اقبال اور نوجوان

اے نوجوان مسلم! کبھی تدبر بھی کیا تم نے؟

تحریر: عدیلہ نورین
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور استحکام میں نوجوانوں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ تاریخ رقم کرنا اور انقلاب برپا کرنا نوجوانوں کا ہی خاصہ ہے۔ نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ اگر ہم اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو پاکستان کی آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر ملک ان کے جذبوں اور توانائی سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا رہا۔

علامہ اقبال اپنی شاعری کے تینوں ادوار میں نوجوانوں کو مخاطب کیا اور چار نظمیں ایسی لکھی جو براہ راست اپنے فرزند جاوید اقبال سے مخاطبت کرتی ہیں۔ اپنے کلام میں مخاطبت جاوید اقبال سے کرتے ہیں لیکن اصل میں ملت اسلامیہ کے نوجوانوں سے مخاطب ہیں۔ علامہ اقبال خود فرماتے ہیں کہ میرا پیغام نوجوانوں کے لیے ہے۔ اپنی شاعری میں شاہین کی علامت نوجوانوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں نوجوانوں میں شاہین کی صفات ہوں اور پھر خود ہی شاہین کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ بلند پرواز، تیز نگاہ، خلوت پسند ہوتا ہے۔ وہ آشیانہ نہیں بناتا اور مردار نہیں کھاتا۔ وہ اپنی شاعری میں جگہ جگہ نوجوانوں کو بلند پرواز کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ کہیں نوجوانوں کو لہو گرم رکھنے کے لیے جھپٹ کر پلٹنے کا درس دیتے ہیں تو کہیں پہاڑوں کی چٹانوں پہ بسیرا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسے نوجوان کا خواب دیکھتے ہیں جو خوددار، غیرت مند اور شہ زور ہو۔ جس کا دل مضبوط، بہادر اور کشادہ ہو جو امت مسلمہ کو زوال سے نکالے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کا دل مضطرب ہو ان کی روح بے قرار ہو وہ کبھی مطمئن نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک ٹھہراؤ موت ہے۔

آج ملت اسلامیہ بالخصوص ملک عزیز کا نوجوان اقبال کے تصور شاہین، فلسفہ مرد مومن، فلسفہ خودی سے بے خبر اخلاقی پستیوں میں گھرا ہوا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی نوجوانوں کو عشق، فقر، جرات اور غیرت کا درس دیتا ہے مگر آج کے نوجوانوں میں عشق کے بجائے نفرت، فقر کے بجائے حرص و طمع اور جرات کے بجائے خوف جیسی منفی اقدار پنجے گاڑ رہی ہیں۔ آج ہم ذاتی اغراض کی خاطر دست سوال دراز کر کے انفرادی غیرت اور ملی حمیت کا خون کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ سخت کوشش کے بجائے نوجوان تن آسانی میں مبتلا ہو چکا ہے۔ جسے سجدہ کرنا ہے اسے کرتا نہیں جسے نہیں کرنا اس کے آگے جھکتا ہے۔ اقبال کی تعلیمات سے اس درجے کا انحراف ان کے روح کو کتنا بے چین کرتا ہو گا۔

وہ نوجوان جسے شاہین بن کر آسمانوں پر پرواز کرنا تھی وہ عارضی مفادات کی خاطر ہر ایرے غیرے کے تلوے چاٹ رہا ہے تو اس کا قصور وار خود نوجوان بھی نہیں۔ در حقیقت قیام پاکستان کے بعد حکمران اشرافیہ نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت یہ کوشش کی کہ پاکستان کے نوجوان مفکر پاکستان علامہ اقبال کے تصورات اور نظریات سے دور رہیں تاکہ حکمران اشرافیہ ذاتی اور گروہی مفادات حاصل کرتے رہیں اور شاہین جیسی صفات رکھنے والے نوجوان ان کے مفادات میں حائل نہ ہو سکیں۔ ہمارا نوجوان دنیا کی تمام ٹیکنالوجی کا ماہر، ذہین، فطین مگر اقبال سے دور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے معمار ملت کو ہی بھول بیٹھے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہی کہ قوم کو اقبال سے دور رکھنا ایک بہت بڑی سازش تھی اور ہے۔
آج اقبال کو ہم سے بچھڑے 84 سال گزر گیے ہیں مگر ان کا پیغام آج بھی کار گھر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پیغام میں آفاقیت پائی جاتی ہے اور یہ پیغام رہتی دنیا تک ہے۔ اقبال کی محض دو نظمیں شکوہ، جواب شکوہ ہی اگر کسی بچے کو آسان مفہوم کے ساتھ اس کی تربیت و تعلیم کی عمر میں سمجھا دیا جائے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی عمر کو غیر سنجیدہ اور لغویات میں گزار دے۔ پاکستان کے نوجوان موجودہ دور کے موقع پرست اور مفاد پرست لیڈروں کے فریب میں آنے کے بجائے علامہ کے پیغام کی جانب رجوع کریں اور اقبال کی فکر و دانش سے مسلح ہو کر موجودہ حالات کا مقابلہ کریں۔ اقبال کے پیغام کے مطابق ماضی سے سبق لیں، حال میں زندہ رہیں اور مستقبل پر نگاہ رکھیں۔

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1031059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.