قُرآن و صدقِ ابراہیم اور روایاتِ بائبل و بخاری !! { 1 }

🌹🌹 علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹https://chat.whatsapp.com/K1y9OCjZ6U5G3DkkGGjqJz
🌹🌹

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 41 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !
و
اذکر فی
الکتٰب ابراھیم
انہ کان صدیقا
نبیا 41
اے ھمارے کریم النفس ھادی ، ھمارے یقیں پرور عبد اور ھمارے صادق الوعد رسُول ! ذکرِ زکریا و یحیٰ اور ذکرِ مَریم و مسیح کے بعد اَب اِس کتاب میں ابراہیم کا ذکر بھی کردے جو ھمارا سَچا نبی تھا !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
قُرآنِ کریم نے اپنے اَوراق میں درج ہونے والے اپنے جس کلام کو کلامِ صدق کہا ھے اُس کلامِ صدق میں اللہ تعالٰی کے عظیم المرتبت نبی ابراہیم علیہ السلام کو صدیق نبی کہا ھے ، ابراہیم صدیق کے بیٹے اسماعیل کو صادق نبی کہا ھے اور اِن دونوں صادق و صدیق اَنبیاۓ کرام کی صداقت مآب ذُریت میں پیدا ہونے والے اپنے آخری نبی سیدنا محمد علیہ السلام کو اللہ تعالٰی کے نبی مُصدق و رسُولِ مُصدق کے طور پر مُتعارف کرایا ھے ، قُرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی نے اپنے اِس صدیق نبی ابراہیم علیہ السلام کا جن 69 مقامات پر ذکر کیا ھے اُن 69 مقامات میں سے اٰیتِ بالا کا یہ مقامِ بالا تنتالیسواں مقام ھے جس میں اللہ تعالٰی نے اپنے رُسول کو حُکم دیا ھے کہ آپ اِس کتاب میں ھمارے نبی ابراہیم کا بھی ایک سَچے نبی کے طور پر ذکر کریں لیکن اللہ تعالٰی نے اپنے آخری رسُول پر نازل ہونے والی اپنی اِس آخری کتاب میں مُتذکرہ بالا اَنبیاۓ علیھم السلام کی ہستیوں کو جتنا بلند تر دکھایا ھے وہ قُرآنِ کریم کی اُن اٰیات سے ظاہر ھے جو قُرآنِ کریم کے مُتعدد مقامات پر موجُود ہیں لیکن مجُوسی اہلِ روایت نے اپنی قُرآن دُشمنی کی بنا پر اپنی روایات میں اِن اَنبیاۓ کرام علیھم السلام کی اِن عظیم المرتبت ہستیوں کو کتنا کم حیثت بلکہ بے حیثیت بنا کر دکھایا ھے اُس کا کُچھ کُچھ اندازہ امام بخاری کی کتابِ بُخاری میں درج ہونے والی اُس طویل حدیث سے لگایا جا سکتا ھے جو مکتبہ دارالسلام ، الریاض کی شائع کردہ بخاری کی کتاب البیوع میں درج ھے جس کا انٹر نیشنل نمبر 2217 ھے اور وہ درجِ ذیل ھے : - حدثنا ابو الیمان : اخبرنا شعیب : حدثنا ابو الزناد عن الاعرج ، عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال : قال النبی ﷺ ھاجر ابراھیم علیہ السلام بسارة فدخل بھا قریة فیھا مَلِک من الملوک ، اوجبارا من الجبابرة ، فقیل : دخل ابراھیم بامراة ھی احسن من النساء ، فارسل الیہ : ان یا ابراھیم ، من ھٰذہ الّتی معک ? قال : اختی ، ثم رجع الیھا فقال : لاتکذبی حدیثی ، فانی اخبرتھم انک اُختی ، واللہ ان علی الارض من مؤمن غیری و غیرک ، فارسل بھا الیہ فقام الیھا فقامت توضا وتصلی ، فقالت : اللھم ان کنت آمنت بک وبرسولک واحصنت فرجی الّا علی زوجی فلا تسلّط علی الکافر ، فغط حتٰی رکض برجلہ ، قالا الاعرج قال ابو سلمة ابن عبد الرحمٰن : ان ابا ھریرة قال ، قالت اللّھم ان یمت یقال : ھی قتلتہ ، فارسل ثم قام الیھا فقامت توضا و تصلّی وتقول : اللّم ان کنت آمنت بک و برسولک واحصنت فرجی الّا علٰی زوجی فلا تسلّط علیّ ھٰذا الکافر ، فغط حتٰی رکض برجلہ ، قال عبدالرحمٰن : قال ابو سلمة قال ابو ھریرة : فقالت : اللّھم ان یمت فیقال : ھی قتلتہ ، فارسل فی الثانیہ او فی الثالثة فقال : واللہ ما ارسلتم الیّ الّا شیطانا ، ارجعوھا الٰی ابراھیم علیہ السلام واعطوھا آجر ، فرجعت الٰی ابراھیم علیہ السلام ، فقالت : اشعرت ان اللہ کبت الکافر واخدم ولیدة ، یعنی ھم سے یہ واقعہ ابو یمان نے بیان کیا ھے ، ھم کو شعیب نے بتایا ھے ھم کو ابوالزناد نے اعرج کے حوالے سے بتایا ھے ، اُس نے ابوھریرہ سے یوں نقل کیا ھے کہ نبی اکرم نے بیان کیا کہ ابراھیم نے جب سارہ کے ہمراہ ہجرت کی تو ابراھیم سخت گیر بادشاہوں میں سے ایک سخت گیر بادشاہ کے مُلک میں جا پُہنچے اور جب اس بادشاہ کو یہ خبر دی گئی کہ ابراھیم ایک خوب صورت عورت کے ساتھ اِس ملک میں آۓ ہیں تو بادشاہ کے حُکم پر ابراھیم سے پُوچھا گیا کہ ان کے ساتھ آنے والی عورت کون ھے جس پر ابراھیم نے کہا کہ وہ اُن کی بہن ھے ، یہ جاننے کے بعد باشاہ نے حُکم دیا کہ ابراھیم کے ساتھ آنے والی عورت کو اُس کے سامنے پیش کیا جاۓ ، ابراھیم نے یہ حُکم پانے کے بعد سارہ کو باشاہ کے پاس جانے کے لیۓ کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں نے بادشاہ کو بتایا ھے کہ تُم میری بہن ہو اور تُم بھی میری اِس بات کی تکذیب نہ کرنا ، پھر جب وہ ظالم بادشاہ سارہ کی طرف بڑھا تو اُس وقت وہ مصروفِ صلٰوة و مَحوِ دُعا ہو کر کہہ رہی تھیں کہ اے اللہ ! اگر میں تُجھ پر ایمان لائی ہوں اور تیرے رسولوں پر بھی ایمان لائی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو اپنے شوہر کے سوا سب سے بچایا ھے تو تُو مُجھے اس کافر کی دست درازی سے بچالے ، پھر سارہ کے یہ دُعا کرتے ہی وہ کافر غش کھا کر گر گیا اور پاؤں پٹخنے لگا ، راوی اعرج نے ابو سلمہ کے حوالے سے ابو ھریرہ ہی کا یہ قول بھی نقل کیا ھے کہ اس موقعے پر سارہ کو یہ خیال آیا کہ اگر یہ کافر بادشاہ مر گیا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ اس کو میں نے مار دیا ھے لیکن اسی وقت وہ ٹھیک ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا اور دوبارہ سارہ کی طرف بڑھنے لگا ، تَب سارہ دوبارہ وضو کر کے نماز میں مشغول ہو گئیں اور انہوں نے وہی دعا کی جو اس سے پہلے کی تھی اور وہ سارہ کی دعا کے بعد پھر زمین پر گر کر تڑپنے لگا ، عبد الرحمٰن نے ابو سلمہ کے حوالے سے ابو ھریرہ کا بھی یہ قول نقل کیا ھے کہ سارہ کہنے لگیں کہ یا اللہ ! اگر یہ کافر کہیں مرمرا گیا تو لوگ کہیں گے کہ یہ میرے ہاتھوں سے مرا ھے ، اس کے بعد وہ پھر ہوش میں آکر بیٹھ گیا یہاں تک کہ دوسری بار یا تیسری بار اُس نے اپنے کارندوں سے کہا کہ تُم ایک شیطان عورت کو میرے پاس لے آۓ ہو ، اَب تُم اِس کو اِس کا معاوضہ دے کر واپس ابراھیم کے پاس پُہنچا دو اور جب سارہ ایک کمسن بچی کو لے کر ابراھیم کے پاس واپس پُہنچیں تو انہوں نے ابراھیم علیہ السلام سے کہا کہ دیکھ لو ، اللہ تعالٰی نے اُس کافر کو جُھکا دیا اور کام کے لیۓ ہمیں ایک بچی بھی مل گئی ، امام بخاری نے یہ کہانی ابو الیمان و شعیب ، ابوالزناد و اعرج اور عبدالرحمٰن و ابو سلمہ کے جن چلتے پھرتے اور آوارہ آوارہ حوالوں کے ساتھ بیان کی ھے وہ سارے حوالے ھم نے حدیثِ بخاری کے ساتھ بلا کم و کاست پیش کر دیۓ ہیں لیکن امام بخاری نے یہ کہانی جو بائبل کی کتابِ تکوین کے بیسویں باب سے لی ھے اور پھر اِس مُعرب کہانی کو ابو ھریرہ کا نام لے کر نبی اکرم کی ذاتِ گرامی سے منسُوب کر دیا ھے ، بخاری کی اُس کہانی کے بعد موازنہِ کلام کے لیۓ بائبل کی وہ کہانی بھی درجِ ذیل ھے :- ابراہیم وہاں سے نجبہ کی سرزمین کی طرف چلا گیا اور قادیش اور شور کے درمیان ٹھیرا اور جرار میں ڈیرا کیا اور ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی بابت کہا کہ وہ میری بہن ھے ، اور جرار کے بادشاہ ابی ملک نے سارہ کو منگوالیا اور خُدا ابی ملک کے پاس رات کو خواب میں آیا اور اُسے کہا کہ دیکھ تُو اُس عورت کے سبب جسے تُونے لیا ھے مرے گا ، کیونکہ وہ شوہر والی ھے لیکن ابی ملک نے اُسے نہیں چُھوا تھا تو اُس نے کہا اے خُداوند کیا تُو ایک بے خبر اور صادق قوم کو بھی مارے گا ؟ کیا اُس نے مُجھے نہیں بتایا کہ وہ میری بہن ھے اور وہ آپ بھی بولی کہ وہ میرا بھائی ھے ، میں نے تو اپنے دل کی راستی اور ہاتھوں کی پاکیزگی سے یہ کیا ھے اور خدا نے خواب میں اُسے کہا ، میں جانتا ہوں کہ تُونے اپنے دل کی راستی سے یہ کیا اور اسی لیۓ میں نے تُجھے روکا کہ تُو میرا گناہ نہ کرے اور میں نے تُجھے اُس کو چُھونے نہ دیا ، اَب تُو اُس مرد کو اُس کی بیوی واپس دے کیونکہ وہ نبی ھے اور وہ تیرے لیۓ دُعا مانگے گا اور تُو جیتا رھے گا ، پَر اگر تُو اُسے واپس نہ دے گا تو جان رَکھ کہ تُو اور سب جو تیرے ہیں ، ضرور مر جائیں گے ، حدیثِ بخاری کے پُورے متن اور حدیثِ بائبل کے اِس اَھم حصے میں جو کُچھ بیان ہوا ھے اُس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ھے کہ بائبل و بخاری کے بیان میں پہلا فرق یہ ھے کہ بائبل نے کہانی کے روایتی بادشاہ کا نام ابی ملک بتایا ھے اور بخاری نے یہ نام چُھپادیا ھے تاکہ نقل کی گئی یہ کہانی اپنی اَصل کہانی سے ایک مُختلف اور ایک مُستقل بالذات کہانی نظر آۓ ، بائبل و بخاری کے بیان میں دُوسرا فرق یہ ھے کہ بائبل نے "کذب" ابراہیم کی زبانِ ابراہیم سے یہ توجیہ پیش کی ھے کہ سارہ میرے باپ کی بیٹی ھے اور اِس رشتے سے میری بہن ھے اور چونکہ وہ میری ماں کی بیٹی نہیں ھے اِس لیۓ میں نے اُس کے ساتھ شادی کی ھے لیکن ھمارے امام نے صدقِ ابراہیم کے لیۓ ایسا کوئی رَسمی سا تکلف بھی نہیں کیا ھے بلکہ ابراہیم کی اُجلی سیرت پر اپنے سیاہ ترین جُھوٹ کا ایک سیاہ ترین دَھبہ بھی لگا دیا ھے ، ہر چند کہ ہمیں بائبل کی اِن توجیہات سے کوئی غرض نہیں ھے لیکن بائبل و بخاری کی روایات کا یہ فرق ھمارے نزدیک بہرحال ایک توجہ طلب فرق ھے کہ بائبل کذبِ ابراہیم سے انکار کر رہی ھے لیکن بخاری کذبِ ابراہیم پر نہ صرف اصرار کر رہی ھے بلکہ کذبِ ابراہیم پر نبی اکرم کی گواہی پیش کر رہی ھے ، بائبل اور بخاری کے بیان میں تیسرا فرق یہ ھے کہ بائبل نے سارہ کا بادشاہ کی دست برد سے بچنا اُس خواب کا مرہونِ منت قرار دیا ھے جس میں بادشاہ کو اللہ تعالٰی نے سارہ کے ساتھ دست درازی کرنے سے منع کیا ھے اور وہ اسی خُدائی مُمانعت کے باعث اُس ظالم بادشاہ کی دست برد سے محفوظ رہی ہیں لیکن بخاری نے سارہ کو بار بار وضو پر وضو کرتے ، بار بار نماز پر نماز پڑھتے اور بادشاہ کو بار بار غش پر غش کھا کر گرتے اور گِر گِر کر اُٹھتے ہوۓ دکھایا ھے جو عقل و فہم کے خلاف ھے ، ایک عورت جو ظالم بادشاہ کی دسترس میں ہو اور بادشاہ اِس پر دست درازی کر رہا ہو تو ایسے میں اس کے لب و دل سے دُعا کا نکلنا تو قابلِ فہم ھے لیکن ایسے نازک ، خطرناک اور خوفناک لَمحات میں وضو پر وضو کرنا اور نماز پر نماز پڑھنا ایک ناقابلِ فہم بات ھے ، بائبل و بخاری میں چوتھا فرق یہ ھے کہ بائبل نے سارہ کے مُتعلق بادشاہ کا کہا گیا کوئی ناشائستہ کلمہ نقل نہیں کیا لیکن بخاری نے پہلے بادشاہ کی زبان سے اور بعد ازاں خاتم الاَنبیاء کی زبان سے سارہ کے لیۓ شیطان کا لقب تجویز کرایا ھے حالانکہ ابراہیم علیہ السلام ابوالاَنبیاء ہیں اور اِس حوالے سے اُن کی اہلیہ محترمہ خود سیدنا محمد علیہ السلام کے لیۓ بھی ایک ماں کی طرح مُحترم ہیں ، حیرت ھے کہ اسماعیل و اسحاق ، یعقوب و یُوسف ، ایوب و شعیب ، مُوسٰی و ھارون ، داؤد و سلیمان ، الیاس و یونس ، عزیر و زکریا اور مسیح و محمد کی اِس عظیم ماں کے متعلق جو بیہودہ بات کتابِ مُوسٰی میں تحریف کرنے والے عُلماۓ یہُود بھی کہنے کی جسارت نہیں کر سکے وہ بات نبی اکرم کے نام پر جُھوٹی روایات بنانے والے عُلماۓ روایات کتنے بے شرمی و بے باکی کے ساتھ خود بھی کہہ گۓ ہیں اور نبیِ اکرم کی زبان سے بھی کہلوا گۓ ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558427 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More