تحریر: نبیلہ شہزاد لاہور
بروز جمعۃ المبارک عربی مہینے ذی قعدہ کی 3 تاریخ اور انگریزی مہینے نومبر
کی 9 تاریخ 1877ء کو جب سیالکوٹ کی فضا میں ابھی فجر کی آذانیں بلند ہونا
شروع ہوئیں تھیں۔ اس وقت شیخ نور محمد کے گھر میں ایک سرخ و سپید، پیارے،
گول مٹول سے کشمیری بچے نے آنکھ کھولی۔ والدہ امام بی بی نے بڑی محبت سے
اپنے بیٹے کا نام محمد اقبال رکھا۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ ایک چھوٹے سے
گھر میں پیدا ہونے والا اقبال آنے والے دنوں میں آفتاب بن کر افق عالم پر
چمکے گا اور پوری دنیا میں اس کی شہرت کا طوطی بولے گا۔یہ گراں قدر جوہر
عالم اسلام کے لئے ایک رہنما کی حیثیت اختیار کرے گا۔اس کا کلام سوئی ہوئی
امت مسلمہ کو جگانے کا سبب بنے گاجس کے نتیجے میں نقشہ دنیا میں ایک بڑا
اسلامی خطہ ابھرے گا۔ اس کے کلام کو مومن کا لہو گرمانے کے لیے اکسیر کا
درجہ حاصل ہوگا۔ مثال کے طور پر ہم علامہ محمد اقبال کی وہ نظم ہی لے لیتے
ہیں جو ہم نے شعور کی زندگی میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنی سکول اسمبلیوں
میں لہرا لہرا کر پڑھنی شروع کر دی تھی۔ بے شک اس وقت ہمیں ان اشعار کے
معنی اور مفہوم کی کوئی خاص سمجھ نہ تھی لیکن حرف حرف یاد ضرور تھی۔ میرے
خیال میں کوئی پاکستانی ایسا نہیں ہوگا جو علامہ محمد اقبال سے عقیدت و
محبت نہ رکھتا ہو بلکہ پوری دنیا میں شاعری سے شغف رکھنے والے علامہ محمد
اقبال کو جانتے اور ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ محبت کا پہلا تقاضا ہی اطاعت و
فرمانبرداری ہوتا ہے۔ عظیم اقبال نے ہمیں ہمارے بچپن میں ہی سکھا دیا کہ ہم
نے کیسا انسان بننا ہے؟ آپ نے فرمایا:
لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری۔
علامہ محمد اقبال نے ہمیں صرف تصور پاکستان ہی نہیں دیا بلکہ ہمیں یہ ماڈل
بھی سمجھا دیا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کرنے والے ملک میں ہم نے کیسا
انسان بن کر رہنا ہے؟ اس مقدس ارض پاک پر جاہلیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس
کے مکینوں نے صرف ایک دوسرے کے لئے ہی معاون و رہنمائی کا کام نہیں کرنا
بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے امامت کا ذمہ سنبھالنا ہے۔ انہوں نے اپنے وطن
کی پہچان اور زینت بننا ہے۔ علم سے محبت کی شمع اپنے دلوں میں جلانی ہے۔
کیونکہ کوئی بھی قوم علم و عمل کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ اپنے دلوں کے
اندر ایثار کی دولت پیدا کرکے معاشرے کے محروم لوگوں کو بھی اپنے ساتھ
چلانا ہے اور ان کا معاون و مددگار بننا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے سے ہر پل
صراط مستقیم کا طلب گار رہنا ہے۔
علامہ محمد اقبال سے محبت کرنے والے پاکستانیو! اب ہم ذرا اپنے احوال بھی
دیکھ لیں۔ جو دعا ہم اپنے ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر سکول اسمبلی میں روزآنہ
مانگتے تھے۔ کیا اسے کبھی اپنے روز و شب پر بھی نافذ کرنے کی کوشش کی ہے؟
سود، کسادبازاری، رشوت خوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، جھوٹ، بے ایمانی، حق
تلفی، ان میں سے کتنی برائیوں کی غلاظت کو اپنے معاشرے سے ختم کرنے کی کوئی
تدبیر وکوشش کی ہے؟ یا پھر کسی نہ کسی صورت میں خود بھی ان اندھیریوں کا
حصہ بن گئے۔ پیارے اقبال نے تو سارے عالم کے مسلمانوں کو دین اسلام کے حرم
کی پاسبانی کے لیے ایک ہوجانے کی تلقین کی تھی لیکن افسوس!ہم نے متحدہونے
کے بجائے اپنے ملک یعنی اقبال کے گھر میں بھی اتحاد کو قائم نہ کیا ۔ کبھی
مذہب کے نام پر تفرقہ بازیوں میں مبتلا ہوگئے اور کبھی سیاست کے نام پرنفاق
میں پڑگئے۔
مصور پاکستان نے جس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نقشہ پیش کیا تھا آج حالات
اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک میں ہونے والے سانحات میں غریبوں کے گھر اجڑ
رہے ہیں۔ عوام دربدر بے حال ہورہی ہے۔سیاست دان اپنی اقتدار کی ہوس میں،
سیاست کے نشے میں مست ملکی صورتحال کو سلجھانے، لوگوں کا درد بانٹنے اور ان
کے لیے درست فکری سمت کا تعین کرنے کی بجائے اپنی اپنی سیاست کی دکان چمکا
رہے ہیں۔ انہیں صرف اپنی ذاتی منفعت چاہیے۔ ملک کس سمت میں جا رہا ہے انہیں
کوئی سروکار نہیں۔ علامہ محمد اقبال نے ہمیں اپنا شاہین کہا ہے۔ اس لفظ
شاہین کی لاج رکھتے ہوئے ہمیں احتساب اپنی ذات سے ہی شروع کرنا ہوگا۔
مسلمانوں کو اندر سے کھوکھلا کرنے والی چیز، ان کا آپس میں تفرقہ ہے۔ جس کے
لئے اغیار نے اپنے مال و زر، صلاحیت ووقت، کسی بھی چیز کو خرچ کرنے سے دریغ
نہیں کیا۔ مسلمان آپس میں ہی الجھتے رہیں اور اپنی جہادی توانائیاں ادھر ہی
صرف کرکے، ان کافروں کے سامنے ہمیشہ مغلوب ہی رہیں۔ یہی تو یہ ظالم اور
فسادی لوگ چاہتے ہیں اور ہم بھی کیسے بھولے لوگ ہیں جو خود ان کی مدد کرکے
ان کا مشن پورا کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے عمل و کردار کو علامہ اقبال کی اس
دعا کے مطابق ڈھالنا ہوگا جسے سکول اسمبلیوں میں پڑھتے ہوئے ہم نے لاشعوری
سے شعور تک، کا سفر طے کیا۔
|