آج تک اس نل سے پانی نہیں آیا۔۔۔ حکمران کراچی میں پانی کی قلت اور واٹر مافیا کے راج پر خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں؟

image
 
“میں نے آج تک اس نل سے پانی آتا نہیں دیکھا۔ ہم اپنے استعمال کے لئے یا تو مہنگے ٹینکرز سے پانی خریدتے ہیں یا لوگ ہمیں تھوڑا پانی استعمال کے لئے دے دیتے ہیں“
 
یہ الفاظ ہیں محمد شکیل کے جو پاکستان کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے رہائشی ہیں جہاں پانی کی شدید قلّت ہے ۔ اورنگی ٹاؤن کی ہی ایک اور رہائشی خاتون محسنہ خاتون کہتی ہیں کہ “ سرکاری نل سے کبھی کبھار پانی آتا ہے جو دو تین دن چلتا ہے اس کے بعد ہمیں پانی خریدنا پڑتا ہے۔ سارے گھر کے لئے پانی خریدنا بہت مشکل ہے اس وجہ سے گزارا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
 
لیکن صرف اورنگی ٹاؤن ہی نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے اکثر علاقے پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ نارتھ کراچی کے تمام علاقوں سے لے کر پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفینس کے پوش علاقوں میں بھی پانی کی کمی ہے۔ مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس طبقہ تو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے پانی خرید لیتا ہے لیکن غریب خاندان پیسے کی کمی کی وجہ سے بمشکل ہی اتنا پانی خرید پاتے ہیں جن سے ان کے گھر بھر کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ اسی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار بھی رہتے ہیں۔
 
image
 
ہیٹ اسٹروکس اور پانی کی کمی
کراچی کا موسم سال 8,9 ماہ گرم رہتا ہے اور اپریل، مئی اور کے مہینوں میں یہاں شدید لو چلتی ہے۔ 2015 میں کراچی کا درجہ حرارت 45 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تقریباً ہر سال ہی ہیٹ ویوز کے دوران شہر کا درجہ حرارت بلند ہوجاتا ہے اور حب ڈیم میں پانی کم ترین سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جس کے باعث شہری پینے کے پانی کو بھی ترس جاتے ہیں۔
 
صرف آدھے شہر کی ضروریات پوری کرنے کا پانی ہے
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کے مینیجنگ ڈائریکٹر اسداللہ خان، الجزیرہ ٹی وی کو اس بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ہمارے پاس کراچی کے پچاس فیصد شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پانی ہے اور باقی پچاس کو دینے کے لئے نہیں ہے اور اس کی وجہ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے“
 
پانی مافیا
کراچی میں سرکاری پائپ لائز پر پانی مافیا کا قبضہ ہے جو لائنز کا رخ موڑ کر پانی جمع کر کے باقاعدہ بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ عوام کے بقول اس کھیل میں پولیس سے لے کر سب ہی شامل ہیں۔ البتہ پولیس کہتی ہے کہ یہ چوہے بلی والا کھیل ہے۔ ہم ان کے خودساختہ واٹر پمپس تباہ کرتے ہیں یہ نیا بنا لیتے ہیں۔ البتہ شہریوں کو پینے سے لے ضروریات زندگی کے تمام امور نمٹانے کے لئے پانی خریدنا پڑتا ہے جو غریب عوام کے لئے بہت مشکل ہے۔
 
ایک اور شہری واٹر بورڈ کے حوالے سے شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ہمیں ایک دن کا پانی بھرنے کے لئے ساتھ آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ہم پانی کی درخواست لے کر واٹر بورڈ جاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ پچھلی لائنز بیکار ہوگئی ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ نئی لائنز ڈال دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فنڈذ نہیں“
 
image
 
اس تمام صورتحال میں وفاقی اور صوبائی حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں پینے کا پانی بھی خریدنا پڑتا ہے اور یہ پریشانیاں چند مہینوں سے نہیں بلکہ دہائیوں سے موجود ہیں لیکن بجائے حل ہونے کے ان میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ بڑی بڑی باتیں اور دعوے کرنے والے سیاستدان عوام کے بنیادی حقائق سے نظر چراتےنظر آتے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: