آج کل معاشرے کے ہر طبقہ میں محض
یہی گفتگو زیرِبحث نظر آتی ہے کہ مسلم امہ من حیث القوم اس جہانِ آب و گل
میں خصائل کے بجائے رذائل سے متصف کیونکر ہوگئی ہے؟ تمام صفاتِ مذمومہ و
مشؤمہ میں ترقی اور ہر صفتِ مقصودہ و محمودہ سے تنفّر آخر کس بات کی غماز
ہے؟ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمارے اطراف و اکتفاف میں ہر دوسرا شخص مسلمانوں
کے عروج و ترقی کی داستانیں سناتے ہی ملا ہے جن کی حیثیت ''پدرم سلطان بود''
سے زیادہ نہیں۔ ٹھیلے سے لیکر چوک چوپال اور ڈرائنگ روم سے لیکر اسمبلی ہال
تک ہر کس و ناکس کی نشست و برخاست کا مرکزی موضوع یہی نقطۂ نظر ہے مگر
نتیجہ ندارد اگر صاحباِ ''جبہ و دستار'' کی شان میں گستاخی نہ ہو تو عرضیکہ
جس طرح علم او رجہل کسی ایک کیفیت کا نام نہیں، اسی طرح دعویٰ امامت اور
موجودہ غفلت کا باہمی تضاد بھی ظاہر و باہر ہے۔ مقتداء و پیشوا ہونے کا
اوّلین تقاضہ یہ ہے کہ قوم کو تخیّل کے دلفریب صحرا میں حیران و سرگرداں
پھرانے کے بجائے کلامش الہٰی سے مرض کی تشخیص اور رفوری علاج آپ پر نہ صرف
فرض بلکہ قرص ہے جہاں تک ہم سمجھتے ہیں موجودہ حالت کسی حادثاتی عمل یا پلک
جھپکتے میں رونما نہیں ہوئی بلکہ بہ یک وقت کئی عوامل کارفرمارہے ہیں
سرِدست بنیادی واساسی وجہ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
مردم شماری کے خانے میں خود کو ''مسلمان'' ظاہر کرنے والے لوگ جو نسلی و
خاندانی عصبیت کے اتھاہ سمندر میں موجزن ہیں۔ تقلیدِ جامد نے ان کی فہم
وفراست کو ماؤف و معطل کرکے رکھ دیا ہے نوبت یہ آگئی کہ کسی معاملہ کو عقل
و دانش کی کسوٹی پر پرکھنے اور صداقت کی حمایت میں جرأت و ہمت کے ساتھ ڈٹ
جانیوالے مومنِ صادق کا روئے زمین پر موجود ہونا کمیاب نہیں تو نایاب ضرور
ہے۔
گورپرست اور احمقوں کے سرپرست لباس خصری میں ملبوس رہبر کے روپ میں پیشہ ور
رہزن ملت کے ماتھے پر ذلت کا بدنما داغ چھوڑ گئے۔ انہوں نے منظم طریقے سے
مسلم امہ کی فہم و فراست پر زبردست مورچے قائم کرکے علم اور اس کے رفیق
اسلام دونوں پر بہ یک جنبش حملہ کردیا۔ او راپنے گماشتوں کو مذہب کا لبادہ
اوڑھا کر وہ طوفانِ بدتمیزی برپا کیا کہ الامان والحفیظ طے شدہ منصوبے کے
مطابق دین سے متعلق مسلمہ عقائد و محققہ مسائل کے برخلاف ایسی باتیں
پھیلائیں کہ عام لوگ علم و فراست سے عداوت و نفرت پر مجبور ہوگئے۔ نتیجةً
امت لکیر کی فقیر او رجہالت عالمگیر ہوگئی۔
دین دشمن عناصر شاید اسی موقع کے انتظار ہی میں تھے۔ لہٰذا مناسب وقت پر یہ
دعویٰ کر بیٹھے کہ مذہب ناقص و نامکمل ہے ہم اپنی خانۂ ساز کارفرمائیوں کے
ذریعے اسلام کی پرانی عمارت میں نئی روشنی ڈالنے کے خواہشمند ہیں۔
میر جعفر و میرصادق کے روحانی جانشینوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ
آخری ہچکولے کھاتے دیگر ادیانِ باطلہ سے کچھ ایسی باتیں منتخب کرکے اسلام
کے لیے مستعار لے لیں جن سے اسلام اور اسلاف بری الذمہ تھے۔ نت نئی ایجادات
کو عوام کی نِظروں میں جاذبِ نظر و دلکش بنانے کے لیے کہیں شجر معبود
ٹھہرائے تو کہیں پتھر مسجود کہلائے۔ بقول اقبال
ہو نہ کیوں نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
ساتھ ساتھ اس حماقت کو عبادت کا درجہ دیتے ہوئے ایک غیرمقبول و نامعقول
قاعدہ ایجاد کیا کہ متاخرین کو متقدمین کی اندھی تقلید کے سوا کچھ کہنے یا
کلام کرنے کا قطعاً حق نہیں۔
مسلمانوں میں غوروفکر کی رہی سہی طاقت و لیاقتیں ساکن اور عقلیں منجمد ہوکر
رہ گئیں بازاری حکایات اور ہندوستانی روایات کی انس زور و شور سے نشرواشاعت
ہوئی کہ عوام مطمئن ہوچلی کہ اعتقادات تو رہے ایک طرف نجی مسائل سے تعلق
رکھنے والے وہ معاملات جن کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہے ان میں تدبر و
تفکر اور رائے زنی کا حق بہرحال انہیں نہیں۔ اذھان میں یوں ابہام پیدا
کردیا کہ اعمال کا موجودہ فساد اور حالات کا اختسال حکام کے کرتوتوں کا
نتیجہ نہیں بلکہ یہ تو احادیث میں واردشدہ ان پیشنگوئی کا حق و سچ ثابت
ہونا ہے جو آخری دور سے متعلق ہیں۔ اس بات کو تقدیر باور کرادیا کہ حال اور
مال کی اصلاح کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ تو ہوا اﷲ کے سپرد، البتہ
ہم مسلمانوں کا محض ایک ہی کام باقی بچا ہے کہ ہم صرف اپنی ذات تک محدود
رہیں اور اسلام کے جدید ایڈیشن کے طور پر پیش کی جانے والی خرافات کو مذہبی
رسومات کا درجہ دیکر آبِ حیات اور وجہ نجات جانیں۔ شریعت کے معتبر مسائل
میں ہر کس و ناکس کے اقوال کی وہ دھاک بٹھائی کہ حقائق اور لطائف خلط ملط
ہوکر رہ گئے۔ الغرض قصہ مختصر آج نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جسے بہترین سانچے
میں تخلیق کرکے زمین کی خلافت و نیابت سونپی گئی تھی اس کی طبقاتِ آسمانی
سے اوپر پہنچنے والی امیدیں اکارت جارہی ہیں اور ایسا جمودسا پیدا ہوگیا ہے
کہ اصلاحِ احوال کی تمام کوششیں بے سود ہوتی جارہی ہیں۔
ہر کہنے والے کی بات حقیقت کے بجائے عقیدت کے ترازو میں تول کر بھیڑ چال
چلی جارہی ہے۔ خواب تو دیکھے جارہے ہیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی ترقی و
خوشحالی کے اور حالت یہ ہے کہ ہر برائی ہم میں موجود اور ہر بھلائی سے
کوسوں دور ہیں۔ بات یہیں پر ختم ہوجاتی تو بھی غنیمت تھی مگر وائے افسوس کہ
ان بندگانِ درہم و دینار نے یہ فلسفہ وضع کیا کہ مذہب و سیاست دو الگ الگ
چیزیں ہیں۔ کچھ کرگزنے کا جذبہ رکھنے والے جوانوں کی صلاحیتیں سیاستدانوں
کے کالے دھن اور جذبات کی تسکین کے لیے استعمال ہونے لگیں۔ جب تک انسان
اپنی غلطی کا احساس نہ کرے تو وہ ہر دلیل کی تاویل پیش کردیتا ہے۔ اسی طرح
جب تک غلطی کی درست سمت میں نشاندہی نہ ہو تو اصلاحِ احوال کے لیے اٹھایا
جانیوالا ہر اقدام، خام و ناتمام ہی رہتا ہے۔ البتہ احساس و درست نشاندہی
کے بعد اصلاح کار بھی ممکن ہے اور انسانی کوششیں بارآور ثابت ہوتی ہیں اور
ابنِ آدم کی علمیت و قابلیت کے ذریعے مذہب و تہذیب پروان چڑھتے ہیں۔ بحیثیت
مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قرآن ہی وہ آخری الہامی سرمایۂ رشد و صداقت ہے جو
ہمیں ایک واضح مکمل او رابدی و سرمدی ضابطۂ حیات اور دستورِاساس عطا کرتا
ہے جس میں ہر عہد، ہر نسل اور ہر طرح کے حالات و واقعات کے لیے مکمل
رہنمائی موجود ہے۔ ہمیں اس درسِ انقلاب سے خالق و مخلوق، عابدومعبود اور
مالک و مملوک کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہوگا۔ پھر ہماری ایمانی معلومات
جسمانی معمولات میں داخل و شامل ہوجائیں گی سطور سے صدور اور نقوش سے نفوس
کا مرحلہ جونہی طے ہوگا اِک نیا سپیدۂ سحر منتظر ہوگا۔ |