ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مانگنے والوں کا ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے
جو مہینے کے آخر تک ’’جوق در جوق‘‘ چلتا ہے ۔ لوگ اپنی اپنی مجبوریاں بتا
کر بالخصوص راشن کا تقاضہ کرتے ہیں ۔ اس منظر نامے میں یہ سوال اہم ہے کہ
صرف ماہ رمضان میں راشن مانگنے آنے والے دیگر ایام میں اپنی ضرورت کہاں سے
پوری کرتے ہیں ؟ ۔ میں نے اس پر مشاہدہ کیا ، کئی ’’ضرورت مندوں‘‘ سے اس
بابت استفسار بھی کیا مگر تسلی بخش جواب نہ مل سکا ۔ میں نے کچھ تحقیق کی
تو ان میں بیشتر لوگ ایسے دکھائی دئیے جو فقط ماہ رمضان کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے راشن لینے آتے ہیں اور باقی ایام میں اپنا انتظام خود کرتے ہیں ۔
تھوڑی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر حقیقی
مستحق نہیں ہوتے ۔
میں گذشتہ کئی سالوں سے قریبی مسجد میں ایک بزرگ کو دیکھ رہا ہوں ۔ موصوف
ہر مرتبہ صرف رمضان المبارک میں نمازیوں سے مدد کی درخواست کرنے تشریف لاتے
ہیں ۔ باقی پورا سال شاید انہیں نہ تو گھر کے کرایہ کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے
، نہ ہی راشن کی کمی کا …… لیکن رمضان میں وہ یہی دو تقاضے لئے نظر آتے ہیں
۔ دوسری جانب اس مہینے کے دوران ایک اور منظر بھی تقریباً روزانہ کی بنیاد
پر مشاہدے میں آتا ہے ۔ بہت سے ’’مانگنے والے‘‘ گلی محلوں اور مساجد میں
بچوں سمیت سوالی بن کر آتے ہیں ۔ نت نئی مجبوریاں بتائی جاتی ہیں اور مدد ،
بالخصوص راشن ڈیمانڈ کرتے ہیں ۔ ان پر بھی تحقیق کی جائے تو ضروریات پوری
کرنے کے حوالے سے مذکورہ نتیجہ ہی سامنے آتا ہے ۔ البتہ قابل توجہ امر یہ
ہے کہ ایسے لوگ کم عمری میں بچوں کو بھیک مانگنے کی عادت ڈال رہے ہوتے ہیں۔
بچوں کو ڈھال بنا کر مانگنے والے ایسے لوگوں کی سخت حوصلہ شکنی ہونی چاہئے
…… بھکاری طبقہ افطار کے نام پر بھی ہماری ’’رحمدلی‘‘ پر وار کرنے کی کوشش
کرتا ہے ۔ اکثر آپ نے انہیں آواز لگاتے سنا ہوگا کہ ان کے بچوں نے روزہ
رکھا ہوا ہے اور گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔ یہ ان کی افطاری کیلئے مدد
کے طالب ہوتے ہیں ۔
ایسے تمام لوگ صحیح معنوں میں ضرورت مند نہیں ہوتے ، بلکہ حقیقی ضرورت
مندوں کے بھی استحصال کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ درحقیقت زکوۃ دینے والوں
کے عطیات پر ڈاکہ مار رہے ہوتے ہیں اور عطیات لینے والوں کی حق تلفی کے
مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں ۔
ہم اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں نصف سے زائد آبادی خط غربت کی دہلیز پر
ہے جبکہ اس نصف حصے کا بھی کم و بیش 35 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر
رہا ہے ۔ کتنے ہی لوگ محدود ذرائع آمدن کے ساتھ گزارہ کرنے پر مجبور ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایسے طبقے کے
دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے بیشتر منصوبے لانچ کر رکھے ہیں ۔ جو لوگ ڈور ٹو
ڈور بھیک مانگتے ہیں ، عادتاً راشن کا تقاضہ کرتے ہیں ، علاج کے نام پر
امداد مانگتے ہیں ، ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ حکومت کے ان پروگرامات سے
استفادہ کریں ، لیکن اس امر پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے گداگری فروغ پا رہی
ہے اور غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
عمران خان اور سردار عثمان بزدار کی زیر سرپرستی پنجاب میں ایسے لوگوں
کیلئے نہ صرف رمضان پیکج کے تحت کم قیمت اشیاء کی مارکیٹ میں دستیابی ممکن
بنائی گئی بلکہ قبل ازیں احساس کفالت پروگرام ، ہیلتھ کارڈز ، صحت سہولت
پروگرام ، ہاؤسنگ پراجیکٹس سمیت ایسے دیگر فلاحی منصوبے متعارف کروانے کے
ساتھ ساتھ پناہ گاہوں کا پراجیکٹ بھی شروع کیا گیا ، جہاں غریب افراد مفت
رات گزارتے اور پورے پروٹوکول کے ساتھ تین وقت کا بلامعاوضہ کھانا کھاتے
ہیں ۔
ان شیلٹر ہومز سے صرف وہی لوگ مستفید ہو رہے ہیں جو واقعتا مستحق ہیں ،
عادی بھکاری صاحبان ان پروگرامات سے استفادہ کرنے کو ترجیح دینے کی بجائے
اپنے ’’بزنس‘‘ یعنی گداگری کے فروغ پر ہی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔ گو کہ
پنجاب حکومت گداگری کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کر رہی ہے اور ڈسٹرکٹ
ایڈمنسٹریشن بھی اس ضمن میں متحرک ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنا
کام درست طریقے سے کر رہی ہے اور غریب و مستحقین پر شفقت کا ہاتھ رکھے ہوئے
ہے اور ان کی فلاح کیلئے کمر بستہ ہے ۔ تاہم عوام کو بھی اس ضمن میں حکومت
کا ساتھ دینا ہوگا ۔ پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ، مستحقین کی
مدد کرنے والے طبقات کو اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر اصل حقدار ڈھونڈنا ہوں گے
۔ کتنے ہی سفید پوش ملیں گے جن کی غیرت مانگنا گوارہ نہیں کرتی ، وہ تین
وقت کی بجائے دو وقت کی روٹی کھا تے ہوں گے ، بچوں کو بنا سکول کے پڑھا تے
ہوں گے ، ریڑھی لگا کر ، غبارے بیچ کر ، کم کما تے ہوں گے ، محدود وسائل
میں رہ کر جیتے ہوں گے ، ایسے لوگ ہمیں بہت ملیں گے ، جنہیں راشن کی ضرورت
ہوگی لیکن وہ ماہ رمضان کے منتظر نہیں ہوں گے ، ہاتھ نہیں پھیلائیں گے ۔
کوئی غیر محسوس طریقے سے دے دے گا تو لے لیں گے ، ورنہ یوں ہی گزارہ کریں
گے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہ رمضان کو صرف راشن اور عطیات دینے کا مہینہ مت
بنایا جائے ۔ جن کو راشن اور عطیات دئیے جا رہے ہیں ، ان کا اتہ پتہ کیجئے
کہ اگر وہ واقعتا مستحق ہیں تو رمضان کے علاوہ بھی ایسے خاندانوں کی کفالت
کا انتظام کیجئے ۔ وگرنہ محض ایک مہینے کیلئے چند کلو دالیں ، چاول ، گھی ،
آٹا اور چینی دینے کی فارمیلیٹی بھی پوری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ۔ ہم پر
واجب ہے کہ اپنے عطیات درست جگہ پر استعمال کرنے کا شعور رکھیں تاکہ اصل
حقداروں کی امانت ان تک پہنچ سکے ۔
|