نہ شوہر نے میت کو ہاتھ لگایا نہ بیٹوں نے۔۔۔ بھارت میں 800 سے زائد ہندو لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے والے مسلمان رضاکار جنہوں نے انسانیت کی نئی مثال قائم کی

image
 
کہتے ہیں انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اسلام تو مذہب ہی انسانیت کا ہےجو ساری دنیا میں امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ بھارت میں کورونا وباء کی حالیہ لہر نے جہاں کروڑوں لوگوں کی جانیں لی ہیں وہیں مسلمانوں کے نیک جذبات، امن پسند طبعیت اور لوگوں سے بھلائی کرنے والی فطرت پوری دنیا پر ثابت کردی ہے۔ بھارت میں کورونا سے مرنے والے ہندو شہری جن کی لاشوں کو ان کے پیارے بھی ہاتھ نہیں لگا رہے ان کی آخری رسومات کا ذمہ مسلمان رضاکاروں نے اٹھا لیا ہے۔
 
نہ شوہر نےمیت کو ہاتھ لگایا نہ اولاد نے
بہار کے نوجوان محمد شارق کہتے ہیں کہ “ 58 سالہ پرباوتی کا کرونا ٹیسٹ منفی آیا البتہ وہ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد فوت ہوگئیں۔ ان کے گھر والوں کہ شبہ ہے کہ ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود ان کی موت کی وجہ کورونا ہی ہے اس لئے ان کی میت کو نہ ان کے شوہر نے ہاتھ لگایا نہ بیٹوں نے۔ بس ڈاکٹروں نے پربھاوتی کی لاش کو ایمبولینس میں رکھ دیا۔ لاش دوپہر بارہ بجے سے رات آٹھ بجے تک وہیں پڑی رہی“
 
محمد شارق کے مطابق ان کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ اسپتال گئے اور پربھاوتی کے خاندان کو ان کی آخری رسومات کے لئے تیار کرنے کی کوشش کی۔ جب وہ نہیں مانے تو محمد شارق نے بانس لاکر ایک ارتھی بنائی اور اپنی ٹیم کے ساتھ شمشان گھاٹ لے کر گئے۔
 
800 سے زائد ہندوؤں کا کریا کرم
بھارت میں یوتمال ضلع کے چار مسلمانوں پر مشتمل گروہ اب تک 800 سے زائد ہندو لاشوں کا کریا کرم کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ لکھنؤ میں امداد امام کی ٹیم جس میں 22 افراد شامل ہیں اید درجن سے زائد ہندوؤں کا کریا کرم کرچکی ہے اس کے علاوہ 30 مسلمانوں کی تدفین بھی کرچکی ہے۔
 
image
 
اس خدمت میں ہماری جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں
مہاراشٹر کے مسلم شہری معین مستان نے بھی 25 افراد پر مشتمل کورونا متاثرین کے لئے امدادی ٹیم بنائی ہوئی ہے۔ معین مستان کہتے ہیں کہ “اُن کی ٹیم یومیہ 40 سے 50 ہندوؤں کی لاشوں کی آخری رسومات کا انتظام کر رہی ہے۔ اگر اس خدمت کے عوض ہماری جان بھی چلی جائے تو ہمیں کوئی افسوس نہیں ہوگا۔ کیوں کہ انسانیت کی خدمت کرنے میں اگر جان جاتی ہے تو یہ بڑے اعزاز کی بات ہے معین مستان اور ان کے ساتھی رضاکاروں کے پاس چھ ایمبولینسز موجود ہیں۔ وہ مذہب کی تفریق کیے بغیر تمام میتوں کو گھر یا شمشان گھاٹ اور قبرستاں پہنچانے کی خدمات ادا کررہے ہیں۔ “
 
معین مستان کی ٹیم میں بھوپال کے دانش صدیقی اور صدام قریشی بھی شامل ہیں جو وائس آف امریکہ کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : ہم روزہ رکھ کر یہ کام کرتے ہیں۔ ایسے بھی مواقع آئے جب شمشان گھاٹ پر ہی افطار کا وقت ہوا اور وہیں روزہ کھولنا پڑا“
 
image
 
ان کے مطابق بہت سے ہندو خاندان یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں فوتگی ہوگئی ہے ان کی آخری رسومات ادا کردیں اور کچھ وڈیو کالنگ کے زریعے اپنے بچھڑنے والوں کی آخری رسومات دیکھنے کی درخواست بھی کرتے ہیں۔ معین کی ٹیم نے اب تک 60 سے زائدہندو لاشوں کی آخری رسومات ادا کی ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: