اسلام کی خاتونِ اوّل ،اُمّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ(حالات، فضائل اور مناقب)

اس کائنات کی بہت سی چیزوں کو دوسری چیزوں پر فوقیت حاصل ہے‘ مثلاً جمعہ کے دن کو باقی دنوں پر‘ماہ رمضان کو باقی گیارہ مہینوں پر اور لیلۃ القدر کو رمضان کی باقی راتوں پر۔ اسی طرح اس کائنات میں بہت سے انسان ایسے ہیں جن کو تمام بنی نوعِ انسان پر مختلف خصوصیات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے‘ مثلاً انبیائے کو غیر انبیا پر اور پھر انبیائے کرام میں سے بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو باقی سب پر فوقیت حاصل ہے۔اسی طرح وہ عورتیں جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں رہیں (چاہے قلیل مدت یا زیادہ مدت‘ جنہیں ازواج مطہرات اور اُمہات المومنین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے) ان کو بھی بنی نوعِ انسان کے طبقہ نسواں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ ان ازواج مطہرات میں سے بھی اوّلیت اور فضیلت حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہے، جو نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ اور اس اُمت کی پہلی ’’ماں‘‘ تھیں۔زیرنظر مضمون میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی مختصر سوانح حیات‘ خصوصی فضائل اور خدماتِ اسلام کوبیان کیا جائے گا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی فضیلت دنیا کی تمام عورتوں پر واضح ہوجائے اور اُمت ِمسلمہ کی تمام عورتیں انہیں اپنا آئیڈیل بناکر ان کی طرز زندگی کو اپنائیں، تاکہ ان کو گھریلو زندگی میں سکون اور آخرت میں آرام میسر آئے۔

حسب و نسب اور ماضی کی ایک جھلک
آپ رضی اﷲ عنہا کا نام خدیجہ‘ لقب طاہرہ اور کنیت اُم ہند تھی۔ آپ رضی اﷲ عنہا قبیلہ قریش کی ایک معزز شاخ بنی اسد سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ رضی اﷲ عنہا کے والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ کا نام فاطمہ بنت زاہدہ تھا۔ آپ رضی اﷲ عنہا کے والد عرب کے مشہور تاجر تھے اور ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ آپ رضی اﷲ عنہا شرافت‘ امانت‘ ایفائے عہد‘ سخاوت‘ غریب پروری‘ فراخ دلی اور عفت و حیا جیسی اعلیٰ صفات اور خوبیوں کے ساتھ واقعہ فیل سے ۵۱ سال پہلے بمطابق ۵۵۵ عیسوی اس دنیا میں تشریف لائیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوبیاں آپ رضی اﷲ عنہا کی طبیعت کا لازمی جز بن گئیں اور پورے عرب میں آپ رضی اﷲ عنہا کی اعلیٰ خوبیوں کا چرچا ہونے لگا۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی پہلی شادی ابو ہالہ تمیمی کے ساتھ ہوئی اور ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے: ہالہ اور ہند۔ ان کے انتقال کے بعد آپ رضی اﷲ عنہا کی دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی اور ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام بھی ہند تھا۔کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا تو آپ رضی اﷲ عنہا نے شادی کا خیال دل سے نکال کراپنے والد کی وفات کے بعد ان کی تجارت کو سنبھالنا شروع کردیا۔

کاروبار میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شرکت
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا اپنا سامان تجارت مقررہ اُجرت پر دیا کرتی تھیں اور اُنہیں اس مقصد کے لیے امانت دار اور شریف النفس شخص کی تلاش تھی۔ یہ وہ دور تھا جب حضرت محمدبن عبداﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت اور دیانت کا پورے عرب میں چرچا تھا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پورے عرب میں ’’امین اور صادق‘‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پیغام پہنچایا کہ آپ میرا سامانِ تجارت شام لے جائیں تو میں آپ کو دوگنا اجر دوں گی۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو قبول فرمایا اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا سامانِ تجارت شام لے کرگئے۔شام کے اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا غلام میسرہ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ راستے میں راہب والا واقعہ پیش آیا کہ جس نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی فرمایا: ’’بلاشبہ یہ نبی ہیں اور آخری نبی‘‘۔ پھر حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے غلام میسرہ نے خود بھی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے چند خرق عادت واقعات دیکھے‘ مثلاً اس نے دیکھا کہ دھوپ میں دو فرشتے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔سفر سے واپسی پر میسرہ نے سفر کی ساری روداد حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے گوش گزار کی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اور امانت کا بھی ذکر کیا۔ اس سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے دل میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے شادی کی خواہش پیدا ہوگئی۔

حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام
قریش کا جو شخص بھی نکاح کے قابل تھا وہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے شادی کا خواہش مند تھا‘ لیکن آپ رضی اﷲ عنہا نے رحمۃٌ للعالمین محمد بن عبداﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے شادی کی خواہش ظاہر کی اور اپنی سہیلی نفیسہ بنت اُمیہ کو شادی کا پیغام دے کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ وہاں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور نفیسہ کے درمیان کیا گفتگو ہوئی‘خود نفیسہ کی زبانی سنیے:نفیسہ: آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟محمد صلی اﷲ علیہ وسلم: میں نادار اور خالی ہاتھ ہوں، کس طرح نکاح کرسکتا ہوں؟نفیسہ: اگر کوئی ایسی عورت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نکاح کی خواہش مند ہو جو ظاہری حسن و جمال اور طبعی شرافت کے علاوہ دولت مند بھی ہو اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ضروریات کی کفالت کرنے پر بھی خوش دلی سے آمادہ ہو‘ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے نکاح کرلینا پسند کریں گے؟محمد صلی اﷲ علیہ وسلم: ایسی عورت کون ہوسکتی ہے؟نفیسہ: خدیجہ بنت خویلد۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا ذکر اپنے چچا ابوطالب سے کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا اس پر خوش ہوئے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر خدیجہ اس کے لیے آمادہ ہیں تو میں راضی ہوں۔۔۔۔بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے شادی کی بات کی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کی اِس پیشکش کو قبول فرمایا۔

نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے نکاح کی تقریب
نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ کبرٰی رضی اﷲ عنہا کے نکاح کی تقریب حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں منعقد ہوئی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے چچا اور چند دوسرے رشتہ داروں‘ مثلاً حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے ہمراہ وقت ِمقررہ پر ان کے گھر گئے اور وہاں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے رشتہ دار موجود تھے، جن میں عمرو بن اسد اورورقہ بن نوفل قابل ِذکر ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے عرب کے رواج کے مطابق نکاح کا خطبہ پڑھا اور بعض تاریخی روایات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی طرف سے ورقہ بن نوفل نے جوابی کلمات کہے … عرب کے رواج کے مطابق نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو پانچ سو طلائی درہم بطور حق مہر ادا کیے۔ شادی کے وقت نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی 40 سال تھی۔

حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت گزاری اور وفا شعاری
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اُن کے ساتھ اُن کے گھر پر ہی رہنے لگے۔ آپ رضی اﷲ عنہا ایک خدمت گزار اور وفا شعار بیوی ثابت ہوئیں۔آپ رضی اﷲ عنہا نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری ضرورتوں اور آرام کا خاص خیال رکھا اور آپ رضی اﷲ عنہا نے اپنا سارا مال و دولت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا جب تک زندہ رہیں آپ رضی اﷲ عنہا نے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناپسند ہو یا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف ہو … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب غار حرا میں غور و فکر کے لیے جاتے تو آپ رضی اﷲ عنہا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے کھانا لے کر جاتیں، حالاں کہ غار حرا مکہ کی آبادی سے دو تین میل کے فاصلے پر ہے اور اس کی چڑھائی بھی کافی مشکل ہے‘ لیکن آپ رضی اﷲ عنہا نے یہ سب کام بہ خوشی کیے۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا ایک غلام زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ تھا، جن سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خصوصی لگاو? اور محبت تھی تو آپ رضی اﷲ عنہا نے زید کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہدیہ کردیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید رضی اﷲ عنہ کو خانہ کعبہ میں لے جاکر عرب کے رواج کے مطابق اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا۔ اس کے بعد اہل عرب زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کو ’’زید بن محمد ﷺ‘‘ کہنے لگ گئے۔(نوٹ:جب سورۃ الاحزاب کی آیت5:اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَائِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ’’(اے ایمان والو!) تم لے پالکوں کو اُن کے باپ کے نام سے پکارو‘ یہ اﷲ کے نزدیک زیادہ صحیح ہے‘‘ نازل ہوئی تو حضرت زید رضی اﷲ عنہ کو دوبارہ سے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔)سیماب اکبر آباد ی نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا حسین بھی تھیں‘ دولت مند بھی تھیں‘شریف النسل بھی تھیں‘ شریف الخیال بھی تھیں اور سب سے زیادہ جو فضیلت ان میں تھی وہ یہ ہے کہ اپنے شوہر کی بے حد اطاعت گزار تھیں۔‘‘

اولاد کی اعلیٰ پرورش اور تربیت
آپ رضی اﷲ عنہا کے بطن سے حضرت قاسم‘ حضرت زینب‘ حضرت رقیہ‘ حضرت اُمّ کلثوم‘حضرت فاطمہ اور حضرت عبداﷲ (رضی اﷲ عنھم اجمعین) پیدا ہوئے۔ دونوں صاحب زادے بچپن میں ہی انتقال کرگئے مگر بیٹیاں حیات رہیں، جب کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی واحد اولاد ہیں، جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں۔دوسری طرف حضرت علی رضی اﷲ عنہ، جو اس وقت بچے تھے‘ کو بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے اپنی کفالت میں لے لیا۔ اب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ، حضرت زید رضی اﷲ عنہ اور پھر حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پہلے خاوندسے دو بیٹے آپ رضی اﷲ عنہا کی پرورش میں پلنے لگے۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے ان کی بہت خوب پرورش کی، جس کا ثبوت ملاحظہ کریں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ ’’علم کا باب‘‘ کہلوائے اور فصاحت و بلاغت کے ماہر بنے۔اسی طرح حضرت ہند رضی اﷲ عنہا بھی فصاحت و بلاغت کے ماہر بنیں۔ شمائل ترمذی کی اکثر روایات حضرت ہند رضی اﷲ عنہا سے مروی ہیں اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جو تعریف حضرت ہند رضی اﷲ عنہا نے کی ہے وہ فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ شاہ کار ہے۔ پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹیاں شرم و حیا کا پیکر اور صبر و استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ یہ سب حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی پرورش اور تربیت کا نتیجہ ہیں۔

وفات:
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نبوت کے دسویں سال اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُن کی جدائی کاحد درجہ افسوس اور دکھ تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سال کو ’’غم کا سال‘‘ قرار دیا، اس لیے کہ اس سال آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو قابل قدر ہستیاں اس دنیا سے کوچ کرگئیں: ایک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سرپرست چچا ابوطالب اور دوسری آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت گزار اور وفا شعار بیوی حضرت خدیجہ کبرٰی رضی اﷲ عنہا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے انہیں لحد میں اتارا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ اُس وقت نمازہ جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لیے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی گئی۔

فضائل اور خدماتِ دین ِاسلام
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے فضائل اور خدماتِ دین ِ اسلام بے شمار ہیں، حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے فضائل و کمالات کے تو مستشرق بھی قائل ہیں۔ جرمن مؤرخ اسپرنگر نے تو حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’اگر حضرت خدیجہ نہ ہوتیں تو آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پیغمبر ہی نہ ہوتے‘‘۔ ذیل میں ان کے فضائل اور خدماتِ دین میں سے چند ایک کو بیان کیا جاتا ہے:
دورِ جاہلیت میں بت پرستی سے بے زاری
دورِ جاہلیت کا عرب معاشرہ بت پرستی میں مبتلا تھا اور انہیں ان بتوں سے اتنا لگاؤ تھا کہ ان کے خلاف ایک بات بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔اس اندھیرے دور میں بھی روشنی کی چند گنی چنی شمعیں موجود تھیں، جو فطری طور پر اس بت پرستی سے نفرت کرتی تھیں۔مردوں میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت ابوبکر و عثمان رضی اﷲ عنہما قابل ِذکر ہیں‘ جب کہ عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا تھیں، جنہیں بت پرستی سے فطری نفرت تھی۔تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس دور کی واحد خاتون تھیں جو شرک اور بت پرستی سے بے زار تھیں۔آپ رضی اﷲ عنہا کی اسی پاکی کی بنا پر دورِ جاہلیت میں ہی آپ رضی اﷲ عنہا ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔ اس حوالے سے مسند احمد میں ایک روایت نقل کی گئی ہے۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے ایک پڑوسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:((اَیْ خَدِیْجَۃُ، وَاللّٰہِ لَا اَعْبُدُ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی، وَاللّٰہِ، لَا اَعْبُدُ اَبَدًا)) قَالَ: فَتَقُوْلُ خَدِیْجَۃُ خَلِّ اللَّاتَ: خَلِّ الْعُزّٰی، قَالَ: کَانَتْ صَنَمَھُمُ الَّتِیْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ، ثُمَّ یَضْطَجِعُوْنَ·’’اے خدیجہ! بخدا میں لات اور عزیٰ کی عبادت کبھی نہیں کروں گا‘ خدا کی قسم! میں ان کی عبادت کبھی نہیں کروں گا‘‘۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے جواب میں کہا: آپ لات کو چھوڑیے‘آپ عزیٰ کو چھوڑیے (یعنی ان کا ذکر بھی نہ کیجیے)۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ اُن کے بتوں کے نام تھے، جن کی مشرکین عبادت کرکے اپنے بستروں پر لیٹتے تھے۔

اسلام کی خاتونِ اول اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ اول
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا عورتوں، بلکہ سب سے پہلے ایمان لانے والی اور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں‘ دوسرے الفاظ میں آپ رضی اﷲ عنہا اسلام کی بھی خاتونِ اوّل تھیں اور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھی۔ شادی کے بعدحضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال رہیں‘ اُن کی زندگی میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی عورت سے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:’’لَمْ یَتَزَوَّج النَّبِیُ صلی اﷲ علیہ وسلم عَلٰی خَدِیْجَۃَ حَتّٰی مَاتَتْ ·‘‘’’نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی، یہاں تک کہ آپ رضی اﷲ عنہا فوت ہوگئیں۔‘‘

نبوت کے وقت دلاسہ دینے والی
ایک طرف تو آپ رضی اﷲ عنہا نے شادی کے بعد آپ کی ہر طرح سے خدمت کی اوراپنا سارا مال و دولت بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے وقف کردیا۔دوسری طرف جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غار حراء میں نبوت ملی تو آپ ﷺ نے گھر آکر سارا واقعہ آپ رضی اﷲ عنہا کے گوش گزار کیا‘ اُس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو (بربنائے بشریت) دلاسے کی جو ضرورت تھی اُسے ہماری ماں حضرت خدیجہ کبرٰی رضی اﷲ عنہا نے پورا کیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اوصاف ایسے فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا:کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا، اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ·’’خدا کی قسم! اﷲ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم توصلہ رحمی کرتے ہیں‘ ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘پھر حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں، جس نے سارا واقعہ سن کر کہا: یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے وقت دلاسہ دینا اور پھر آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے کرجانا ایسی خصوصیات ہیں کہ جن تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔

اُمت مسلمہ کی ’’صدیقۃالکبریٰ‘‘ ہونے کا شرف
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جب غارِ حرا سے واپس آئے اور سارا ماجرا حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو سنایا اور ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نبی ہونے کو بیان کیا تو آپ رضی اﷲ عنہا نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائیں اور سب سے پہلے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے والی بھی حضرت خدیجہ کبرٰی رضی اﷲ عنہا ہیں۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جب بھی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا تذکرہ کرتے تو ان کی خوب تعریف کرتے تھے۔ ایک دن مجھے غیرت آئی اور میں نے کہا کہ آپ کیا اتنی کثرت کے ساتھ ایک سرخ مسوڑھوں والی عورت کا ذکر کرتے رہتے ہیں‘ حالاں کہ ان کے بدلے میں اﷲ نے آپ کو اس سے بہترین بیویاں عطا کردی ہیں؟ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَا أَبْدَلَنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ خَیْرًا مِنْھَا، قَدْ آمَنَتْ بِیْ اِذْ کَفَرَ بِیَ النَّاسُ، وَصَدَّقَتْنِیْ اِذْ کَذَّبَنیَ النَّاسُ وَوَاسْتَنِیْ بِمَالِھَا اِذْ حَرَمَنِی النَّاسُ، وَرَزَقَنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَھَا اِذْ حَرَمَنِی اَوْلَادَ النِّسَاءِ))·’’اﷲ نے مجھے اُس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی۔ وہ مجھ پر اُس وقت ایمان لائیں جب لوگ میراا نکار کررہے تھے اور میری اُس وقت تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے اور اپنے مال سے میری ہم دردی اُس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے دور رکھا اور اﷲ نے مجھے اُس سے اولاد عطا فرمائی جب کہ میری دوسری بیویوں سے میرے ہاں اولاد نہ ہوئی۔‘‘حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی اِسی تصدیق کی وجہ سے انہیں امت کی ’’صدیقہ کبریٰ‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مَردوں میں ’’صدیق اکبر‘‘ کا اعزاز حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اور عورتوں میں ’’صدیقہ کبرٰی‘‘ ہونے کا اعزاز حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا، اسی لیے ان کے نام کے ساتھ ’’کبریٰ‘‘ لکھا جاتا ہے۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آپ رضی اﷲ عنہا سے بے پناہ محبت
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ سے اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں دوسری شادی کا سوچا تک نہیں اور پورے پچیس سال آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزاری۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اورحضرت خدیجہ کی محبت کا اندازہ ذیل میں بیان کردہ حدیث سے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:’’مَا غِرْتُ عَلٰی اَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِیِّ صلی اﷲ علیہ وسلم مَا غِرْتُ عَلٰی خَدِیْجَۃَ وَمَا رَأَیْتُہَا· وَلٰکِنْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم یُکْثِرُ ذِکْرَہَا‘ وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاۃَ ثُمَّ یُقَطِّعُہَا أَعْضَاءً‘ ثُمَّ یَبْعَثُہَا فِیْ صَدَائِقِ خَدِیْجَۃَ، فَرُبَّمَا قُلْتُ لَہ: کَاَنَّہُ لَمْ یَکُنْ فِی الدُّنْیَا اِمْرَأَۃٌ اِلَّا خَدِیْجَۃُ! فَیَقُوْلُ: ((اِنَّھَا کَانَتْ وَکَانَتْ، وَکَانَ لِیْ مِنْھَا وَلَدٌ)) ·’’مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا کہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا پر آیا، حالاں کہ میں نے ان کو دیکھا تک نہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو کثرت سے یاد کرتے تھے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ جب بکری ذبح فرماتے‘ پھر اس کے حصے الگ الگ کرتے تو انہیں خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی سہیلیوں کے ہاں بھیجتے۔ (حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ) کبھی کبھی میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہہ دیتی کہ کیا اس دنیا میں صرف خدیجہ ہی ایک عورت ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے:’’وہ ایسی تھیں‘ ایسی تھیں (یعنی ان کی خدمات او ر اوصاف کا ذکر کرتے) اور (یہ بھی فرماتے کہ) ان سے میری اولاد ہوئی۔‘‘جس عورت پر اس کی سوکن (اور سوکن بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا جیسی) کو رشک آئے تو آپ اور میں اس پاکیزہ خاتون کی فضیلت کا کیا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ مسلم کی ایک روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی یہ باتیں سن کر فرمایا:((اِنِّیْ قَدْ رُزِقْتُ حُبَّھَا))’’مجھے ان کی محبت (ربّ العالمین کی طرف سے) عطا کی گئی ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان: ان سے میری اولاد ہوئی!

ماقبل بیان کردہ حدیث میں ان کی ایک بے مثل خوبی کا بھی تذکرہ آیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد صرف انہی کے بطن سے ہوئی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسل بھی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی اولاد سے ہی آگے بڑھی‘ جب کہ باقی ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔حضرت ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا، جن کا نام ابراہیم (رضی اﷲ عنہ) رکھا گیا اور وہ بچپن میں ہی وفات پاگئے۔ یہاں یہ بات نوٹ کرلیں کہ حضرت ماریہ رضی اﷲ عنہا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی منکوحہ نہیں‘ مملوکہ تھیں، جن کو اسکندریہ کے حکمران نے باقی ہدایا کے ساتھ بطور ہدیہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔

تکالیف اور مشکلات میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دل جوئی
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی اسلام کے بارے میں بہت خدمات ہیں،جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور طرح طرح کے مظالم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ڈھائے گئے۔ ایسے مواقع پر حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی تسلی اور حوصلہ مرہم کا کام دیتا تھا۔ا س کے علاوہ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مشرکین کی تردید اور تکذیب سے جو صدمہ پہنچتا وہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آکر دور ہوجاتا، کیوں کہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلی دیتیں‘ حوصلہ افزائی کرتیں اور مشرکین عرب کی بدسلوکیوں کو ہلکا کرکے پیش کرتی تھیں۔اس حوالے سے اُن کا یہ قول تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔وہ فرماتیں: ’’یا رسول اﷲ ﷺ! آپ رنجیدہ? خاطر نہ ہوں‘ بھلا کوئی ایسا رسول آج تک آیا ہے جس سے لوگوں نے تمسخر نہ کیا ہو۔‘‘

شعب ابی طالب کے صبر آزما دنوں میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساتھی
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہر مشکل سے مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ جب عرب نے دیکھا کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین ِاسلام عرب میں پھیلتا جارہا ہے تو انہیں اس پر کافی تشویش ہوئی اور انہوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ قبیلہ بنو ہاشم کا ہر طرح سے بائیکاٹ کیا جائے اور انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ محمد کا ساتھ چھوڑ دیں۔ لیکن بنوہاشم نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا اور ابوطالب کے کہنے پر بنوہاشم اور بنو طالب کے سب لوگ (سوائے ابولہب کے) شعب ابی طالب میں چلے گئے، تاکہ وہاں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کرسکیں۔ یہ دن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کا ساتھ دینے والوں کے لیے بہت سخت تھے۔ ان حالات میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے نبی کریم اکا ساتھ ڈٹ کر دیا اور ہر مشکل سے مشکل موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حوصلہ بڑھایا۔عرب میں ’’سیدہ‘‘ کے لقب سے مشہور اسلام کی خاتون اول کو ان دنوں میں پتے اور درختوں کی چھال کھانی پڑی تو آپ رضی اﷲ عنہا نے ان حالات کو بھی انتہائی صبر سے برداشت کیا۔اس موقع پر گر آپ رضی اﷲ عنہا چاہتیں تو اس محاصرہ سے الگ ہو سکتی تھیں، اس لیے کہ آپ رضی اﷲ عنہا کا تعلق تو بنی اسد سے تھا اور عرب کے تمام لوگ آپ رضی اﷲ عنہا کی بہت عزت کرتے تھے، لیکن حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسندکیا۔شعب ابی طالب میں مسلمانوں کا محاصرہ تقریباً 3 سال رہا۔ اس دوران حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے چند قریبی رشتہ دار بالخصوص حکیم بن حزام رضی اﷲ عنہ (جو ابھی اسلام کی دولت سے مالا مال نہیں ہوئے تھے) موقع دیکھ کر کھانے پینے کا سامان دے جاتے تھے۔

’’مبلغہ اسلام‘‘ کے خطاب کی حق دار
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والی شخصیت حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔ ایمان لانے کے بعد اسلا م کی خاتونِ اول نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ بھی سر انجام دیا اور نبوت کے پہلے تین سالوں میں 133 لوگ مشرف بااسلام ہوئے جن میں 27 خواتین (حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی زوجہ اسماء رضی اﷲ عنہا‘حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی بہن فاطمہ رضی اﷲ عنہا‘ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا وغیرہ) بھی شامل تھیں، جو حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی تبلیغ پر مشرف بااسلام ہوئیں (یہی وہ لوگ ہیں جن کو قرآن نے ’’السابقون الاولون‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا ہے)۔ اِن خدمات کی وجہ سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا بجا طور پر ’’مبلغہ اسلام‘‘ کے خطاب کی حق دار ہیں۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی دین اسلام کے بارے میں خدمات کی بنا پر نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن رضی اﷲ عنہا کو تمام عورتوں کے لیے قابل اتباع قرار دیا۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:((حَسْبُکَ مِنَ نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ: مَرْیَمُ ابْنَۃُ عِمْرَانَ وَخَدِیْجَۃُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ، وَ فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ))’’تمہارے (اتباع و اقتداکرنے) کیلیے چار عورتیں ہی کافی ہیں: مریم بنت عمران‘خدیجہ بنت خویلد‘ فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ۔‘‘سیرت ابن ہشام میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی خدماتِ دین ِ اسلام کے حوالے سے لکھا ہے: ’’حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا اسلام کے حوالے سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مشیر تھیں۔‘‘

اُمت محمدیہ کے طبقہ نسواں میں سب سے افضل خاتون
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام کو (سابقہ امتوں کی) اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو (اس امت کی) سب سے افضل خاتون قرار دیا ہے۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:((خَیْرُ نِسَائِھَا مَرْیَمُ ابْنَۃُ عِمْرَانَ، وَخَیْرُ نِسَائِھَا خَدِیْجَۃُ))·’’(سابقہ) امت کی عورتوں میں سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں اور (اس) امت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ ہیں۔‘‘

ربّ العالمین کا سلام اور جنت میں موتیو ں والے گھر کی بشارت
حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اﷲ عنہا نے 25 سال تک محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کی اور ہر طرح سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ اسلام کی تبلیغ میں بھی آپ رضی اﷲ عنہا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی خدمات کی بدولت اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:’أَتٰی جِبْرِیْلُ النَّبِیَّ صلی اﷲ علیہ وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذِہِ خَدِیْجَۃُ قَدْ اَتَتْ مَعَہَا اِنَاءٌ، فِیْہِ اِدَامٌ اَوْطَعَامٌ اَوْشَرَابٌ، فَاِذَا ھِیَ اَتَتْکَ فَاقْرَأْ عَلَیْھَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّہَا عَزَّ وَجَلَّ وَمِنِّیْ، وَبَشِّرْھَا بِبَیْتٍ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ قَصَبٍ، لَا صَخَبَ فِیْہِ وَلَا نصَبَ‘‘·’’جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:اﷲ کے رسول! یہ خدیجہ آرہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے، جس میں سالن‘کھانا یا پانی ہے۔ جب وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کو ان کے بلند مرتبہ پروردگار اور میری طرف سے سلام کہیے اور ان کوجنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت دیجیے، جہاں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ تھکن ہوگی۔‘‘اس روایت میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے دوخصوصی فضائل کا ذکر ہے: اﷲ تعالیٰ اور جبریل علیہ السلام کا ان کو سلام کرنا۔ ان کو جنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت ملنا۔(رضی اﷲ عنہا وأرضاھا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Qazi Muhammad Ibrahim
About the Author: Qazi Muhammad Ibrahim Read More Articles by Qazi Muhammad Ibrahim: 5 Articles with 6203 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.