غدار یا ہیرو؟ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے جرائم کیا ہیں؟ دنیا کے سب سے مطلوب شخص کو ڈھونڈنے میں کیسے مدد کی؟

image
 
دن سے رات اور رات سے دن کرتا ڈاکٹر جسے اپنی زندگی کے 23 سال جیل میں کاٹنے ہیں۔ جسے نہ دیگر قیدیوں سے بات کرنے کی اجازت ہے حتیٰ کہ وہ اپنے خاندان والوں سے بھی اپنی مادری پشتو زبان میں بات چیت نہیں کرسکتا۔
 
“ہم سیاست یا جیل کے حالات پر بھی بات نہیں کرسکتے“ (قیدی کے بھائی کا بیان)
 
بظاہر یہ سب کافی ظالمانہ محسوس ہوتا ہے۔ آخر کسی کا ایسا بھی کیا قصور ہوسکتا ہے جس کی اسے اتنی سخت سزا دی جائے لیکن مذکورہ شخص کا جرم واقعی ایسا ہے جسے جان کر اس کو دی گئی سزا بھی چھوٹی معلوم ہونے لگتی ہے۔
 
شکیل آفریدی کون ہیں؟
ہم بات کررہے ہیں شکیل آفریدی کی جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے خیبر میڈیکل کالج سے 1990 میں گریجویشن کیا اور ان کی بیوی اپنے شوہر کی گرفتاری سے پہلے ایبٹ آباد کے ایک سرکاری اسکول کی پرنسپل تھیں۔ ان دونوں کے تین بچے ہیں۔
 
 وطن سے غداری
ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پاکستانی اور سرکاری ملازم ہونے کے باوجود امریکی اینٹیلیجنس(سی آئے اے) کے لئے خفیہ طور پر کام کیا اور 9/11 کی کارروائی کرنے کے بعد روپوش ہونے والے اسامہ بن لادن کو پکڑوانے میں امریکہ کی مدد کی۔ اسامہ بن لادن پاکستان میں روپوش تھا البتہ پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیز اسامہ کی پاکستان میں موجودگی سے لاعلم تھیں۔ ڈاکٹر شکیل نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر پاکستانی حکومت کے علم میں لائے بغیر ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی مدد کی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی حیثیت مشکوک ہوئی
 
جعلی ویکسینیشن پروگرام اور اسامہ بن لادن کی نشاندہی
ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکی امداد سے چلنے والے مختلف ویکسینیشن پروگرامز کی نگرانی کرچکے تھے۔ انھوں نے سی آئے کے پلان کے مطابق ایبٹ آباد میں ہیپاٹائٹس بی کے جعلی ویکسینیشن پروگرام ترتیب دیے جن کا مقصد کے پی کے اور ایبٹ آباد کے مشکوک لوگوں کے خون کے نمونے حاصل کرنا تھا تاکہ انھیں سی آئی اے لیبس میں موجود اسامہ بن لادن کے نمونوں سے میچ کرکے اس کی موجودگی کا پتہ چلایا جاسکے۔۔اور ایسا ہی ہوا۔ ویکسین کے بہانے مشکوک افراد کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے جو ٹیسٹ کرنے پر بن لادن کے خاندان کے افراد کے ڈی این اے ثابت ہوگئے۔ اس کے بعد 2 مئی 2011 کو امریکہ نے پاکستان میں کارروائی کرکے اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا
 
image
 
ڈاکٹر شکیل آفریدی نے سی آئی اے کے ایک شخص “پیٹر“ کے کہنے پر ایسا ہی کیا۔ جب کہ بعد میں پاکستانی ایجنسیز کی ہونے والی تحقیقات کے مطابق ڈاکٹر شکیل کو پلان کے اصل ہدف کا علم نہیں تھا۔ جنوری 2012 میں امریکہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں کارروائی کرنے کے لئے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا ہی استعمال کیا۔
 
image
 
ڈاکٹر شکیل کے جرائم اور سزا
اپنے ملک کی سلامتی اور شہرت کو رسک پر ڈال کر کسی دوسرے ملک کے مفاد کے لئے کام کرناسیدھا سیدھا غداری کے زمرے میں آتا ہے لیکن ڈاکٹر شکیل پر صرف یہی ایک الزام نہیں بلکہ کالعدم عسکریت پسند جماعت لشکرِاسلام کے گروہ سے تعلقات رکھنے کا الزام بھی ثابت ہوچکا ہے۔ پاکستان ٹرائبل کورٹ کے تحت ڈاکٹر شکیل کو 320,000 جرمانہ بھرنے کے علاوہ 33 سال قید کی سزا دی گئی تھی جو کہ اب 23 سال کردی گئی ہے۔ ڈاکٹر شکیل اب پنجاب میں ساہیوال جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
 
ڈاکٹر شکیل کے اخلاقی جرائم
ڈاکٹر شکیل کے اخلاقی جرائم کی فہرست بہت سنگین اور طویل ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنے ملک کی سالمیت پر ایک دوسری ریاست کے مفادات کو ترجیح دی بلکہ اپنے وطن کے ساتھ دھوکہ اور غداری کی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ویکسین پروگرام پر عوامی اعتماد کو ختم کرنے میں بھی ڈاکٹر شکیل اور امریکہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان کے بنائے گئے جھوٹے ویکسینیشن پروگرام کے سبب علاقائی لوگ اب ویکسین پر یقین نہیں رکھتے اور ڈاکٹر شکیل کے حقائق سامنے آنے کے بعد پولیو ویکسینیشن پروگرام کو بھی ملکی سلامتی کے لئے سازش سمجھتے ہیں۔
image
YOU MAY ALSO LIKE: