بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سُبحٰنَ الَّذِی اَسرٰی بِعَبدِہ لَیلًا مِّنَ المَسجِدِ الحَرَامِ اِلیَ
المَسجِدِ الاَقصَا الَّذِی بٰرَکنَا حَولَہ لِنُرِیَہ مِن اٰیٰتِنَا
اِنَّہ ھُوَ السَّمِیعُ البَصِیر۔(بنی اسرائیل)ترجمہ :پاک ہے وہ ذات جو لے
گیا اپنے بندے کو تھوڑی سی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرد
اگرد ہم نے برکت دی ہے ۔تاکہ دکھائیں بندے کو اپنی نشانیاں ۔بے شک وہ
دیکھنے اور سننے والاہے۔
قرآن کریم کی یہ دو سطریں ہیں کہ چودہ سو برس سے ہر قرن وصدی میں تفسیریں
لکھیں گئیں۔مجلد کے مجلد تیار ہو گئے ،مگر سچ یہ ہے کہ حقِ تفسیر ادانہ ہو
سکا ۔ اعجاز قرآن دیکھو کہ واقعہ کی تصویر کشی مخالفین کی نکتہ چینی کا
دندان شکن جواب ،موقع ،اہتمام وغیرہ ،کثیر مضامین کو جن کے لئے ہمیں دفتر
بھی کافی نہیں ،چند لفظو ں میں کہہ سنایا ۔
آیئے اس ازلی کلام کو دیکھئے جس میں دو سطروں نے ہم کو دفاتر سے مستغنی کر
دیا ہے اور روحانیت بھرے دلائل سے واقعہ کی صورت کو بے حجاب فرمادیا ہے
۔”سبحان “یعنی پاک ہے ۔
اللہ اللہ کیا شان اعجازقرآن ہے کہ مولیٰ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفا ت
کمالیہ سے منتخب فرماکر،یہاں لفظ”سبحان “فرمایا گیا ہے یا دو سرے لفظوں میں
یوں کہیے کہ مسئلہ معراج پر تقریر کرنے سے پہلے اس مضمون کا عنوان ”سبحان
“قرار پایا ہے ۔بات یہ ہے کہ ”سبحان “کا مادہ عربی قاعدہ سے ”س ب ح “ہے اور
لغت میں اس کے معنی میں تیز رفتا ری داخل ہے۔اہل عرب”سبح،سبوحا“ اس وقت
کہتے ہیں کہ جب گھوڑا تیزی سے دوڑتا ہوا نکل جائے ۔
”سبحان“ کی سر خی نے بتا دیا کہ آئندہ جومضا مین بیان ہوں گے ان میں کسی
خاص تیز ر فتاری کا ذکر ہو گا اسی مقام پر بیان کی جا نے والی تیز رفتاری
کے امکان کا سوال پیدا ہوتا ہے لہٰذا فرمایا”الذی اسرٰی“ یعنی جو لے گیا
۔لفظ لے گیا کے لیے عربی میں اذھب اور ذھب کثیر ا لا ستعما ل ہے اور قر آن
کریم میں جا بجایہ لفظ آیا ہے لیکن اس کو ترک فرما کر لفظ’ ’اسرٰی“اس جگہ
پر فرمایا گیا ہے بات یہ ہے کہ ’’اسرٰی‘‘ اور ”اذھاب“یا ”ذھاب“میں ایک
باریک لغوی فرق ہے ،یعنی اگر لے جا نے والا خود بھی ساتھ ہے تو ”اسرٰی“ کہا
جا تا ہے اور”اذھاب“وغیرہ میں یہ ضروری نہیں ۔یہا ں بتا یا گیا ہے کہ معراج
میں قدرت کی زبر دست طاقت ہمراہ تھی اور لے جا نے والا جانے والے کے ساتھ
تھا۔
اگر تم قدرت کی زبر دست آزادی اور اس نت نئے نرالے جلوے اور انوکھے مظاہرے
کو جا نتے بو جھتے محسوس کرتے ہو تو بلا شبہ تیز رفتاری کے مسئلہ کا امکان
بلکہ وقوع اسی ایک لفظ سے ہوگیا۔ورنہ مجھے اجازت دی جائے کہ آپ کو کسی
مشہور ڈاکٹریا تجر بہ کار حکیم کے پاس جانے کا مشورہ دوں ۔کیا دنیا میں
ایسا کوئی بھی عقلمند انسان ہے کہ کمزور انسان سے امید رکھتے ہوئے (کہ
موجودہ تیز رفتا ر چیزوں سے زیادہ تیز رفتار چیزبنا سکتا ہے )قدرت کو ایسا
معاذ اللہ لو لہ لنگٹراسمجھتا ہے کہ اس سے غیر معمولی رفتا ر کی خلقت سے
مایوس ہے ؟ اگر کوئی ایسا ہے تو مجھے اس کو انسان کہنے میں بہت تکلف ہے
۔مسئلہ وقو ع تیز رفتا ری کے کا مل حل کے لئے تین با توں کی ضرورت ہے :
معلو م ہو جائے کہ تیزر فتار کون تھا ؟ بتر تیب بتایا گیا کہ”بعبدہ“اپنے
بندہ کو ۔
آﺅ ! آﺅ !روحانی معراج کے سرمایہ داروں کا جائزہ لو اور دیکھو کہ قر آن ان
کو کتنے پانی میں بتا تا ہے؟ پوچھواور ہا ں ہاں ضر ور پوچھو کہ ”عبد “کس کو
کہتے ہیں ؟ کیا بندہ سے مراد روح ہے ؟ ہاں نہ کہنا،ورنہ تمہارا نو کر ہر
کام میں کہہ دے گا کہ بندہ نواز روح بازار میں کام کرنے گئی ہے ،میرا جسم
خدمت نہیں کر سکتا ،بندہ نے نو کری تو کی ہے مگر آپ تو خود کہتے ہیں کہ
بندہ روح کا نام ہے پھر کیاجسم لفظ بندہ سے مراد ہے؟ ہرگز نہیں ورنہ موت کے
بعد بھی نعش سے ما لک کام کی فرمائش کرے گا اور عدم تعمیل کے جرم میں سزا
دیاکرے گا۔ سلیم طبیعتیں سمجھ گئیں کہ”عبد“یعنی بندہ یا نو کر ،ان الفا ظ
کا اطلاق جسم مع روح پر ہے اور یہی صورت مشکلات کو دفع کرتی ہے۔قر آن کریم
کے ایک لفظ نے ظا ہر فرمایا کہ معراج کا سفر نہ خواب و خیا ل تھا،نہ جنازہ
برداری ، بلکہ معراج والے آقا جسم و روح دونوں کے ساتھ مرتبہ قرب پر فا ئز
ہوئے تھے ۔مدت سفرظاہر فرمانے کے لیے ارشاد ہوتاہے ”لیلًا“تھوڑی رات میں
،عربی زبان میں”لیلًا“نکرہ ہے اور اس کے معنی میں کمی وقت کی شان پائی جاتی
ہے۔اس لفظ نے جہاں قلت وقت کو صاف بیان کر دیا ہے ،مدعیان معراج روحانی پر
دوسرا قہر یہ ڈھایاہے کہ اگر روح کی تیز رفتاری کو اس واقع سے تعلق ہے تو
تھوڑی سی رات میں یہ کون سا عجب واقعہ ہے ،جس کے بیان میں ایک ایک لفظ میں
ہزاروں اہتمام رکھے گئے ہیں ۔دنیا ئے خوا ب اور عالم تصور میں روح اتنی
مسافت طے کرتی رہتی ہے ، جس کے بیان کی قلت کےلئے ”لیلاً“کا لفظ بھی کا فی
ہے ا ور جس کی مقدا ر وہی فلسفہ کا ”جز لا یتجزی“ہے ۔
کیا قرآن کریم کو کلا م الٰہی ما نتے ہوئے لفظ ”لیلاً “سے روحانی معراج کی
تائیدکرانا اس معجزہ نماکلام مقدس سے مضحکہ(مذاق)نہ سمجھا جا ئے گا؟احا دیث
صحیحہ نے” لیلا ً‘ ‘کی تفسیر میں فر ما یا ہے ۔کہ واپسی پر زنجیر مبارک
متحر ک اوربستر شریف گرم تھا ۔ با قی رہا یہ مرحلہ کہ مسا فت سفر کتنی تھی،
اس کے متعلق کہا گیامن المسجد الحرا م الی المسجد الا قصٰی ”مسجد حرام سے
مسجد اقصٰی تک “ مسجد حرام مکہ معظمہ کا دوسرا نام ہے اور اس پر عا مہ اہل
اسلام کا اتفا ق ہے اور مسجد اقصٰی جمہو ر کے نزدیک ”بیت المقدس“سے تعبیر
ہے ،لیکن محققین کا ایک مقد س گر وہ مسجد اقصٰی کا دوسرا ترجمہ کرتا ہے۔ان
کے نزدیک مسجد کا معنی ”مقام سجود“ ہے اور اقصٰی کا ترجمہ ” منتہیٰ“
ہے،یعنی وہ منتہا ئے مقا م سجود جس کے بعدمکان ،عا لم امکان میں غیر موجود
ہے اور ایسا مقام عرش اعظم ہے۔ اس تحقیق پر مقدا ر مسافت مکہ سے شروع ہوکر
عرش اعظم پر ختم ہو تی ہے۔اس کی تائید میں آگے کے یہ ا لفاظ پیش کیے جا تے
ہیں ”الذی بارکناحولہ“وہ مسجد اقصٰی جس کے گرد اگر دہم نے برکت دے رکھی
ہے۔کہتے ہیں کہ مسجد’ ’بیت المقدس“ کی برکت و عظمت پر ایما ن ہے ،لیکن اس
کے گرد وپیش کے بر کا ت منصو ص نہیں ہیں اور عرش اعظم کے مقر بین ملائک کی
جبہ سائی ،انوار و بر کات کی کثرت شریعت نے ظا ہر فرما دی ہے۔ لہٰذا اس مقا
م پر مسجد اقصٰی عر ش اعظم کا مترادف ہے ۔
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مسجد اقصٰی سے اس مقا م پریقیناعرش اعظم ہی مراد
ہے اور نہ ہی محققین کا ارشادمحض بے بنیاد ہے، لیکن اتنے حصہ پر اجماع ہے
کہ مسجد حرام سے بیت المقدس تک کا سفر منطوق ہے اور سفر کے اتنے حصے سے
انکار کرنا صر یحا ً بے دینی ہے ۔بقیہ سفر کو بھی قرآن کریم نے دوسری جگہ
ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:”دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَا بَ قَوسَینِ
اَو اَدنٰی“(قریب ہوئے تونزدیک پہنچے،پس دوکما نوں کی مقدار تھی،بلکہ اس سے
زیادہ قریب ہوئے ۔)جمہور ائمہ اسلام نے (جن کے خلا ف کہنا سخت جہالت اورخر
ق اجتما ع ہے۔ )
اس آیہ کریمہ سے حضور سید عالم ﷺکا آسمانی سفر مراد لیا ہے ۔ چنانچہ اسی
سلسلہ کلام میں اس عبد مقدسﷺکا تذکرہ (جس کے سفر معراج کی تصویر کشی قر
آنی، تم ابھی پڑھ چکے ہو ) یو ں فر ما یا ہے :”فَاَ و حٰی اِلٰی عَبدِہ مَا
اَوحٰی“پس دکھا یا اپنے بندے کوجو کچھ سکھا یا۔ اللہ اللہ کیا وجد میں لانے
والا ارشاد ہے، یعنی قادرمطلق کے اختیا رو قدرت اور حضور اقدس ﷺ کی استعد
اد و قا بلیت کا تصور کرو اور خود سمجھ لو کہ ما لک نے کتنے علوم دیے ہو ں
گے اور محبوب نے کس قدرزیور علم سے اپنے آپ کو آراستہ کیا ہو گا ۔حضور ﷺکے
وفور علم کے منکرین یا توقادر کی قدرت پر ایمان نہیں رکھتے یا سرکار ﷺ میں
قابلیت واستعداد کی نسبت کو کمزور جانتے ہیں۔با ت دور جا پڑی، کہنا صرف
اسقدر تھا کہ ایک طرف لفظ ”عبد“کو دونو ںآیتو ں میں یا درکھو ،دوسری طرف
احا دیث شہیرہ و صحاحِ مروجہ پیش نظر رکھو توآسمانی معراج کے منکرین پر
ضلالت کا فتویٰ ائمہ اسلام کی حق پسندی پر مبنی ہے۔
کسی سفر نامہ کی تکمیل جب تک غایت سفر بیان نہ کر دی جائے ناقص ہے۔قرآن
کریم نے انہی دو سطروں میں اس کو بھی واضح کر دیا ہے اور فرمایا ہے:”لِنُرِ
یَہ مِن اٰیَا تِنَا“ تاکہ دکھا ئیں ہم اس بندہ کو اپنی نشانیاں ۔عربی
قاعدہ کی رو سے آیات جمع ہے اور ضمیر متکلم کی جانب مضا ف ہے اور اصول میں
مبرہن ہو چکا ہے کہ ایسی سورت میں استغراق کے معنی پیدا ہو تے ہیں۔ اور لفظ
”من‘ ‘ کا یہاں بمعنی بعض ہونا غیر معقول ہے ۔ اس بناپر آیہ کریمہ کا
منشایہ ہوا کہ سفر معراج تمام قدرتی نشانیوں کے مشاہدہ کے لیے ہواتھا ۔
گزشتہ اور اق کے اس مضمون کویاد کرو کہ جنا ب اقدسﷺ کے علوم میں جہاں اس
بلند و با لا سرکار ﷺ کی کامل و اکمل قابلیت کو دخل ہے، وہا ں قدر ت قادر
مطلق کا مل واکمل کا ظہور ہے اور جس طرح قدرت کے لیے تعلیمی نقصان عیب ہے
جبکہ تعلیم کا ارادہ ہو، اسی طرح طریقہ تعلیم کی کمزوری بھی نازیباہے لہٰذا
وحی سے زیادہ قوی طریقہ اختیا ر کیا گیا اور مَاکَانَ وَ مَایَکُون کا مشا
ہدہ کرادیا گیا جواعلیٰ ترین طریقہ تعلیم ہے اور اسی مشاہدہ و معائنہ کے
لیے وہ اہتما م کیا گیا ،جس کو لکھنامضمون کو دہرانا ہے۔
ختم مضمون پر ارشاد ہوتا ہے:اِنَّہ ھُوَا لسَّمِیعُ البَصِیر (بے شک وہ
سننے والا، دیکھنے والاہے ) اس ارشاد کا انداز بھی عجیب و غریب ہے ”انہ“
میںضمیرہے ، جس کا مر جع یا تو لفظ ”عبد ‘ ‘ہے یا لفظ ” سبحان“ہے اور ہر
اعتبار سے معنی جدا گانہ ہیں اور صحیح محمل پر ہیں اور ایسی حالت میں ”اصو
لیین “کے نزدیک دونوں معنی معتبر و منصو ص ہوتے ہیں ،اگر مر جع لفظ ”عبد“ہے
اور اس شق کو ترجیح قرب کے سلسلے سے حاصل ہے تو آ یت کا ترجمہ ہوگا:”بے شک
وہ بندہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے“ اس خاتمہ بیان میں مدعیا ن معراج
روحانی کی مزید خبر گیر ی ہے کہ یہ سفر مجموعہ روح وجسم کا ہوا ،تو سکنہ
وغفلت کا بھی اس میں شائبہ نہ تھا ، بلکہ مسا فر نواز، معراج والا آقا آواز
کو سنتا اور ہرنظارے کو دیکھتا جاتاتھا ۔اور اگر مرجع ضمیر ”سبحان “ ہے تو
معنی یہ ہوئے کہ :”بے شک اللہ تعا لیٰ سننے والا ،دیکھنے والاہے “ اور اس
کو تمام انداز قرآنی سے ترجیح ہے۔
جن لو گوں کو تلاوت قرآن کریم کا فہم معنی کے سا تھ شرف حا صل ہے ، ان کو
اس فقرہ میں اگر مضامین سابقہ کے اعتبار سے اجنبیت معلوم ہو تومقام تعجب
نہیں ہے ۔ قر آن کا طریقہ بیان ہے کہ جس مقام پر جس واقعہ و احکام وغیر ہا
کو بیان کیا ہے اور اس مو قع پر حضرت حق (جل وعلا)کی جس صفت کمال کا تعلق
ہے ،اسی صفت سے اللہ تعالیٰ کی صفت کی جاتی ہے۔
اس انداز کلام کا تقا ضہ تھا کہ واقعہ معراج کے بعد قدرت مطلقہ کا بیان
ہوتا اور فرمایا جا تا : وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرلیکن اس صفت کو
ترک فر ما کر صفت سمع و بصر کو بیان کرنا، جس کو واقعہ معراج سے بظا ہر
کوئی تعلق نہیں،ظا ہر بین نگاہوں میں بالکل اجنبی ہے ۔ فرمان کے اس ٹکڑ ے
کا ذوق حا صل کر نے میں آپ کو جا نبا ز ان عشق کے آستا نہ پر حا ضری کی
تکلیف دوں گااو رسر مستا ن بادئہ وحدت کی نیا ز مندی کی طرف دعو ت دو ں گا
۔ ہا ں ہاں!کیا آپ کا دل محبت سے خا لی ہے ؟کیا آپ نے مجازی محبت کا مزا
بھی نہیں چکھا ۔ محروموں سے بحث نہیں، ورنہ باپ اور بیٹے ،ما ں اور فر زند
کی محبت کا تما شا کون ہے ،جورات دن نہیں دیکھتا ؟ اگر تم کو کبھی اس منظر
کا لطف حاصل ہوا ہے کہ پیار افرزندیا کوئی محبوب سفر کر رہا ہے اورچا ہنے
والے آنے والے فرا ق کے زما نے اور ستانے والی جدائی کی گھڑ یا ں یا د کرکے
آ بدیدہ ہو کر کہہ پڑتے ہیں کہ: اے مسافر!جا بخیر یت ، جااللہ تیرا محا فظ
و نگہبان ہے ، تجھے خدا کو سو نپا ،جو تیر ی با ت کا سننے اور دیکھنے والا
ہے ۔ توآپ کو اس جملہ کا صحیح مطلب کھل جا ئے گا کہ سفر معراج درپیش ہے
،رات کا وقت ہے ، اعزاءو ا قر با ءموجو د نہیں ہیں ،ا حبا ب سور ہے ہیں
،کون الوداعی ایڈریس پڑھے؟ کون رخصتی کے کلمات پڑھے؟کون خداحافظ و نگہبان
کہے ؟اس وقت کا سفر بھی طویل ہے ،راستہ دیکھا نہیں ہے، منز لیں نامعلوم
ہیں،مسا فت کا پتہ نہیں،ہمرا ہی غیر جنس ہیں ،ما ں باپ ہو تے تو فال نیک
کلمات بولتے ،اعزاءو اقرباءہو تے تو با طمینا ن رخصت کرتے ، احبا ب ہو تے
تو رفا قت ہی کرتے ۔ ایسے وقت ازلی محبت کے دریا میں جوش پیداہو تاہے اور
اس کی ایک ایک لہر پکا رپکارکر کہہ رہی ہے : اے مسا فر زمین و آسمان مبا رک
ہو اِنَّہ ھُوَا لسَّمِیعُ البَصِیر۔گھبرا ﺅ نہیں ۔تمہا را چا ہنے والاوہی
اللہ تمہارانگہبان ومحافظ ہے ۔ تمہاری ہر بات کا سننے والا اور ہر کام کو
دیکھنے والا ہے ۔یہ کار خانہ محبت کا جلوہ ہے کہ خودبلا تے ہیں ، اپنے ساتھ
لے جا تے ہیں ،اپنے پاس لے جا تے ہیں ،خودرخصت کرتے ہیں اورخود ہی میزبان
بھی ہیں۔ یعنی آسما نی سفر میں ہر آسمان پر جشنِ استقبا ل ،درجات جنت و
طبقا ت دوزخ کا معا ئنہ،جبرائیل علیہ السلام کی رفاقت کا قطع ہونا ، رحمت و
جلال کا ابھار، ہیبت و جلا ل کا رعب ، قرب خاص،شفا عت امت کامل ، وصال ،راز
و نیا ز، عطا ئے خلعت ، فرضیت نما ز وغیرہ ہر عنوان مبسوط تحر یر کامتقاضی
ہے۔ |