۴۲ مئی کے صبح دس بجے بدر الحسن
معلم جامعہ آباد تشریف لائے تھے ، اساتذہ و اسٹاف سے خصوصی طور پروہ ملنا
چاہتے تھے ، اس دن وضع قطع اور لباس سے وہ کچھ زیادہ ہی سجے دھجے نظر آرہے
تھے ، اس وقت وہ جلدی میں تھے ، برصغیر کی باوقار اسلامی یونیورسٹی
دارالعلوم ندوة العلماءمیں بھٹکل اور جامعہ کے فرزند مولانا عبد العزیز
خلیفہ ندوی صاحب کی بحیثیت نائب مہتمم تقرری پر وہ بہت ہی خوشی اور فخر
محسوس کررہے تھے ، وہ اس شکایت کا اظہار کرنے آئے تھے کہ بھٹکل کو اتنا بڑا
اعزاز ملنے پر ابھی تک کوئی تہنیتی اجلاس منعقد نہیں کیا گیا ، وہ اولین
فرد تھے جنہوں نے مولانائے موصوف کو اس اعزا ز کی خبر سن کر مبارکبادی کا
فون کیا تھا، یہ ان کی عادت تھی ، بھٹکل کے کسی فرزند کے کوئی اعزاز پانے
پر ان کی باچھیں کھل جاتی تھیں۔ وہ اس سے کم قدر وقیمت کے عہدے پانے پر
جماعتوں اور اداروں کے نئے عہدیداران کو بھی پیغام تہنیت بھیج کر اسی طرح
ہمت بندھا تے اور ان کے فرائض منصبی یاد دلاتے تھے، اس وقت انہیں مولانا
سید ابو الحسن ندوی اسلامک اکیڈمی کے تحت قائم ہونے والے علی اسلامک پبلک
اسکول کے افتتاح اور اس کو درپیش رکاوٹوں کے حل کی بھی فکر تھی ، جو کہ اسی
روز مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم کے دست مبارک سے کھلنے
والا تھا لیکن ناگزیر وجوہات سے یہ تقریب ایک ہفتہ ملتوی کی گئی تھی ، یہاں
سے وہ مجلس اصلاح وتنظیم کے دفتر تشریف لے گئے جہاں امداد باہمی سے متعلق
ایک میٹنگ میں انہیں شرکت کرنی تھی ، موصوف کی زندگی امداد باہمی اور حاجت
مندوں کی مدد سے تعبیر تھی وہ یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہتے تھے لیکن ڈانڈیلی
میں ان کے ایک دوست کی شادی میں جانے کے ارادے سے میٹنگ ختم ہونے سے پہلے
ہی دوپہر بارہ بجے روانہ ہو گئے ، ابھی تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ یہ خبر
بجلی بن کر کوندی کہ کمٹہ میں آپ کی گاڑی سے ایک لاری کی ٹکر کے نتییجہ میں
دم زدن میں آپ اپنی تین بیٹیوں اور ایک داماد کے ساتھ راہی برحق ہوگئے ، اس
سے ٹھیک ایک سال قبل ۲۲ مئی کو ایسا ہی ایک سانحہ منگلور ایر پورٹ پر ایر
انڈیا ایکسپریس کے حادثہ کی شکل میں رونماء ہوا تھا جس میں بھٹکل کے ایک ہی
خاندان کے کئی افراد جاں بحق ہوئے تھے اور اس سے چند ماہ قبل سڑک حادثہ میں
ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد شہید ہوئے تھے ، درد اور ہولناکی میں یہ
واقعات کچھ کم نہ تھے ، لیکن ۴۲ مئی کے اس سانحہ میں بھٹکل کی اجتماعی اور
سماجی زندگی کا سب سے قیمتی ہیرا چکنا چور ہوگیا تھا ۔
بدر الحسن معلم نے زندگی کی ﴾۴۷﴿ بہاریں دیکھیں ، جن میں سے نصف صدی سے
زیادہ عرصہ سماجی زندگی میں گذرا ، وہ بھٹکل کی عظیم شخصیات اسماعیل حسن
صدیق (آئی یس صدیق) اور عثمان حسن جوباپو (ہیڈ ماسٹر)کی طرح بے سروساماں
تھے ، دولت و ثروت کے انبار نے ان کی گھر کی دہلیز کے قدم نہیں چومے تھے ،
معاشی تنگ دستی سایہ کی طرح زندگی بھی ان کا پیچھا کرتی رہی ، انہوں نے
اپنی زندگی قوم کی خدمت میں قربان کی لیکن انہیں زندگی میں اس کا صلہ نہیں
ملا ، بدر الحسن معلم کئی دوسرے افراد کو اعزازات سے نوازنے کی کوششوں میں
پس پردہ رہے ، لیکن طویل زندگی میں قوم نے انہیں کسی اعزاز کے قابل نہیں
سمجھا ، لیکن جب جسد خاکی کو کاندھوں پر لاد کر آخری آرامگاہ کی طرف لے
جایا جا رہا تھا تو دیکھنے والوں نے محسوس کیا کہ آپ کا تو دلوں پر راج تھا
، یہ فقیر بے نوا تو بے تاج بادشاہ تھا، جس کی محبت سب کے دلوں میں جاوداں
تھی ، جس کی ذات صرف نفع بخش تھی ، جس نے جان بوجھ کر کسی کو نقصان نہیں
پہنچایا ، تعزیتی اجلاس میں وطن کے جتنے طبقات نے نمائندگی کی اور اپنے جن
جذبات کا اظہار کیا اس کی مثال بھٹکل کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ان کی زندگی
میں تو اس کا احساس نہیں ہوا ، لیکن ہم سے اس طرح جد ا ہونے پر دل سے آواز
نکلی کہ قوم اب واقعی یتیم ہوگئی ہے۔
بدر الحسن معلم کی شہادت پر تین ہفتہ سے زیادہ کا عرصہ بیت رہا ہے ، دل و
دماغ میں ایک طوفان بپا ہے جو امنڈنے کے لئے بے تاب ہے ، لیکن پھر خیال آتا
ہے کہ کیا ہم صرف مرنے والوں کی فاتحہ خوانی کے لئے زندہ رہ گئے ہیں۔ کیا
ہمارا کام اب صرف جانے والے کے اوصاف گنانے تک محدود رہ گیا ہے ،آخر مرنے
کے بعد نثری مرثیوں کا کیا فائدہ ، جب یہ خیال دل میں آتا ہے تو خیالات رک
سے جاتے ہیں ، قلم آگے بڑھنے سے انکار کرنے لگتا ہے ، آنسو پلکوں پر آکر رک
سے جاتے ہیں۔یہ کیفیت گذشتہ تین ہفتوں سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے ، کبھی
خیال آتا ہے کہ جب زندگی ہی میں قدر نہیں ہوئی تو اب الفاظ کا طومار
باندھنے کا کیا فائدہ ، پھر دیرینہ تعلقات واسطہ دے کر فرض منصبی یاد دلانے
لگتے ہیں ۔
مرحوم کو ہم نے بچپن ہی سے دیکھنا شروع کیا تھا ،آپ کا مکان صدیق اسٹریٹ
میں ہمارے خاندانی مکان جہاں پر اب تنظیم کی عمارت کھڑی ہے اس کے سامنے
واقع تھا، آپ کے والد ڈاکٹر عبد القادر معلم اپنے وقت کے قائدین قوم میں
شمار ہوتے تھے ، شکل و صورت میں اپنے جانشین فرزند کی طرح ہی دراز قد تھے
انہیں ہم دور سے دیکھا کرتے ، قریب جانے کی ہمت نہیں ہوتی ،آئی یس صدیق کے
بعد آپ بلدیہ بھٹکل کے صدر منتخب ہوئے تھے ، ہماری عمروں میں بہت زیادہ
تفاوت ہونے کی وجہ سے بد رالحسن معلم سے صغر سنی میں تعارف نہ ہوسکا ، لیکن
۸۷۹۱ءمیں آپ نے جب وطن کو مستقل مستقر بنایا اور چند ہی ماہ بعد یس یم یحیی
مرحوم کے الیکشن کے موقعہ پر جس میں کامیابی کے بعد آپ ریاست کرناٹک کے
بلکہ آزاد ہند کی تاریخ کے پہلے مسلم وزیر مالیات بن گئے تھے ، اس موقعہ پر
جب آپ کو سنت یوسفی سے گذرنا پڑا تو ہمیں بھی آپ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔
اس وقت مرحوم نئے نئے بھٹکل وارد ہوئے تھے ، ابھی چہرا صفا چٹ تھا، نماز
روزے کے تو پابند تھے اور سلطانی مسجد میں نظر آتے تھے، انہی ایام میں
مولانا محمد صادق اکرمی صاحب کی سلطانی مسجد میں نئی نئی تقرری ہوئی تھی
اور منصب امامت کو بھٹکل میں ایک نئی آن بان مل گئی تھی ، یہاں سے مولانا
کے ساتھ آپ پنج وقتہ نمازوں کے بعد پابندی سے تبادلہ خیال کرتے اور آپ کے
بیانات میں شرکت کرتے نظر آنے لگے ، چند ہی دنوں میں چہرہ پر نور ہوگیا اس
پر مشرع ڈاڑھی نظر آنے لگی ، ساتھ ہی ساتھ وہ بھٹکل کی جملہ سرگرمیوں میں
فعال نظر آنے لگے ۔ جماعت المسلمین ، انجمن حامی مسلمین اور مجلس اصلاح و
تنظیم میں وہ نمایاں نظر آنے لگے ۔ |