ذکرِ مَریم و ابنِ مَریم { 3 }

علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 27 تا 34 ازقلم مولانا اخترکاشمیری


اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فاتتبہٖ
قومھا تحملہ
قالوا یٰمریم لقد
جئت شیئا فریا 27
یٰاخت ھارون ماکان ابوک
امراسوء وماکانت امک بغیا 28
فاشارت الیہ قالواکیف نکلم من کان فی
المھد صبیا 29 قال انی عبد اللہ اٰتٰنی الکتٰب و
جعلنی نبیا 30 وجعلنی مبارکا این ما کنت واوصٰنی
بالصلٰوة والزکٰوة مادمت حیا 31 وبرابوالدتی ولم یجعلنی
جبارا شقیا 32 والسلٰم علَیّ یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث
حیا 33 ذٰلک عیسٰی ابن مریم قول الحق الذی فیہ یمترون 34
پھر جب مریم اپنی نگرانی میں پرورش پانے والے اُس نوجوان کو اپنے قبیلے کے بڑوں کے درمیان لے کر پُہنچیں تو وہ سب کے سب تعجب سے کہنے لگے ، اے ھارون کی بہن ! تُم یہ کون سا ایک عجیب و اَجنبی نوجوان لے کر ھمارے پاس آگئی ہو حالانکہ تُمہارا باپ بھی خاندان کا کوئی بُرا مرد نہیں تھا اور تُمہاری ماں بھی قبیلے کی کوئی خراب حال عورت نہیں تھی ، مریم نے اُس نوجوان کو لَب کُشا ہونے کا اشارا کیا تو خاندان کے اُن بزرگوں مزید بوکھلا ہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوۓ مزید کہا کہ ھم اِس کَل کے بچے سے بَھلا کیا بات کریں گے اور یہ ھم سے کیا بات کرے گا لیکن اُن کی یہ بات پُوری ہوتے ہی اُس نوجوان نے کہا کہ اگر تُم لوگ کُچھ دیر کے لیۓ میرے بارے میں اپنے یہ بزرگانہ اَندازے اپنے پاس رکھ سکو تو میں تمہیں یہ بات بتادوں کہ میں اللہ کا وہ ایک بندہ ہوں کہ جس بندے کو اللہ نے اپنی کتابِ ھدایت دی ھے اور جس بندے کو اللہ نے اپنا خبردار و خبرکار بندہ بنایا ھے اور جس نے اللہ نے مُجھے اپنا خبرکار بنایا ھے اُس نے مُجھے اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھی بہرہ مند کیا ھے اور اُس نے مُجھے یہ حُکم دیا ھے کہ میں جب تک اور جہاں پر بھی اُس کے جہان میں بقیدِ حیات رہوں اُس کی اُس کتابِ ھدایت کے کتابی اَحکام کے مطابق اہلِ حیات کو اہلِ حیات کے درمیان وسائلِ حیات تقسیم کرنے کی تعلیم دیتا رہوں جو کتابِ ھدایت اُس نے مُجھے دی ھے ، مزید یہ کہ میں ہمیشہ اپنی والدہ کے سامنے اپنا سرِ اطاعت جُھکاۓ رہوں اور کبھی بھی اُس کے سامنے سرکشی کا مظاہرہ نہ کروں ، میری اِس تعلیم و تربیت کا سبب یہ ھے کہ میری پیدائش کا دن بھی سلامتی کا دن تھا ، میری موت کا دن بھی سلامتی کا دن ہوگا اور میری موت کے بعد میری حیاتِ نَو کا دن بھی سلامتی کا دن ہو گا ، یہ ھے عیسٰی ابنِ مریم کے اَصل قصے کا وہ اَصل حصہ جس میں لوگوں نے ایک غیر فطری اور ایک غیر فکری اختلاف پیدا کیا ہوا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سب سے پہلے تو ھم اٰیاتِ بالا کے اُس آخری حصے پر بات کرتے ہیں جس میں اللہ تعالٰی نے ایک خاص اہمیت کے ساتھ اپنا یہ فرمان جاری فرمایا ھے کہ { یہ ھے عیسٰی ابنِ مریم کے اَصل قصے کا وہ اَصل حصہ جس میں لوگوں نے ایک غیر فطری اور ایک غیر فکری اختلاف پیدا کیا ہوا ھے } اللہ تعالٰی کے اِس فرمان کو پڑھ کر جب ھم اُن لوگوں کے اُس غیر فطری اور غیر فکری اختلاف پر غور کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں خود سیدہ مریم کی شخصیت کے بارے میں اہلِ تاریخ کا پیدا کیا ہوا وہ تاریخی اختلاف نظر آتا ھے جس اختلاف کے مطابق ایک سیدہ مریم تو خاندانِ داؤد کی وہ مریم بنتِ یواقیم ہیں جن کا مُؤرخ ابنِ خلدون نے ذکر کیا ھے اور ایک سیدہ مریم ، مریم بنتِ عمران ہیں جن کا قُرآنِ کریم نے تعارف کرایا ھے ، یعنی ایک مریم وہ ہیں جو عُلماۓ نصارٰی کی ایک جماعت کے خیال کے مطابق والد کی ولدیت کے بغیر پیدا ہوئی ہیں اور ایک مریم وہ ہیں جنہوں نے بذاتِ خود والد کی ولدیت کے بغیر اپنے بطن سے اپنے بیٹے عیسٰی کو جنم دیا ھے اور یہی وہ سیدہ مریم ہیں جن کو قُرآنِ کریم نے اُختِ ھارون نے کہا ھے اور اور یہی وہ مریم ہیں جن کے اِس نسبی حوالے کی بائبل نے بھی تصدیق کی ھے ، رہا زمانی طوالت کا فرق تو زمانے کی جو مُدت اہلِ تاریخ نے رَقم کی ھے اُس کے غلط ہونے کا ہر ایک اِمکان موجُود ھے اور اِس کا جو اَحوال قُرآنِ کریم نے بیان کیا ھے اُس میں غلطی کا کوئی موہُوم سا اِمکان بھی موجُود نہیں ھے کیونکہ قُرآنِ کریم کے بیان کیۓ ہوۓ اِس اَحوال کی بُنیاد مُؤرخ کی تاریخ نہیں ھے بلکہ اللہ تعالٰی کی وحیِ تصدیق ھے ، اِس قصے میں اہلِ تاریخ کا پیدا کیا ہوا ایک دُوسرا تاریخی اختلاف وہ اسمِ زکریا اور وہ اَحوالِ زکریا ھے جس کی رُو سے ایک زکریا تو وہ ہیں جو بائبل کے مطابق سیدہ مریم کے خالو تھےاور اُن کو سیدہ مریم کی پیدائش کے بعد سیدہ مریم کا کفیل بنایا گیا تھا اور پھر اسی بائبل کے مطابق اُس زکریا کو سیدہ مریم کو حاملہ بنانے کا ذمہ دار ٹھہرا کر قتل کر دیا گیا تھا اور دُوسرے زکریا اللہ تعالٰی کے وہ نبی ہیں جن کا قُرآنِ کریم نے پہلے سُورَہِ اٰلِ عمران میں اور اَب سُورَہِ مریم میں ذکر کیا ھے ، یہ درست ھے کہ سیدہ مریم کی پیدائش کے سے قبل سیدہ مریم کی والدہ نے جس زکریا کو سیدہ مریم کا سرپرست بنانے کی خوہش اور دُعا کی تھی وہ زکریا اللہ کے یہی نبی تھے لیکن دُعا تو اُنہوں نے اپنے پیٹ سے بیٹا پیدا ہونے کی بھی کی تھی اور اِس انسانی علم و خیال کے مطابق ہی کی تھی کہ اُن کی دُعا کی قبولیت و عدمِ قبولیت اللہ تعالٰی کے اختیار میں ھے اور اللہ تعالٰی نے اُن کو بظاہر ایک بیٹا دینے کے بجاۓ ایک بیٹی دے دی تھی اور جہاں تک سیدہ مریم کی عملی کفالت کا معاملہ ھے تو اُن کی پیدائش کے وقت جن لوگوں نے مریم کی کفالت کی ذمہ داری اُٹھانے کے لیۓ خود بخود ہی خود کو پیش کیا تھا اُن لوگوں میں زکریا نام کے ایک خاندانی بزرگ بھی شامل تھے لیکن قُرآنِ کریم نے اُن کے سیدہ مریم کے کفیل ہونے یا کفیل نہ ہونے کے بارے میں کوئی شہادت نہیں دی ھے جب کہ بائبل کی دیگر روایات کے مطابق سیدہ مریم کی کفیل سیدہ مریم کی خالہ ایشاع تھیں جن کے شوہر کا نام زکریا تھا اور شاید اسی وجہ سے اِن روایات میں اُن کو سیدہ مریم کا کفیل سَمجھا گیا اور کہا گیا ھے ، ھم نے اِس اختلاف کا اِس لیۓ ذکر کیا ھے تاکہ یہ بات مناسب حد تک واضح ہو جاۓ کہ اُس زمانے میں ایک زکریا تو وہ تھے جو اللہ تعالٰی کے نبی تھے اور جن کا اللہ تعالٰی نے قُرآن کی اِن اٰیات میں ذکر کیا ھے اور ایک زکریا وہ غیر نبی زکریا تھے جن کا بائبل کی روایات میں بائبل کے اُن جامعین نے ذکر کیا ھے جو اِرتکابِ معصیت میں نبی و غیر نبی میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے لیکن قُرآنِ کریم نے ہر ایک نبی کو ایک معصوم فَردِ بشر کے طور پر مُتعارف کرایا ھے ، اہلِ بائبل نے اَنبیاۓ کرام کے بارے میں اپنی جس عملی گُم راہی کا بار بار ارتکاب کیا ھے اُس کی ایک مثال یہ ھے کہ قُرآنِ کریم میں ابنِ مریم کا جن 36 مقامات پر ذکر کیا گیا ھے اُن 36 مقامات میں سے سُورةُالبقرة کی اٰیت 87 و 253 ، سُورَہِ نساء کی اٰیت 157 و 171 ، سُورةُالمائدة کی اٰیت 46 و 78 ، 110 و 112 ، 114 و 116 ، سُورَہِ مریم کی اٰیت 37 ، سُورَہِ اَحزاب کی اٰیت 7 ، سُورةُالحدید کی اٰیت 27 اور سُورةُالصف کی اٰیت 6 اور 16 کے 15 مقامات پر قُرآنِ کریم نے ابنِ مریم کا عیسٰی ابنِ مریم کے طور پر ذکر کیا ھے جب کہ سُورةُالمائدہ کی اٰیت 17 و 17 ، 72 و 75 اور سُورةُالتوبة کی اٰیت 30 اور 31 کے سات مقامات پر ابنِ مریم کا مسیح ابنِ مریم کے طور پر ذکر کیا ھے اور اِس کے بعد سُورَہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 45 میں { اسمہ المسیح عیسٰی ابن مریم } کہہ کر یہ اَمر بھی واضح کر دیا ھے کہ یہ ابنِ مریم کی ایک ہی ہستی کے دو معروف تعارفی اَسماۓ گرامی ہیں اور پھر سُورَہِ نساء کی اٰیت 171 میں { انما المسیح عیسٰی ابن مریم رسول اللہ } کا اعلان کر کے یہ بھی واضح کردیا ھے کہ یہُود و نصارٰی نے جس ہستی کے عیسٰی و مسیح کے دو اَلگ اَلگ نام رکھے ہوۓ ہیں وہ اللہ تعالٰی کے ایک ہی برگزیدہ رسول کے وہ دو نام ہیں جن دو ناموں کے ذریعے نے اُن کی ہستی کو یہُود و نصارٰی نے اپنی اپنی پسند کے دو خانوں میں تقسیم کیا ھوا ھے اور قُرآنِ کریم نے سُورةُالنساء کی اٰیت 157 میں { و قولھم انا قتلناالمسیح عیسٰی ابن مریم } کہہ کر اور سُورَہِ توبة کی اٰیت 30 میں { وقالت النصارٰی المسیح ابن اللہ } کہہ کر اپنے اِن دو اعلانات ذریعے یہ بھی بتادیا ھے کہ ایک طرف تو یہُود نے ابنِ مریم کے ساتھ اپنی دُشمنی کا اظہار کرکے بزعمِ خود اُن کو قتل بھی کردیا ھے اور قتل کرنے کا کُھلے بندوں اعلان بھی کردیا اور دُوسری طرف نصارٰی نے ان کو اللہ تعالٰی کے منصب پر مامُور کرکے اُن کو اپنا اِلٰہ بنا لیا ھے اور اُن کی اُلوہیت کا اعلان بھی کردیا ھے اور تیسری طرف صورتِ حال یہ ھے کہ اُمِ عیسٰی کو اللہ تعالٰی نے عیسٰی کی تربیت کی جو عظیم ذمہ داری تفویض کی تھی کہ وہ عظیم ذمہ داری اُنہوں نے اِس طرح اَنجام دی ھے کہ اُنہوں نے ایک طویل عرصے تک عیسٰی کو اِن دونوں گُم راہ فرقوں کی دست برد سے اِس طرح بچا کر پروان چڑھایا ھے کہ یہ دونوں فرقے جو عیسٰی کی غیر معمولی تخلیق کی بنا پر عیسٰی کے دوست یا دُشمن بنے ہوۓ تھے وہ اپنی اپنی جگہ پر اپنی اپنی دوستی و دُشمنی کو نبھاتے رھے لیکن مادرِ مسیح ایک ٹھیک وقت پر اپنے اُس جوان اور نبی بیٹے کو لے کر خاندان کے اُن بڑوں کے پاس پُہنچ گئیں اور عیسٰی ابنِ مریم نے وہاں پُہنچتے ہی اپنی نبوت و رسالت کا اعلان کر کے اُن سب کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا جس کے بعد یہود و نصارٰی کے وہ سارے اَفسانے دھرے کے دھرے رہ گۓ جو اَب تک اُنہوں نے مسیح کے نام پر اپنے اپنے فرقوں کے لیۓ بناۓ اور سُناۓ تھے ، اگر اِس مُشکل تفصیل کو ھم ایک سَہل اجمال کے ساتھ پیش کر سکیں کہ تو وہ یہ ہوگی جو عیسٰی مریم کی نگرانی میں رھے ہیں اُن کے ساتھ تو یہُود و نصارٰی شرک کا کوئی لاحقہ و سابقہ نہیں لگا سکے لیکن جو مسیح یہُود و نصارٰی کے خیالوں میں رھے ہیں اُن کے ساتھ وہ اپنے مُشرکانہ لاحقے اور سابقے ضرور لگاتے رھے ہیں لیکن اُس سے اُن کو ذلّت و رُسوائی کے سوا کُچھ بھی حاصل نہیں ہوا ھے ، جہاں تک اٰیاتِ بالا کے مطالب و مقاصد کا تعلق ھے تو اٰیاتِ بالا میں "تحملہ" کا جو لفظ آیا ھے اُس سے ایک شیر خوار بچے کا گود میں اُٹھا کر وہاں پر جانا مُراد نہیں ھے بلکہ اُس ذمہ داری کو اُٹھاکر وہاں پر جانا مُراد ھے جس ذمہ داری کی وہ مُتحمل تھیں اور اُس کے بعد کی گفتگو میں بھی سیدہ مریم کے خاندان کے بڑوں نے اُن پر کوئی تُہمت نہیں لگائی ھے بلکہ اُنہوں نے پہلے تو سیدہ مریم کے سامنے اُن کی خاندانی عظمت کا اعتراف کیا ھے اور اِس اعتراف کے بعد اِس اَمر پر تعجب کا اظہار کیا ھے کہ وہ اُن کی عُمر اور اُن کے منصب کا پاس لحاظ رکھتے ہوۓ اُن کے ساتھ خود بات کرنے کے بجاۓ اپنے ساتھ لاۓ ہوۓ اُس نوجوان کو بات کرنے کے لیۓ اشارہ کر رہی ہیں جو اُن کے خیال میں اُن کے سامنے کَل کا ایک بچہ تھا اور جس کو دیکھ کر وہ اپنے بزرگانہ رویۓ سے یہی کہہ سکتے تھے اور یہی کہہ رھے تھے کہ ؏
بات تک کرنی نہ آتی تھی تمہیں
یہ ھمارے سامنے کی بات ھے
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558434 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More