ماں ' کائنات کا خوبصورت اور پیارا رشتہ

ماں کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ' خواہ وہ نچلے طبقے سے ہو درمیانی طبقے سے یا ایلیٹ کلاس کی ماں ہو ' ہمیشہ یہ سبق بچوں کو دیگی کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرو اور یہی وجہ ہے کہ ان کا دکھ اور درد بھی یکساں ہوتا ہے ' ماں میں کوئی کیٹگری نہیں ہوتی آپ کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ' اگر آپ کسی کو ماں سمجھ کر اس کی خدمت کرتے ہیں تو پھر آپ کو وہی دعائیں ملتی ہے جو وہ اپنے بچوں کو دیتی ہیںیہ نہیں کہ اپنے بچوں کیلئے الگ دعا اور دوسروں کیلئے الگ دعا ' بس ماں ماں ہوتی ہے اور ماں کی دعائیں بھی بغیر کسی لحاظ و تفریق کے سب کیلئے یکساں ہوتی ہیں.
ماں کتنی مقدس ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان سے اپنی محبت کا اندازہ بھی ستر مائوں جتنا بتا دیا اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ما ں کی اہمیت کتنی ہے ' وہ ماں جس کے پائوں تلے جنت ہے جس کی دعائوں میں اتنا اثر ہوتا ہے کہ موسی علیہ السلام جیسے جلالی پیغمبر کو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ موسی اب تیرے لئے اٹھنے والے تیری ماں کے ہاتھ نہیں رہے اس لئے احتیاط ' وہ ماں جس کی اہمیت کا اندازہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس ارشاد مبارک سے کیا جاسکتا ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوتا اور میری والدہ مجھے آواز دیتی اور میں نماز توڑ کر اپنے والدہ کی طرف چلا جاتا .یہ فرمان ہے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا 'جو خاتم النبین ہے اورجس کے وسیلے سے ہم اللہ تعالی سے اپنی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں.

ماں کہنے کو تین لفظوں پر مشتمل ایک حرف ہے لیکن اس ماں لفظ میں کتنی محبت ہے ' اس کا اندازہ ان لوگوں سے کیجئے جن کی مائیں زندہ نہیں ' ماں جو کہیں پر ماں جی ہے ' کہیں پر اماں ہے ' کہیں پر بی جی ہے ' کہیں پر بھابھی کہلائی جاتی ہیں کہیں پر مما اور کہیں پر امی جی کہیں پر مام ' الفاظ مختلف ہیں مگر محبت سب کی یکساں ہیں ' اپنے آپ کو بچوں کی خاطر مارنے والی صرف ماں ہی ہوتی ہیں.

اتنی لمبی تمہید صرف اپنی امی کیلئے کی ہے ' جس کا پیار اتنا تھا کہ اگر داجی گل سے مار پڑتی تو ہم سب امی کی طرف بھاگ جاتے اور امی بانہیں پھیلا کر ہمیں چھپا لیتی ' کبھی کبھار داجی گل انہیں بھی غصہ کرتے لیکن داجی گل کا غصہ انہیں قبول تھا لیکن اپنے بچوں پر غصہ انہیں قبول نہیں تھا ' شیطانی اگر کرتے بھی تو امی کہہ دیتی کہ تمھارے داجی گل کو شکایت کرونگی اور ہم مسلمان بن جاتے. ساری شیطانی نکل جاتی. لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ انہوں نے ہماری کسی شیطانی کے بارے میں ہمارے داجی گل کو کچھ بتایا ہو.

وہ ماں ہی نہیں جو اپنے بچوں کو نہ سمجھ سکے ' انکی عادات کو نہ سمجھ سکے ' میری امی کیسی تھی ' میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنی والدہ جسے ہم امی کہتے تھے اور جس کا انتقال ایک سال قبل ہوا ان کی تعریف کروں ' بس ماں تھی ' ایسی ماں جس نے آخری دم تک یہی دعا کی کہ یا اللہ میرے مرنے کے بعد بھی میرے بچوں کو غم اور تکلیفوں سے دور رکھنا ' اور یہ دعا بھی ایسی حالت میں کرتی تھی کہ وہ خود دل کی مریض تھی ' شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض تھی ایسی حالت میں بھی یہی دعا کرتی تھی کہ اے میرے رب میرے بچوں کی دکھوں کو مجھ پر ڈال دے لیکن میرے بچوں کو تکلیفوں سے بچا. یہ سننا اس وقت جب وہ زندہ تھی ایک عجیب سا احساس پیدا کرتا تھا لیکن آج وہ نہیں تو دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اے رب ذالجلال .. میرے امی کی قبر کو جنت کی باغیچوں میں سے خوبصورت ترین باغیچہ بنا..

مجھے ذاتی طور پرآج تک کبھی کسی کی موت نے دکھ نہیں دیا ' کیونکہ مرنا تو سب نے ہے ' کوئی آگے کوئی پیچھے ' لیکن ایک ہستی ماں ہے جو کسی کی بھی ہو اگر اطلاع ملے کہ فلاں کی ماں انتقال کر گئی ہیں تو دکھ اتنا ہوتا ہے کہ بیان کرنے کے قابل نہیں ' کیونکہ جس کی ماں انتقال کر جاتی ہیں اس کیلئے ہاتھ اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا اس کیلئے رب تعالی کے دربار میں اٹھنے والے ہاتھ نہیں رہتے.اور ماں کی دعا میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ رب ذوالجلال کبھی رد ہی نہیں کرتا.اور یہی وہ مقام بھی ہے کہ جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ماں کیسی بھی ہو ' ماں کا رشتہ بہت عظیم ہوتا ہے اس لئے اگر ماں اپنے بچے کو کچھ بھی کہہ دیں تو بیٹے پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماں کی حکم کو مانے.

کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ ماں اپنے اوپر سختی کرتی ہے کہ اس کے بچے کو تکلیف نہ ہو ' بچوں سے ماں کی محبت صرف اشرف المخلوقات میں ہی نہیں بلکہ جانوروں میں بھی ہے کسی بھی جانور کو دیکھ لیجئے ' انڈوں سے بچوں کی پیدائش سے لیکر انسان تک اپنے بچوں سے کتنی محبت کرتا ہے وہ عورت جب ماں بنتی ہے اور اپنا جسم آپرشن کیلئے قبول کرتی ہے لیکن اپنے بچے سے پیدائش کے بعد اس کی محبت کتنی ہوتی ہے اسے آپ خود تصور کریں ' اگر کسی انسان کے جسم میں کوئی بیماری ہو اور آپریشن کے ذریعے اسے نکال دیا جائے تو آغاز میں اسے دیکھنے کے بعد پھر اس چیز کو خواہ وہ رسولی ہو یا کوئی بیماری ' پتھری ہو یا کوئی بھی چیز ' دوبارہ اسے دیکھنے کو دل نہیں کرتا نہ ہی اس کیلئے دل میں محبت جاگ اٹھتی ہے ' لیکن یہ بھی اللہ کی شان ہے کہ عورت جب ماں بنتی ہے خواہ وہ نارمل طریقے سے ہو یا آپریشن سے ' اپنے جسم کے اس لوتھڑے سے جو اولاد کہلائی جاتی ہے کتنی محبت کرتی ہے کبھی غور کیا ہے..

ماں کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ' خواہ وہ نچلے طبقے سے ہو درمیانی طبقے سے یا ایلیٹ کلاس کی ماں ہو ' ہمیشہ یہ سبق بچوں کو دیگی کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرو اور یہی وجہ ہے کہ ان کا دکھ اور درد بھی یکساں ہوتا ہے ' ماں میں کوئی کیٹگری نہیں ہوتی آپ کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ' اگر آپ کسی کو ماں سمجھ کر اس کی خدمت کرتے ہیں تو پھر آپ کو وہی دعائیں ملتی ہے جو وہ اپنے بچوں کو دیتی ہیںیہ نہیں کہ اپنے بچوں کیلئے الگ دعا اور دوسروں کیلئے الگ دعا ' بس ماں ماں ہوتی ہے اور ماں کی دعائیں بھی بغیر کسی لحاظ و تفریق کے سب کیلئے یکساں ہوتی ہیں.

اپنی امی کی خاطر لکھے جانیوالے ان چند الفاظ میں امی کی ہر بات ' ہر لمحہ لکھنے کو دل کرتا ہے ' لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ اپنی امی کے بارے میں بھی لکھتے ہوئے سب کی مائوں کا احساس ہوتا ہے وہ ماں جو ہمیشہ یہ نصیحت کرتی ہے کہ بیٹا معاشرے میں ہمیشہ نیچے کی طرف دیکھا کرو ' اوپر کی طرف نہیں ' کیونکہ اپنے سے نیچے سطح کے لوگوں کو دیکھو گے تو دل سے اللہ کا شکر ادا کرو گے ' پتہ نہیں اللہ نے مائو ں کے دلوں میں اتنی بڑی باتیں کیسی ڈالی ہوتی ہے حالانکہ ہمارے طبقے کے بیشتر مائیں ماڈرن تعلیم سے بالکل لاعلم ہوتی ہے لیکن ہاں انہیں قرآن کی تعلیم بنیاد سے ملتی ہے تبھی وہ ایسی بڑی باتیں کہہ دیتی ہیں کہ مائوں کے مرنے کے بعد ان کی باتوں کو سوچ کر بھی حیرانگی ہوتی ہے کہ ایسی باتیں تو پی ایچ ڈی والے ہی کرتے ہیں ' حالانکہ.ہمارے مائوں نے پی ایچ ڈی نہیں کی تھی لیکن انہیں اللہ تعال کی طرف سے محبت کی پی ایچ ڈی ملی ہوتی ہیں کیونکہ ماں ماں ہوتی ہے..
کبھی کسی مرد کو روتے ہو ئے آپ نے دیکھا ہے ' مائوں کے گو د ہی میں سر رکھ کر مرد ہی روتے ہیں..کبھی غورکریں آپ جتنا بھی ذہنی تنائو کا شکار ہوں ' اپنے ماں کی گود میں سر رکھ کر رولیں' اپنے ماں کو اپنا دکھ بیان کیجیے ' بلا تفریق بلا لحاظ ' خواہ ماں بیمار ہو ' چارپائی پر ہو یا نارمل زند گی گزار رہی ہو' آپ کو دل کو سکون ملے گاـآپ کا ذہنی تنائو ختم ہوگا ' تقریبایہی حال ستر مائوں جتنا پیار کرنے والا اللہ کا بھی ہے اس کے آگے سر کو جھکائیے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیجئیے اور اس سے مدد مانگیں بالکل ستر مائوں کی طرح پیار کرنے والا اللہ سارا دکھ بھلا دے گا...
اپنی مائوں کی قدر کیجئیے ' کیونکہ یہ دنیا میں خالق کائنات کی طرف سے بھیجے جانیوالے خوبصورت ترین رشتوں میں سے ایک رشتہ ہے ...
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497475 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More