صدقِ ابراہیم و ہجرتِ ابراہیم

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 42 تا 50 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذ
قال لابیہ
یٰابت لم تعبد
مالا یسمع ولا یبصر
ولا یغنی عنک شیئا 42
یٰابت انی قد جاءنی من العلم
مالم یاتک فاتبعنی اھدک صراطا سویا
43 یٰابت لاتعبدالشیطٰن ان الشیطٰن کان للرحمٰن
عصیا 44 یٰابت انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمٰن
فتکون للشیطٰن ولیا 45 قال اراغب انت عن اٰلھتی یٰابرٰھیم
لئن لم تنتہ لارجمنک وھجرنی ملیا 46 قالا سلٰم علیک ساستغفر
لک ربی انہ کان بی حفیا 47 واعتزلکم وما تدعون من دون اللہ وادعواربی
عسٰی الّا اکون بدعاء ربی شقیا 48 فلما اعتزلھم ومایعبدون من دون اللہ و ھبنالہ
اسحٰق ویعقوب وکلا جعلنا نبیا 49 ووھبنالہم من رحمتنا وجعلنالہم لسان صدق علیا 50
انسانی تاریخ کا وہ لَمحہ بھی یقیناً ایک ناقابلِ فراموش لَمحہ تھا جب ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ پُوچھا تھا کہ آپ اپنے ہاتھوں سے بناۓ ہوۓ اپنے اُن اَندھے ، بہرے اور بے جان بتوں کی اتباع کیوں کرتے ہیں جو نہ تو آپ کی کوئی بات سُن سکتے ہیں ، نہ ہی آپ کے کسی عمل کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کوئی نفع یا نُقصام پُہنچا سکتے ہیں اور پھر ابراہیم نے اپنے باپ کو یہ بھی باور کرایا تھا کہ میرے پاس اللہ کی طرف سے ایک ایسا علم میں آیا ھے جو آپ کے پاس نہیں آیا ھے ، اگر آپ میرے اُس علم کی بات سُنیں گے تو میں آپ کو بھی وہ سیدھا راستہ دکھادں گا کہ جو انسان کو رحمان تک پُہنچادیتا ھے لیکن رحمان کے اِس سیدھے راستے پر چلنے کی پہلی شرط یہ ھے کہ آپ پہلے شیطان کا ٹیڑھا راستہ چھوڑ کر رحمان کے سیدھے راستے پر آجائیں اور پھر عُمر بھر اسی سیدھے راستے پر سیدھے چلتے رہیں ، میں آپ کو اِس راستے کی دعوت اَس لیۓ دے رہاہوں کہ مُجھے اِس بات کا خوف ستاۓ جا رہا ھے کہ آپ شیطان کے راستے پر چلتے ہوۓ کہیں رحمان کی نافرمانی کے جُرم میں کسی سزا سے دوچار نہ ہو جائیں اور رحمان کی اُس سزا کے بعد شیطان کے رفیقِ راہ بن کر رحمان کی رحمت سے محرُوم نہ ہو جائیں لیکن ابراہیم کے باپ نے جب ابراہیم سے یہ سب کُچھ سُن لیا تو وہ بولا کہ تُم میرے معبودوں سے مُنحرف ہو کر میرے نافرمان بن چکے ہو اور اگر تُم اِس نافرمانی پر ڈٹے رہو گے تو میں تُم کو سَنگسار کردوں گا ، تُمہارے حق میں یہی بہتر ھے کہ تُم ہمیشہ کے لیۓ مُجھ سے دُور ہو جاؤ اور ابراہیم نے باپ کا یہ فیصلہ سُن کر کہا ٹھیک ھے میں جا رہا ہوں لیکن میں آپ کے اعترافِ ایمان اور سلامتیِ جان کے لیۓ اپنے مہربان رَب سے مہربانی کی دُعا کرتا رہوں گا ، میں آپ کو آپ کے اُن بتوں کے ساتھ چھوڑ کر جارہاہوں لیکن میں اِس اُمید پر آپ کی ھدایت کے لیۓ اپنے رَب کو پُکارتا رہوں گا کہ وہ مُجھے اپنی رحمت سے محرُوم نہیں کرے گا ، پھر جب وہ یہ کہہ کر اپنے بُت پرست خاندان سے اَلگ ہو گیا تو ھم نے اُس کو اُس کو اسحاق و یعقوب کی صورت میں وہ نبوت بردار اَولاد دی جس نے اُس کی وراثت کی پاسداری کی اور ھم نے بھی اُس کو اپنی رحمت سے اپنی زمین پر ایک سَچی اور سُچی نام وری عطا کی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
صدقِ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اٰیاتِ بالا سے پہلی ایک اٰیت اور اُس ایک اٰیت کے بعد آنے والی اِن نو اٰیات کا یہ عشرہِ کاملہ قُرآنِ کریم کا ایک باقاعدہ علمی نظریہ Scientific Thesis ھے اور قُرآنِ کریم نے اپنے اِس علمی نظریۓ کی پہلی اٰیت میں یہ اَمر واضح کیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے صدق کا جو جوہر عطا فرمایا تھا وہ صدقِ عام کا وہ عام سا جوہر نہیں تھا جو اللہ تعالٰی نے ہر انسان کی فطرت میں ایک فطری جوہر بنا کر رکھا ہوا ھے بلکہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے صدق کا جو خاص جوہرِ عطا فرمایا تھا وہ صدق کے اُس عام فطری جوہر سے کہیں زیادہ بہتر و برتر جوہر تھا جو اللہ تعالٰی نے ہر انسان کی فطرت میں رکھا ہوا ھے اور اَب موجُودہ اٰیات میں یہ بتایا اور سمجھایا جا رہا ھے کہ انسانی زندگی میں اظہارِ صدق کے کُچھ مراحل تو قدرے آسان ہوتے ہیں لیکن کُچھ مراحل دُشوار ہوتے ہیں اور کُچھ مراحل دُشوار سے دُشوار تر بھی ہوتے ہیں اور ھمارے نبی ابراہیم کے سامنے جب صدق کا وہ دُشوار تر مرحلہ آیاتھا تو وہ اِس دُشوار تر مرحلے سے بھی بہت آسانی کے ساتھ گزر گیا تھا ، انسانی تجربہ اور انسانی مُشاھدہ اِس اَمر کا گواہ ھے کہ ایک ولد کا والد کم زور ہو یا شہ زور ہو اَولاد کے اَولا ہونے کے حوالے سے اَولاد پر والد کا جو دَبدبہ ہوتا ھے وہ دَبدبہ اَولاد سے والد کے سامنے کُچھ کہنے کا حوصلہ چھین لیتا ھے لیکن قُرآنِ کریم بتاتا ھے کہ ابراہیم علیہ السلام پر جب اپنے والد کے سامنے اظہارِ صدق کا یہ دُشوار مرحلہ آیا تھا تو وہ دلیلِ حق کے زور پر انتہائی آسانی کے ساتھ اِس مرحلے سے گزر گۓ تھے ، اُنہوں نے اِس مُشکل مرحلے میں اپنے والد سے پُورے ادب اور پُورے احترام کے ساتھ پُوچھا تھا کہ آپ پَتھر اور گارے سے بناۓ ہوۓ اپنے اُن بتوں کی پُوجا کیوں کرتے ہیں آپ کے جو بے کان بُت اُن کانوں سے محرُوم ہیں جن کانوں سے کسی بولنے والے کی کوئی بات سُنی جاتی ھے ، آپ کے جو بے زبان بُت اُس زبان بھی محرُوم ہیں جس زبان سے کسی بولنے والے کی کسی بات کا جواب دیا جاتا ھے ، آپ کے جو اَندھے بُت اُن آنکھوں سے بھی محرُوم ہیں جن آنکھوں سے کسی انسان کے کسی اَچھے یا بُرے عمل کو دیکھا جاتا ھے ، آپ کے جو بے اختیار بُت کسی انسان کے کسی اَچھے عمل پر کسی انسان کی حوصلہ اَفزائی نہیں کر سکتے اور آپ کے جو بے اعتبار بُت جو کسی انسان کو اُس کے بُرے عمل کی اَنجام دہی پر روک بھی نہیں سکتے تو پھر سوال یہ ھے کہ اگر آپ کے جو بے بصارت بُت کسی کو دیکھ بھی نہیں سکتے اور آپ کے جو بے جان بُت کسی کو کوئی نفع یا نقصان بھی نہیں پُہنچا سکتے تو پھر آپ اُن کے کس قول اور کس عمل کی اتباع کرتے ہیں ، کس طرح اتباع کرتے ہیں اور کس دلیل سے اتباع کرتے ہیں کیونکہ اتباع کا لازمی تقاضا یہ ھے کہ وہ آپ کو کوئی حُکم دیں اور آپ اُن کے اُس حُکم کی اتباع کریں یا وہ کوئی عمل کریں اور آپ اُن کے اُس عمل کو دیکھ کر اُن کے اُس عمل کی اتباع کریں لیکن وہ تو اِن کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کرتے اور آپ اُن کے سامنے جو سجدہ ریزی کرتے ہیں وہ سجدہ ریزی ایک بے مقصد عمل ھے اور اِن ساری بے مقصد باتوں سے جو ثابت ہوتا ھے وہ یہ ھے کہ آپ کے اور آپ کے اُن بتوں کے درمیان ھدایت کا کوئی رشتہ نہیں ھے بلکہ حماقت ہی کا ایک رشتہ ھے جو یکطرفہ طور پر آپ نے شروع کیا ہوا ھے اور یکطرفہ طور پر ہی آپ اُس کو جاری رکھے ہوۓ ہیں ، اِس کے برعکس میرے پاس میرے رَب کی طرف سے وہ علم آیا ھے جو آپ کے پاس نہیں آیا ، اِس لیۓ اگر میری بات سنیں اور میں اپنے اُس خُداد علم کے مطابق آپ کو ایک ایسا سیدھا راستہ دکھاؤں جو آپ کو اُس رَب تک لے جاۓ جو رَب سب انسانوں کے سب اعمال کو دیکھتا ھے اور جو رَب سب انسانوں کے سب اقوال کو سُنتا ھے اور جو رَب سب حاجت مندوں کی سب حاجت کو پُورا کرتا ھے لیکن ابراہیم علیہ السلام کے باپ نے ابراہیم علیہ السلام کی یہ باتیں سُن کر ابراہیم علیہ السلام کو سَنگسار کرنے کی دھمکی دی اور پھر ابراہیم علیہ السلام سے اپنا ہر رشتہ توڑتے ہوۓ ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر سے نکل جانے کا حُکم بھی دے دیا اور ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو دُعاۓ خیر دیتے ہوۓ اپنے گھر سے رُخصت ہو گۓ ، اِن اٰیات کے اِن مُختصر مطالب و مقاصد کو ہر انسان اپنے علمی ذوق کے مطابق مزید بہتر طور پر سمجھ سکتا ھے اور ہر انسان اپنی عملی لگن کے مطابق اِن کے ایک ایک عملی پہلُو پر عمل بھی کر سکتا ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558241 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More