رمضان المبارک کا اول عشرہ رحمت ،درمیانی حصہ مغفرت اور
آخری جہنم سے خلاصی کا ہے۔ رحمت کے بعد مغفرت اور آخر میں جہنم سے خلاصی
کی ترتیب میں بھی ایک خاص حکمت ہے۔ اس ماہ کی ابتداء میں روزکے دوران بندۂ
مومن کو کھانے ، پینے اور ازدواجی تعلق سے رک جاتا ہے۔ عام دنوں میں تو
پیاس لگی نہیں کہ گٹا گٹ پانی پی لیا اور بھوک بغیر بھی چاہے نہ چاہے کھانا
کھا لیا لیکن روزے میں تشنگی حلق کانٹا کردےتب بھی پانی ممنوع۔اب پتہ چلتا
ہے کہ پانی راحت و سکون دینے والی کین عظیم نعمت ہے کہ اس کےبغیر جینا محال
ہے ۔ یہی حال بھوک کا ہے کہ طبیعت نڈھال ہے مگر کھانا نہیں کھاسکتے اب
معلوم ہوتا ہے کہ غذا کیسی نعمت خداوندی ہے لیکن اس کو نہ صرف بے دریغ
استعمال کیا جاتا ہے بلکہ بڑی لاپرواہی سے ہم اسے ضائع بھی کردیتے ہیں ۔
روزے سے زیادہ اکل و شرب کی اہمیت کا احساس کسی اور عبادت سے نہیں ہوتا اور
نہ اس قدر جذبۂ شکر پیدا ہوتا ہے۔
کھانے پینے سے بڑی ضرورت سانس لینے کی ہے۔سانس روک لینے پر۴ منٹ میں دماغ
کام کرنا بند کردیتا ہے اور پھر۵ منٹ میں موت ہوسکتی ہے۔امایل ماہِ رمضان
کے اندر اللہ تعالیٰ نے کورونا کے ذریعہ ہوا میں آکسیجن کی اہمیت کا بھی
احساس دلا دیا ۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ اسے کسی شئے کی قدروقیمت کا پتہ
اسی وقتہوتا ہے جب اس کا ملنا مشکل ہوجائے یاوہ چھن جائے۔ انسان آکسیجن کا
استعمال دن رات بغیر سوچے سمجھے کرتا رہتا ہے کیونکہ وہ اس کی حاجت کے
مطابق وافر مقدار میں آس پاس مہیا کردی گئی ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے: ’’بیشک
ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہے‘‘۔ عام طور پر سانس
کے لیے ہوا میں ۲۱ فیصد آکسیجن کافی ہے ۔ اسی اندازے کے مطابق اس کا
اہتمام ہے۔ یہ چونکہ امیر و غریب سبکی ضرورت ہے اس لیے مفت دست رس میں ہے
مگر کیف کو اس پر اپنے خالق و مالک کا شکر بجا لانے کی توفیق نہیں ہوتی ۔
عام دنوں میں بہت کم مریضوں کواضافی آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے جس کو بہ
آسانی پورا کرلیا جاتا ہے لیکن اگر کیو وباء کے سبب وہ کم پڑ جائے تو
آکسیجن کی کالابازاری بلکہ لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے ۔ کورونا نے آکسیجن کو
اس قدر اہم بنا دیا کہ اسے پردیس سے ہوائی جہاز کے ذریعہ منگوانے کی نوبت
آن پڑی ۔
ارشادِ ربانیہے : ’’ وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے گہوارہ بنایا‘‘ ۔
خالق کائنات نے زمین پرحسبِ ضرورت سامانِ زیست مہیا فرما دیا لیکن نافرمان
بندے اس کی قدر دانی نہیں کرتے۔ رمضان کے روزے اللہ کی بیش بہا رحمتوں کی
قدرو منزلت بتاتے ہیں ۔شجررب کائنات کی ایک نعمتہے۔ مدھیہ پردیش میں
2ساگوان کے پیڑ کاٹنے والےشخص پر ایک کروڈ 21 لاکھ کا جرمانہ اس لیے لگایا
گیاکہ ایک درخت اپنی 50 سالہ عمر میں تقریباً 12 لاکھ کی آکسیجن پیداکرتا
ہے۔ ہوائی کثافت کی صفائی سے 24 لاکھ بچاتا ہےنیز20 لاکھ کی زمینی زرخیزی
بڑھاتا اور4لاکھ کا پانی روکتا ہے۔ارشادِ ربانی ہے:’’ زمین کو اس نے سب
مخلوقات کے لیے بنایا۔اس میں ہر طرح کے بکثرت لذیذ پھل ہیں کھجور کے درخت
ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ طرح طرح کے غلے ہیں جن میں بھوسا
بھی ہوتا ہے اور دانہ بھی ۔ پس اے جن و انس، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو
جھٹلاؤ گے؟
رمضان کےپہلے عشرے میں جب جذبہ ٔ احسانمندی بام عروج پر پہنچ جاتا ہے تو
مونین کو اس کی ناقدری کا احساس ہوتا ہے۔ وہ یاد کرتا ہے کہ اس نے کس طرح
ان کو ضائع کیا۔ ان نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے کون کون سے ناجائز ذرائع
استعمال کیے؟ کس کس کی حق تلفی کی ؟ اس طرح رمضان کے دوسرے عشرے میں ندامت
کا احساس اس کو توبہ و استغفار کی جانب راغب کرتا ہے۔ اس دوران اسے ادراک
ہونے لگتا ہے کہ رمضان جیسی عظیم نعمت کا دوتہائی حصہ تیزی کے ساتھ گزر گیا
اور پتہ بھی نہیں چلا ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح رمضان کی رخصتی سے قبل
اپنے آپ کو جہنم سے بچالے ۔ یہی فکر اس کو شب قدر کی تلاش میں منہمک
کردیتی ہے اور آخری عشرہ جہنم سے خلاصی کی تگ و دو کے لیے خاص ہو جاتا ہے۔
موت کے ماحول میں نہ اگلے رمضان کی گارنٹی اور نہ اس کا پورا کرنا یقینی
ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا یقین اس رمضان کا سب سے انمول تحفہ ہے۔ |