حضرت اسماعیل علیہ السلام احوال و مناقب

سیدنا اسماعیل علیہ السلام جلیل القدر انبیاء میں سے ہیں۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے ہیں۔ قرآن کریم میں بیشتر مقامات پر ان دونوں ہستیوں کا اکٹھا ذکر ہوا ہے۔ آپ معمار کعبہ، ذبیح اللہ، ابو العرب اور ابو الحجاز کے القاب سے ملقب ہیں۔ قرآنِ مجید میں آپ علیہ السّلام کے تین اوصاف نہایت صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ (1)تعمیرِ کعبہ کے دَوران اپنے والد، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے شانہ بشانہ شریک رہے۔(2)آپ وعدے کے بڑے پکّے اور سچے تھے۔ (3)آپ لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے رہتے تھے تاکہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں۔’’ (اے نبی)کتاب میں اسماعیل علیہ السلام کا بھی ذکر کیجیے۔ بے شک، وہ وعدے کے سچے اور (ہمارے)بھیجے ہوئے نبی تھے اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تعلیم دیتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے ہاں پسندیدہ(برگزیدہ) تھے۔‘‘ (سورہ مریم :54-55)

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو پہلی زوجہ حضرت سارہ سے اولاد کی نعمت حاصل نہ ہوئی تو انہیں کے مشورے پر آپ نے حضرت ہاجرہ علیہا السّلام سے نکاح کیا، چنانچہ بڑی دعاؤں اور تمنّائوں کے بعد 86سال کی پیرانہ سالی میں اللہ تعالیٰ نے ان کے بطن سے آپ کو حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں اولاد کی نعمت عطا کی، اب اللہ تعالی کی طرف سے ایک اور آزمائش یہ آئی کہ نومولود لختِ جگر اور فرماں بردار بیوی کو ہزاروں میل دْور ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنے کا حکم ہوا۔ وادیء فاران کے ویران پہاڑوں کے درمیان اللہ کی یہ نیک بندی اپنے معصوم اور نرم و نازک لخت جگر کے ساتھ قیام پذیر ہوگئیں۔ جب زادِ راہ ختم ہو گیا، بھوکے ، پیاسے بچّے کی بے چینی پر ممتا تڑپ اٹھی، پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پر چکر لگانا شروع کردیے، جب سات چکر مکمل ہو چکے، تو اللہ جلّ شانہ نے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں تلے دنیا کے سب سے متبرّک اور پاکیزہ پانی جو آبِ زَم زَم کہلاتا ہے ، اسکا چشمہ جاری کر کے نہ صرف ماں، بیٹے کے لیے بہترین غذا کا بندوبست کیا، بلکہ تاقیامت مسلمانوں کے فیض یاب ہونے کا وسیلہ بنا دیا۔ اور رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دے دیا کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنے والے صابر و شاکر بندوں کو ایسے ہی بیش قیمت انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ متبرک پانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے غذا بھی ہے اور شفا بھی۔ اللہ تعالی نے یہ نعمت آپ علیہ السلام ہی کے صدقے عطا کی ہے۔ پھر جب آپ کی عمر13 سال ہوئی توایک دن آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا’’اے بیٹا!مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تمھیں ذبح کر رہا ہوں، تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے ؟(فرماں بردار بیٹے نے سرِ تسلیمِ خم کرتے ہوئے فرمایا) ابّا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے ، وہی کیجیے ۔اللہ نے چاہا، تو آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے ۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت:102) سیدنا اسماعیل علیہ السّلام کا یہ سعادت مندانہ جواب دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندی کی ایک شان دار مثال ہے۔ اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علّامہ اقبال نے یوں بیان کیا۔

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سِکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
قصہ مختصر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ،آپکے گلے پر چھری چلانے ہی والے تھے کہ غیب سے آواز آئی’’اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچّا کر دِکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں‘‘۔(سورۃ الصٰفٰت :105) حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے اس بے مثال جذبہء ایثار، اطاعت و فرماں برداری، جراء ت و استقامت، تسلیم و رضا اور صبر و شْکر پر مْہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ’’اور ہم نے (اسماعیل)کی عظیم قربانی پر اْن کا فدیہ دے دیا۔‘‘ اللہ ربّ العزّت کو اپنے دونوں برگزیدہ اور جلیل القدر بندوں کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اسے اطاعت، عبادت اور قربتِ الہٰی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے قیامت تک کے لیے جاری فرما دیا۔

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ’’ پہلا شخص جس نے واضح عربی زبان کے ساتھ زبان کھولی، وہ اسماعیل علیہ السّلام ہیں اور اْس وقت آپ14سال کی عمر کے تھے ۔‘‘ عربی کے علاوہ، آپ کو قبطی اور عبرانی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ تاریخ کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے جو شخص گھوڑے پر سوار ہوا، وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام تھے ۔اس سے پہلے یہ وحشی جانور تھا۔ آپ علیہ السّلام نے اسے سدھایا اور مانوس کیا اور پھر اْس پر سواری کی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’ گھوڑوں کو اپناؤ اور ان پر سواری کرو۔ بے شک یہ تمہارے باپ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی میراث ہے۔‘‘( ابنِ کثیر) آپ علیہ السّلام معمار بیت اللہ کے لقب سے بھی مشہور ہیں، کیونکہ آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے دَوران اپنے والد کے شانہ بشانہ کام کیا تھا۔ آپ پتھر اور گارا والد کو اٹھا کر دیتے جاتے اور وہ اْنہیں دیوار پر چْنتے رہتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’اور جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے تو دْعا کیے جاتے تھے کہ’’ اے ہمارے پروردگار! ہماری یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک تو سْننے والا اور جاننے والا ہے ۔‘‘(سورۃ البقرہ:127)

آپ علیہ السّلام کے 12 بیٹے ہوئے۔ سب کے سب اپنی قوم کے سردار بنے اور ہر ایک نے الگ الگ بستیاں آباد کیں۔ اْن کی اولاد اتنی کثیر تعداد میں بڑھی کہ حجاز سے نکل کر شام، عراق اور یمن تک پھیل گئی۔ حجازِ مقدّس کے تمام عرب حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے 2 صاحب زادوں یعنی قیدار اور نابت کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السّلام نے 137سال کی عمر میں وفات پائی۔آپ کعبۃ اللہ کے صحن میں میزابِ رحمت اور حجرِ اسود کے درمیان اپنی والدہ کے پہلو میں مدفون ہیں۔(ابنِ کثیر)
مصادرومراجع:(القرآن الکریم، تفسیر نعیمی، صحیح البخاری، قصص الانبیاء لابن کثیر)
 

Mohammad Nadir Waseem
About the Author: Mohammad Nadir Waseem Read More Articles by Mohammad Nadir Waseem: 34 Articles with 115257 views I am student of MS (Hadith and its sciences). Want to become preacher of Islam and defend the allegations against Hadith and Sunnah... View More