|
|
بھارت میں کورونا کی وباء روزانہ لاکھوں لوگوں کی جان لے
رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے معاملہ حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے کیونکہ بہت
کوششوں کے باوجود بھی نہ ہی مرنے والوں کی تعداد میں کمی آ پارہی ہے اور نہ
ہی اسپتالوں کے نظام میں بہتری آرہی ہے۔ عوام، اسپتال اور انتظامیہ کی
لاپروائی کے ہاتھوں اپنے پیاروں کو منہ میں جاتا دیکھ کر آپے سے باہر ہورہے
ہیں۔ |
|
میں نے اپنی بیوی اور
بچہ ایک ساتھ کھو دیا۔۔۔ سچن |
بھارت کی ریاست اترپردیش کے رہائشی سچن، بی بی سی کو
اپنی اسپتال میں بنائی گئی وڈیو بھیجتے ہوئے روپڑے اور بولے کہ “یہ وباء
جتنی خطرناک ہے اس سے زیادہ خطرناک یہ نظام ہے اور اس نظام نے ہم سب کو ڈرا
کردکھ دیا ہے“ |
|
سچن کی بنائی گئی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ روتے
ہوئے زور زور سے چلا رہے ہیں لیکن اسپتال میں کوئی ڈاکٹر یا طبی عملہ ان کی
بات نہیں سن رہا۔یہ وڈیو انھوں نے تب بنائی جب ان کی بیوی اسپتال میں طبی
مدد نہ ملنے کے باعث دم توڑ گئیں۔ |
|
|
|
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے سچن نے بتایا کہ“اس وقت
میرے اندر اتنا درد تھا جیسے کسی نے میرا دل تیز چاقو سے کاٹ ڈالا ہو، میری
حاملہ بیوی انجلی اور میرا بچہ جو ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں تھا وہ دونوں
مجھے ایک ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک دن میں دو دواموات ہوگئیں تب میں نے
سوچا کہ میں تو برباد ہوگیا ہوں لیکن اس نظام کے خلاف میں ضرور آواز اٹھاؤں
گا“ |
|
سچن نے بتایا کہ ان کی حاملہ بیوی کو تین دن مختلف
اسپتالوں کے چکر لگوائے گئے اور اس کی جان بچانے کے بجائے ٹیسٹ میں وقت
ضائع کیا گیا۔ |
|
ایسا نہیں کہ یہ صورتحال بھارت کی صرف غریب ریاستوں میں
ہی ہے بلکہ انڈیا کے دارلحکومت اور ترقی یافتہ شہر دہلی میں بھی حالات کچھ
مختلف نہیں۔ سچن کی طرح ہی ایک خاتون نِشی شرما نے بی بی سی کی صحافی کو
روتے ہوئے اپنی ساس بینا کی تصویر دکھائی جو اسپتال میں وینٹیلیٹر اور
آکسیجن نہ ملنے کے سبب موت کی آغوش میں چلی گئیں۔ |
|
میں اپنی ساس کو نہیں
بچا سکی۔۔۔ نِشی شرما |
بینا نے روتے ہوئے کہا کہ “وہ میری زندگی کی
بھیانک ترین رات تھی جب میں اپنی ماں جیسی ساس کو بچا نہیں سکی۔ نہ پیسہ
کسی کام آسکا نہ تعلقات اور میری ماں جیسی ساس دنیا سے چلی گئیں“ |
|
|
|
نشی کہتی ہیں کہ پورے دہلی میں صحت کا نظام تباہ ہوچکا
ہے ۔انھیں پوری رات ایک سو دوسرے اور دوسرے تیسرے اسپتالوں کے چکر لگانے
پڑے، نشی کہتی ہیں کہ “جب میں داکٹر کے پاس پہنچی تو انھوں نے مجھے زمین پر
لیٹے ہوئے مریض دکھائے۔ میں نے ڈاکٹر سے بھیک مانگی میں روئی کہ مجھے اپنی
ساس کے لئے ایک بیڈ دے دیں لیکن جب تک بیڈ ملا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
|
|
میری ساس نے بھی مرتے ہوئے مدد مانگی لیکن میں نہیں
کرسکی جبکہ مجھے ہیلپ لائن فون کرنے پر بتایا گیا تھا کہ وہاں بیڈ موجود ہے
لیکن پہنچنے پر ہمیں مایوس کیا گیا اور میری ساس کی جان چلی گئی“ نشی کے
گھر میں اس وقت تمام افراد کورونا سے متاثر ہیں لیکن وہ اپنی ساس کو خراجِ
تحسین پیش کرنے کے لئے اس وباء میں لوگوں کی مدد کرنا چاپتی ہیں۔ |
|