عید کا دن رمضان المبارک کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے
انعامات پانے کا دن ہے، امت مسلمہ میں اس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت
حاصل ہے۔ عید کا لفظ ”عود“ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ”لَوٹنا“ کے ہیں، یعنی
عید ہر سال لَوٹتی ہے، اس کے لَوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ اور ”فطر“
کے معنیٰ ”روزہ توڑنے یا ختم کرنے“ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں
کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو عبادات رمضان کا
ثواب عطا فرماتے ہیں، تو اِسی مناسبت سے اسے ”عید الفطر“ قرار دیا گیا۔ سنن
ابو داؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور
تہوار مناتے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے دریافت فرمایا’’ یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی
حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ ہم عہدِ جاہلیت میں (یعنی
اسلام سے پہلے) یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سُن کر نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالٰی نے تمہارے ان دونوں
تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں،یوم عیدالاضحٰی
اور یوم عیدالفطر۔‘‘
ہمیں اسلام نے عید الفطر کی خوشیاں عطافرمائیں تو ان خوشیوں کو اسی طرح
منانا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کے یہ لمحات
گزارے۔ احادیث کی روشنی میں عید الفطر کے ان اعمال کو ترتیب وار ذکر کیا
جاتا ہے، تاکہ ہر مسلمان ان کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر ادا
کرے، اس لئے کہ ان میں سے اکثر کام عام مسلمان کرتا ہے لیکن ذہن میں قطعاً
یہ نہیں ہوتا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
عید کے دن صبح جلدی بیدار ہونا۔
مسواک کرنا۔غسل کرنا۔ حضرت خالد بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ عیدالفطر، یوم النحر اور یوم عرفہ کو
غسل فرمایا کرتے تھے۔)عمدہ کپڑے پہننا جو پاس موجود ہوں۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم عید کے دن خوبصورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کبھی سبز و سرخ دھاری دار چادر اوڑھتے یہ چادر یمن کی ہوتی
جسے بُرد یمانی کہا جاتا ہے۔(از مدارج النبوہ)
عید کے دن زیب و زینت اور شریعت کے موافق آرائش کرنا مستحب ہے۔عید گاہ جانے
سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ
تھی کہ عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے
ان کی تعداد طاق ہوتی تھی یعنی تین، پانچ، سات۔ (صحیح بخاری) ۔۔عیدگاہ جانے
سے قبل کھجوروں سے افطار کرنا: عیدالفطرکے آداب میں سے ہے کہ عیدگاہ جانے
سے قبل چند کھجوریں کھالی جائیں،سیدنا انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہوئے بتاتے
ہیں کہ رسول اللہ عیدالفطر کے دن کھجور کھائے بغیر عیدگاہ کیلئے نہیں نکلتے
تھے (بخاری ) ۔۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی کے دن نماز سے واپس
آنے سے پہلے کچھ نہ کھاتے، عید کی نماز پڑھ کر قربانی کر لیتے پھر قربانی
کے گوشت میں سے کچھ تناول فرماتے۔ (بحوالہ جامع ترمذی، ابن ماجہ، مدارج
النبوۃ)
عیدین کیلئے آراستہ ہونا: سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بتاتے ہیں کہ سیدنا عمر ؓ
نے ریشم کا ایک جبہ فروخت ہوتے دیکھا ۔ انہوں نے اسے خریدااور رسول اللہ کے
پاس لیکر گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ()! ایسا جبہ خرید لیجئے، عید پر
اسے پہن کر آراستہ ہویئے گا۔ وفود کی آمد پر بھی اسے زیب تن کیجئے گا۔ رسول
اللہ نے یہ سن کر فرمایا:یہ ایسے لوگوں کا لباس ہے جو اخلاق سے کورے ہوتے
ہیں(بخاری )۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ عید پر آراستہ ہونے کے قائل تھے البتہ ریشم
کی وجہ سے جبہ کے سودے کو ناپسند فرمایا۔
سیدنا جابرؓبتاتے ہیں کہ نبی کریم عیدالفطر ،عیدالاضحی اور جمعہ کے روز جبہ
پہنا کرتے تھے۔ بیہقی میں صحیح روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ عید
پر بہترین کپڑے زیب تن کیا کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ انسان کو عید کے دن
بہترین کپڑے بھی پہننے چاہئیں ۔
عید گاہ جانے سے قبل صدقہ فطر دے دیناچاہیے ۔سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکہ معظّمہ کے گلی کوچوں میں
اعلان کر دو، ’’صد قہ فطْر واجب ہے۔‘‘ ( تِرمذی)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
سید دو عالم نے صدقہِ فطْرمقرر فرمایا تاکہ فضول اور بے ہودہ کلام سے روزوں
کی طَہارت (یعنی صفائی) ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورش (یعنی خوراک)بھی
ہوجائے۔ (ابوداؤد)
اسی طرح حضرت سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم فرماتے ہیں : جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا، بندے کا روزہ
زمین و آسمان کے درمیان معلق (یعنی لٹکا ہوا ) رہتاہے۔ (الفردوس بالماثور)
صدقہ فطر ہر مسلمان عاقل، مردو عورت پر واجب ہے جب کہ وہ زکوٰۃ کے نصاب کا
مالک ہو چاہے اس مال پر سال نہ گزرا ہو۔ اپنی طرف سے اپنے نابالغ بچوں کی
طرف جو زیر کفالت ہیں ان کی طرف سے فطرہ ادا کرنا ۔ صدقہ فطْر ادا کرنے کا
افضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے
پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رمضان المبارک کے کسی بھی دن
بلکہ رمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا
اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔
اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ
ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔(از فتاویٰ عالمگیری).
اسی طرح صدقہ فطر کی مقدار کا تعین بھی کیا گیا ہے
گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان
کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار
کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے۔
(عالمگیری) ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے
کہ: صاع کا وزن تین سو اکاون (351) روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک175.5 سو
پچھتر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہار شریعت ج1) ۔۔ اس وقت پاکستان میں مفتی
اعظم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے مطابق گندم کے حساب سے صدقہ فطر کی رقم 140
روپے فی کس جبکہ جو کے حساب سے 320 روپے فی کس مقرر کی گئی ہے۔
کھجور کے حساب سے صدقہ فطر کی رقم 960 روپے فی کس اور کشمش کے حساب سے 1920
روپے فی کس مقرر کی گئی ہے۔ پنیر سے 3450 روپے ہے۔
جو لوگ روزہ نہیں رکھ سکتے ، وہ تیس روزوں کا فدیہ چکی کا آٹا 8400 روپے
،جو 19200 روپے ، کھجور 57600روپے ، کشمش 115200روپے ادا کریں۔۔ بعد ازاں
لازمی امور میں سے عید گاہ جلدی جانا۔
عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت
مبارکہ تھی کہ نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم و صحیح
بخاری) جیسا کہ ایک مرتبہ عید کے روز بارش ہو رہی تھی تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)۔رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس راستہ سے عیدگاہ تشریف لے جاتے اس سے واپس
تشریف نہ لاتے، بلکہ دوسرے راستہ سے تشریف لاتے۔ (بخاری، ترمذی) ۔عیدگاہ
ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا: سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ
سے روایت ہے کہ رسول کریم عید کے دن ، عیدگاہ آنے جانے کیلئے الگ الگ راستے
کا انتخاب کیا کرتے تھے(بخاری)۔
اس کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ قیامت کے دن، دونوں راستے ان کی آمد و شدکی
گواہی دینگے۔۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ تک پیدل تشریف لے جاتے۔ (سنن ابن ماجہ
ترمذی) اس پر عمل کرنا سنت ہے بعض علماء نے مستحب کہا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید الفطر میں تاخیر فرماتے اور نماز
عیدالاضحی کو جلد ادا فرماتے۔ (مشکوٰۃ باب صلوٰۃ) عیدالفطر میں راستہ میں
چلتے وقت آہستہ تکبیر کہنا مسنون ہے۔
حضرت سیدُنا عبدُ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں یہ بھی ہے :
جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تواِسے ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘
یعنی ’’انعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے
تواللہ کریم اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ
فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں
اور اِس طرح ندا دیتے ہیں : ’’اے امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رب
کریم کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ
معاف فرمانے والا ہے‘‘ ۔ پھراللہ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے
میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس (نماز
عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں
گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر
فرماؤں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری
عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ
پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم !میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں
(یعنی مجرموں ) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا
فتہ لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘
(الترغیب والترہیب جلد2)
جب تعلیمات یہ تھیں تو پھر اس پر عمل کیسے کر کے دکھایا گیا وہ بھی ملاحظہ
فرمائیں ۔
حضرتِ علامہ مولانا عبد المصطفٰی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عید
کے دِن چند حضرات مکانِ عالی شان پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیر
المومنین حضرت سیدنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ دروازہ بند کرکے
زارو قطار رو رہے ہیں ۔ لوگوں نے حیران ہوکر عرض کی: یاامیرالمومنین !آج تو
عید ہے جو کہ خوشی منانے کا دِن ہے ، خوشی کی جگہ یہ رونا کیسا؟آپ رضی اللہ
تعالٰی عنہ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا: یہ عید کا دِن بھی ہے اور وعید کا
دن بھی ۔ جس کے نماز و روزے مقبول ہوگئے بلا شبہ اُس کے لئے آج عید کا دن
ہے،لیکن جس کے نَمازو روزے رد کر کے اُس کے منہ پر ماردیئے گئے اس کیلئے تو
آج وعید کا دن ہے اور میں تواِس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ! مجھے یہ معلوم
نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کردیا گیا ہوں ۔ (نورانی تقریریں).
|