غزوہ بدر ۔ حق کی فتح کا دن

مکہ میں نبوت کے 13 سال انتہائی مشکلات میں گزرے لیکن ہجرت کے بعد نبی کریم آقا دوعالم خاتم النبیین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ میں تبلیغ کرنے کی پوری آزادی تھی اور اسلام کے اثرات دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے تھے۔ جنوب کے یمنی قبائل میں سے بھی بعض سلیم الفطرت لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے اور ان کی کوششوں سے بحرین کا ایک سردار عبدالقیس مدینہ کی طرف آ رہا تھا کہ قریش مکہ نے راستے میں اسے روک دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب تک خدا پرستی اور شرک میں ایک چیز ختم نہیں ہو جائے گی، کشمکش ختم نہیں ہوسکتی۔قریش مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں۔ افرادی قوت کو مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے مکہ مکرمہ کے گردونواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہ ابوسفیان کو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اور مکہ مکرمہ کی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔جب ابوسفیان کا مذکورہ بالا قافلہ واپس آ رہا تھا تو ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے چنانچہ انہوں نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی۔ قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پرحملہ کرنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے فوراً امداد کے لیے پہنچو۔ اہل مکہ سمجھے کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے۔ سب لوگ انتقام کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آ رہا ہے۔ لیکن قریش کے مکار سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کا ہمیشہ کے لیے کام ختم کرکے ہی واپس جائیں گے۔ نیز حضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا انتقام لینے پر اصرار کیا۔ چنانچہ قریشی لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور بدر میں خیمہ زن ہو گیا۔مسلمانوں کا 313 افراد پر مشتمل لشکر نبی کریم ﷺ کی زیر قیادت 12 رمضان 2 ہجری کو شہر مدینہ سے روانہ ہوا اور ”بدر کی وادی“ میں پہنچا۔ روانگی سے پہلے نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے انتظام کے لئے ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کیا، کیونکہ نبی کریم ﷺ کو اندیشہ تھا کہ کہیں مدینے کے یہود اور منافق قریش کی شہ پاکر فساد برپا نہ کردیں۔لشکر جب بدر کے مقام پر پہنچا تو مخبروں نے اطلاع دی کہ قریش کا لشکر وادی بدرکے دوسرے سرے تک پہنچ چکا ہے۔ لشکر اسلام نے وہیں ڈیرے ڈال دیے اور حباب بن مندر ؓ کے مشورہ پر پانی کے چشمہ پر قبضہ کیا اور آس پاس کے کنویں بے کار کردئیے۔مسلمانوں کا لشکر دو جنگی مقاصد لے کر نکلا تھا ایک یہ کہ ابوسفیان کی زیر قیادت قریش کے تجارتی قافلے کو گرفتار کرلیا جائے، دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر مکہ سے آنے والی فوج سے مڈبھیر ہوجائے تو اس سے لڑ کر دلوں کے حوصلے نکال لئے جائیں۔مسلمانوں کے بعض لشکری دل سے چاہتے تھے کہ ابوسفیان کا قافلہ انکے ہاتھ لگ جائے تاکہ کفار مکہ کی ساری دولت و ثروت انہیں مالِ غنیمت کے طور پر مل جائے لیکن ابوسفیان راستہ کاٹ کر کسی اور راستے سے بچ نکلے۔اور مسلمانوں کو سب سے پہلی لڑائی ایسی لڑنی پڑی جس میں مال غنیمت کے لالچ کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس طرح بدر کی جنگ جس کا حال محض کفر و اسلام کی آویزش بن کر رہ گئی ایک فریق کا مقصد دین اسلام کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردینا تھا جبکہ دوسرا فریق دین اسلام کی حفاظت و بقا کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر حاضر ہوچکا تھا۔ قریش مکہ کی فوج نے اسلامی لشکر کے سامنے ڈیرے ڈال دیئے، قریش کے بعض سردار لڑائی سے جی چرا رہے تھے، کیونکہ انکا اولین مقصد تجارتی قافلے کی حفاظت تھا اور چونکہ ابو سفیان تجارتی قافلہ کو حفاظت کے ساتھ دوسرے راستے سے بچا نے میں کامیاب ہوچکے تھے،لیکن ابوجہل کے غیرت دلانے پر سب جواں مردی کے جوہر دکھانے پر آمادہ ہوگئے۔ رات کو بارش ہوگئی جس جانب اسلام کے لشکر کا کیمپ تھا وہاں زمین ریتلی تھی بارش ہونے سے اس کی تہ جم گئی، قریش کا کیمپ چکنی مٹی کے باعث کیچڑ سے بھر گیا اور انہیں چلنے پھرنے میں دقت محسوس ہونے لگی، مسلمان جو اللہ کی راہ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو کرآئے تھے۔ رات بھر چین کی نیند سوئے، جبکہ قریش آنے والی صبح کے واقعات کے تصور میں جاگتے رہے۔17 رمضان المبارک کو حق و باطل کے لئے لڑنے والوں کے لشکر آمنے سامنے آچکے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے علی الصبح مسلمانوں کو نماز کے لئے جگایا۔ سب نے نماز ادا کی، نماز کے بعد آپ ﷺ نے فوجی ترتیب کے مطابق صفیں درست فرمائیں۔ مومنین کی صفیں قتال کے امتحان میں گزرنے کے لئے آمادہ کھڑی تھیں۔ اور اللہ کے پیارے رسول ﷺ دونوں ہاتھ پھیلا کر ایک عجیب محویت اور بے خودی کے عالم میں کھڑے دعا مانگ رہے تھے اور کہ رہے تھے: اے رب العالمین جس نصرت کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔ اگر یہ مٹھی بھر نفوس آج مٹ گئے تو قیامت تک تیری پرستش کرنے والا اور تیرا نام لینے والا کوئی شخص پیدا نہ ہوگا۔فوجیں بالمقابل ہوئیں تو طرفین کے اکثر دھڑکتے ہوئے دلوں نے محسوس کیا کہ آج اپنے ہی بھائیوں، عزیزوں، قریبی رشتہ داروں اور بزرگوں سے نبٹنا ہے، کفار اور مہاجر مسلمان ایک ہی قوم کے افراد تھے اور کئی خونی رشتوں سے آپس میں جکڑے ہوئے تھے، قریش مکہ کے امیر لشکر عتبہ کا جگر بند مسلمانوں کی صف میں باپ کے بالمقابل کھڑا ہے، نبی کریم ﷺ کے چہیتے چچا عباس کفار کی فوج میں ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ اسلامی فوج میں جبکہ آپ ؓ کے بیٹے کفار کی فوج میں شامل تھے، اسی طرح ایک طرف حضرت علی ؓ اور دوسری طرف انکے بھائی عقیل مدمقابل نظر آرہے تھے۔(غزوہ بدر میں کفار کی جا نب سے مسلمانوں کیساتھ جنگ کرنے والے بہت سے افرادوقت گزرنے کیساتھ ساتھ اسلام کی آغوش میں داخل ہوکر صحابی رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خوش قسمت ترین عہدہ پر فائز ہوئے)۔مبارزوں (یعنی one to one) کی لڑائیوں میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا۔ اسکے بعد عام جنگ شروع ہوئی، طرفین کے بہادر اور جری اشخاص داد شجاعت دینے لگے۔ مسلمانوں کی تعداد ہر چند قلیل تھی لیکن وہ کمال دل جمعی اور شجاعت کے ساتھ لڑرہے تھے، نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کی جماعت کو بتا رکھا تھا کہ حق و باطل کے اس معرکے میں مارے گئے تو اللہ عزوجل کی راہ میں شہادت کا رتبہ پائیں گے جبکہ قریش کی طرف صرف اسلام سے عناد اور قومی اور قبائلی یا شخصی جمعیت کا جذبہ کام کر رہا تھا۔ انصاری مسلمانوں کے دو نوجوانوں رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے ابو جہل کا پتہ پوچھ کر اس پر ٹوٹ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ابوجہل کا کام تمام کردیا۔اسی طرح کفار مکہ کے بہت سے دیگر سرداربھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جسکی بناء پر کفار کے لشکر کے حوصلے جواب دے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فرزندان توحید نے آقا دوجہاں نبی کریم ﷺ کی زیر قیادت حق و باطل کے معرکہ میں شاندار فتح حاصل کی۔بنی نوع انسانی کے جنگ و جدال کی تاریخ میں یہ واقعہ بڑا ہی حیرت انگیز تھا کہ 300 کے قریب قلیل جمعیت نے اپنے سے تین گنا سے بھی زائد مدمقابل افراد پر فتح حاصل کرلی۔جنگ کے خاتمہ پر جائزہ لیا گیا تو قریش کے 70 افراد واصل جہنم ہوئے اور تقریبا اتنے ہی افراد قیدی بنا لئے گئے اور کفار کا باقی لشکر اپنی جانیں بچاتے ہوئے بھاگ گیا۔ جبکہ دوسری طرف 14صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین شہادت کا عظیم مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔کفار کی لاشیں ایک کنوئیں میں ڈال دی گئیں۔نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جنگی اسیروں کیساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، مسلمانوں نے اس حکم کی تعمیل کی قیدیوں کو نان و پنیر کھلایا اور خود کھجوروں پر گزارا کیا۔ مسلمانوں کا لشکر مظفر و منصور ہوکر مدینے کی طرف لوٹ آیا۔مدینہ پہنچ کر مجلس مشاورت منعقدہوئی تاکہ اسیران جنگ کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے، حضرت عمر ؓ کی رائے تھی کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور قتل کی یہ صورت ہو کہ ہر قیدی کو اسکا نزدیکی رشتہ دار قتل کرے۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے رائے دی کہ ان سبکو زرفدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اکثریت فدیہ کے حق میں تھی۔ اس لئے اس رائے پر عمل کیا گیا۔ قریش مکہ کے صرف دو رئیس عقبہ اور نضربن حارث قتل کر دیئے گئے اور باقی زر فدیہ لیکر چھوڑ دیئے گئے۔ جو قیدی غربت کی وجہ سے فدیہ ادا نہیں کر سکتے تھے اور پڑھے لکھے تھے انہیں دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوص رہا کر دیا گیا۔ یہ قیدی حسن سلوک سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت سے مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں عباس بن عبد المطلب ؓ اور عقیل بن ابوطالب ؓ شامل تھے۔

غزوہ بدر کے بعد اللہ عزوجل کے رسول ﷺ پر قرآن کی سورۃ انفال نازل ہوئی، جسے اس لڑائی کے حالات و کوائف پر اللہ کریم کا شاندار تبصرہ بھی کہا جاسکتا ہے، اس سورۃ میں مسلمانوں کوجنگ کا قانون دیا گیا، جس پر وہ آئندہ جنگوں میں کاربندہونے لگے۔ اللہ کریم ارشاد فرماتے ہیں کہ: ” پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور اللہ آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور ا للہ غالب حکمت والا ہے۔اگراللہ کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔ تو جو مالِ غنیمت تمہیں ملا ہے اسے کھاؤ (کہ وہ تمہارے لیے) حلال طیب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اے پیغمبر ﷺ جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر اللہ تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے. اور اگر یہ لوگ تم سے دغا کرنا چاہیں گے تو یہ پہلے ہی اللہ سے دغا کرچکے ہیں تو اس نے ان کو (تمہارے) قبضے میں کر دیا۔ اور اللہ دانا حکمت والا ہے۔“ (سورۃ انفال کی آیت نمبر 67 سے آیت نمبر 71)۔

بدر کی لڑائی نے قریش کی طاقت و تکبر کو بہت کمزور کردیا۔ مکہ کے گھر گھر میں ماتم کی صفیں بچھ گئیں۔ بااثر لوگوں نے عوام کو بین و بکا کرنے سے منع کردیامگر اپنے پیاروں کی موت پر کون آنسو روک سکتا تھا۔ بدر کی عظیم فتح کے بعد مدینہ کے یہودی اسلام کی برھتی ہوئی طاقت کو اپنے لئے خطرہ کا موجب سمجھنے لگے۔کفر و اسلام کے درمیان یہ پہلی لڑائی تھی۔ مسلمانوں کے نزدیک اس پہلی جنگ میں حصہ لینے والے افراد دوسرے مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ فضلیت والے ہیں، کیونکہ اللہ کریم نے اپنے کلام میں انکے اس جہادفی سبیل اللہ پر خوشنودی کا اظہار کیا اور جو لوگ اس مہم پر نہیں گئے تھے انکے متعلق کہ دیا کہ معذوری کے سوا یونہی بیٹھ رہنے والے ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے، جو اللہ عزوجل کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، اللہ کے نزدیک مجاہدین کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہے۔غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین تصادم تھا اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ بھائی بھائی کے خلاف اور باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبد الرحمن ؓنے جو قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ حضرت حذیفہ ؓکا باب عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کاایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ مدینہ میں بنو اوس اور بنو خزرج قبائل کے بہت سے لوگوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے۔ 313 کے ہاتھوں ایک ہزار قریشی سرداروں کی شکست نے ان پر لات و منات و عزیٰ اور ہبل کی قوت کا کھوکھلا پن واضح کر دیا۔غزوہ بدر میں اسلام کی فتح نے اسلامی حکومت کو عرب کی ایک عظیم قوت بنا دیا۔ ایک مغربی مورخ کے الفاظ ہیں:”بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب تھا مگر بدر کے بعد مذہب اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ خود ریاست بن گیا۔“۔ میدان بدر میں آنے والے قریشی لشکر کی حالت یہ تھی کہ وہ اکڑتا ہوا اور لوگوں کو نمائش کرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ بدر میں لگنے والے میلے میں لوگ ہماری قوت دیکھیں گے تو پورے عرب پر ہمارا رعب طاری ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کریم نے جنگ بدر میں کفار مکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔اور فرزندان توحید کو شاندار نصرت عطا فرمائی۔الحمداللہ رب العالمین۔اللہ کریم ہم سبکو ہدایت نصیب فرمائے اور نبی کریم ﷺ کی سچی پکی محبت اور اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر اور آپکی آل پاک رضوان اللہ علیھم اجمعین پر اور آپ ﷺ کے اصحاب پاک رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین پر۔ آمین ثم آمین۔

نوٹ: اس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول ترجمہ قرآنی آیت یا حدیث یا تاریخی حوالاجات،معنی،املاء، لفظی یا پرنٹنگ کی غلطی پر اللہ کریم کے ہاں معافی کا طلبگار ہوں، اور اگر کسی مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا اعتراض یا غلطی نظر آئے تو براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی ضرور فرمادیجئے گا۔ و اللہ تعالیٰ اعلم

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.