراچی، وزیراعلیٰ سندھ کو
کہیں یہاں آئیں اور وضاحت دیں کراچی کو آخر سمجھ کیارکھا ہے آپ لوگوں نے،
اب آنکھیں کھولنے کا وقت آگیا ہے پریکٹیکل نہیں ہورہا کیا بنا دیا اس شہر
کو، سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے ایس بی سی اے کو کس
نے اختیار کیا کہ رہائشی کو کمرشل میں تبدیل کرے،چیف جسٹس صاحب نے
انورمنصور خان ایڈوکیٹ سے کہا کہ یہ سب جعلی دستاویزات ہیں چیف جسٹس صاحب
نے ریمارکس دیئے کہ ایس بی سی اے کو کمرشل کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا
چیف جسٹس صاحب نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ جائیں اور غیر قانونی شادی
ہالز گرائیں پورے کراچی میں شادی ہالز بن رہے ہیں جو بیشتر رفاعی پلاٹوں پر
بنائے گئے ہیں جس کا اعتراف کمشنر کراچی نے کیا چیف جسٹس صاحب نے مزید
فرمایا کہ ہمیں سب معلوم ہے کہ آپ لوگ کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ مرتب کیوں نہیں
کرتے چیف جسٹس صاحب نے ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو پر برہمی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہیں اور کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں ہمارے
سامنے آئیں کل کسی کو سپریم کورٹ کی عمارت دے دیں گے، سندھی مسلم سوسائٹی
میں بلاک Aہے ہی نہیں جانتے ہیں کہ سندہی مسلم سوسائٹی میں کون نقشے
بنوارہا ہے کراچی کی ہسٹری بدل گئی یہ زمین وفاقی حکومت کی زمین تھی وفاقی
سٹی تھا پتہ نہیں کیا چل رہا ہے، چیف جسٹس صاحب نے برہمی کا اظہار کرتے
ہوئے ریمارکس دیئے کراچی میں مختار کار نہیں کمشنر ہوتا ہے چیف جسٹس صاحب
نے کہا کہ دنیا کو معلوم ہے کہ ایس بی سی اے کو کون چلارہا ہے ہر مہینے ایس
بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتا ہے، سب رجسٹرار آفس ، ایس بی سی اے اور
ریونیو میں سب سے زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے سارا معلوم ہے کہ کیاہورہا ہے
سرکاری اداروں کابرا حال ہے، پچھلے ہفتے نیویارک ٹائمز نے لاڑکانہ کے حوالے
سے "شہر جو بچے گنوا رہا ہے "کے نام عنوان سے ایک نہایت اذیت ناک اور
شرمناک رپورٹ شائع کی ہے رپورٹ کے مطابق رتوڈیرو کے 1132بچے ایچ آئی وی کا
شکار ہیں لیکن سندھ حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی ، سندھ کی 487سرکاری
ایمبولینسوں میں 150ناکارہ پڑی ہیں ، آئے روز اندرون سندھ اور شہر قائد کے
مختلف علاقوں میں کتے کے کاٹنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں،گزشتہ برس تو
ایسے واقعات کی بھرمار تھی گزشتہ سال 2020میں کتے کے کاٹنے کے 2لاکھ 5ہزار
319سے زائد کیسز اور 16اموات رپورٹ ہوئی اب جب ہم رواں برس کی بات کرے تو
اب تک کتے کے کاٹنے کے پانچ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں،ابھی حال ہی
میں سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں عدالت نے کتے کے کاٹنے کے واقعات کی
روک تھام کے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران سندھ اسمبلی کے دوارکان
فریال تالپور اور گیان چند اسرانی کو معطل کردیا تھا،جس پر سندھ حکومت کی
جانب سے خوب شور مچایا گیا،2019میں سگ گزیدگی کے واقعات پر سندھ حکومت کو
کچھ شرم وحیا کا احساس ہواتو کتا مار مہم کا آغاز کیا مگر اس کے بعد ہم نے
دیکھا کہ محترمہ آصفہ بھٹو صاحبہ کو اس بات کا احساس تو نہ ہواکہ کس کس طرح
سے معصوم بچے بچیوں اور بزرگوں کو کتوں سے کٹوایاجارہاہے مگر انہیں اس کتا
مار مہم کا بے حد افسوس ہواآصف بھٹوکو انسانوں کی بجائے آوارہ اور پاگل
کتوں کی زندگیاں زیادہ عزیز دکھائی دی جس پر تمام وزرا کی جانب سے بلاول
بھٹو کی ہمشیرہ کے حکم پر کتا مار مہم بند کرنا پڑی،محترمہ آصفہ بھٹو کے
حکم کے بعد اب تو سندھ کے وزیر آوارہ اور پاگل کتوں کے عقیدت مند بن چکے
ہیں،یعنی جب آصفہ بھٹو نے ہمیں کتوں کو مارنے سے روک دیاہے تو یقینا اس میں
کوئی نہ کوئی کراماتی بات ضرور ہوگی، اس ساری صورتحال میں سندھ کے ایک
صوبائی وزیر نے فرمایابلکہ بائیس کروڑ عوام کو یہ اطلاع باہم پہنچائی کہ
کتے اﷲ کی مخلوق ہیں، یقین کریں یہ اطلاع انہیں کسی کتاب یا استاد سے نہیں
ملی بلکہ یہ اطلاع آصفہ بھٹو صاحبہ کے کشف کی بدولت ان تک پہنچی ہے ۔
|