کتابِ مُبین اور مکانیتِ جَنت و زَمین !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 51 تا 58
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذکر فی
الکتٰب موسٰی
انہ کان مخلصا و
کان رسولا نبیا 51 و
نادینٰہ من جانب الطور
الایمن وقربنٰہ نجیا 52 و
وھبنالہ من رحمتنا اخاہ ھارون
نبیا 53 واذکر فی الکتٰب اسمٰعیل
انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا
54 وکان یامر اھلہ بالصلٰوة والزکٰوة وکان
عند ربہ مرضیا 55 واذکر فی الکتٰب ادریس انہ
کان صدیقا نبیا 56 ورفعنٰہ مکانا علیا 57 اولٰئک الذین
انعم اللہ علیہم من النبیٖن من ذریة اٰدم وممن حملنا مع نوح
ومن ذریة ابراھیم وسرائیل وممن ھدینا واجتبینا اذاتتلٰی علیھم
اٰیٰت الرحمٰن خرواسجدا و بکیا 58
اے ھمارے کریم النفس ھادی ، ھمارے یقیں آفریں عبد اور ھمارے صادق الوعد
رسُول ! ذکرِ زکریا و یحیٰ ، ذکر مریم و مسیح اور ذکرِ ابراھیم خلیل کے بعد
اَب آپ اِس کتاب میں ھمارے اُس مُخلص نبی اور مُخلص رسُول مُوسٰی کا ذکر
بھی کردیں جس کو ھم نے وادیِ طُور کی دائیں جانب سے اپنی ایک رازدارانہ
آواز سُنا کر اپنے قریب کیا تھا اور پھر ھم نے اُس پر اپنی یہ مہربانی بھی
کی تھی کہ اُس کے بھائی ھارُون کو اپنا نبی اور اُس کا نائب بنا دیا تھا ،
ھمارے اِن نبیوں کے بعد اِس کتاب میں آپ ھمارے اُس صادق الوعد نبی اور صادق
الوعد رسُول اسماعیل کا ذکر بھی کریں جو اپنی اتباع کرنے والوں کو اللہ
تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کرنے اور زمین کے وسائل اہلِ زمین میں
تقسیم کرنے کی تلقین کیا کرتا تھا ، پھر ھمارے اِن اَنبیاء و رُسل کے بعد
آپ ھمارے اُس سَچے نبی ادریس کا بھی ذکر کردیں جس کو ھم نے اپنے جہان کی
ایک بلند مکانیت کا مُتمکن بنا دیا تھا ، ھمارے یہ سارے انعام یافتہ نبی
اور سارے ہی انعام یافتہ رسُول اَولادِ اٰدم کے اُن اَفراد کی نسل میں پیدا
ہوۓ تھے جو نُوح کے ساتھ سفینہِ نُوح میں سوار ہو کر زندہ بچے تھے اور پھر
نسلِ ابراہیم و اسرائیل کی صورت میں پروان چڑھے تھے اور ھم نے اِن ہی
انسانی نسلوں سے اپنی نبوت و رسالت کے لیۓ اِس بنا پر اِن کا انتخاب کیا
تھا کہ جب اُن کو اللہ کی اٰیات سُنائی جاتی تھیں تو یہ اللہ کی اٰیات
سُنتے ہی آبدیدہ و سر خمیدہ ہو جایا کرتے تھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اللہ تعالٰی نے انسان کی ھدایت کے لیۓ جب جب اپنے جس جس نبی اور جس جس
رسُول کو اپنی جس جس زمین کے لیۓ مُنتخب اور مامُور کیا ھے اپنے اُس نبی
اور اُس رسُول کو سب سے پہلے اُس کے وصفِ انسانیت کے حوالے سے شرفِ انسانیت
کے اُس اَعلٰی و اَرفع مقام پر فائز کیا ھے جس اَعلٰی و اَرفع مقام پر فائز
ہونے کے بعد وہ نبی اور وہ رسُول دیگر اہلِ زمین سے جتنا مُحترم و مُمتاز
رہا ھے اُس کا اَعلٰی اَخلاق اور اُس کی اَعلٰی عادات بھی دیگر اہلِ زمین
سے اتنی ہی مُحترم و مُمتاز رہی ہیں اور اللہ تعالٰی کے ہر ایک نبی اور ہر
ایک رسُول نے اپنی اُن ہی محترم و مُمتاز عادات کے مطابق اپنا اپنا کارِ
نبوت و رسالت اَنجام دیا ھے اور اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے اپنے جن
چند نبیوں اور رسُولوں کا ذکر کیا اُن اٰیات میں اُن نبیوں اور رسُولوں کی
اُن نمایاں عادات کا ذکر کیا ھے جن نمایاں عادات کے مطابق اُنہوں نے اپنے
اپنے دور کے اپنے اپنے حالات کے تحت اپنا اپنا کارِ نبوت و رسالت اَنجام
دیا ھے ، اگر اِس نقطہِ نظر سے اِس سُورت کی گزشتہ اٰیات پر ایک سر سری سی
نگاہ ہی ڈال لی جاۓ تو اِس بات کا بخوبی اَنداز ہو جاۓ گا کہ زکریا و یحیٰی
نبی کے اپنے اپنے زمانی و مکانی حالات اور اپنی اپنی بشری و انسانی عادات
تھیں جن حالات و عادات کے مطابق اُنہوں نے اپنے اپنے زمان و مکان میں اپنا
اپنا فریضہِ نبوت و رسالت اَنجام دیا ھے ، ابراہیم و مسیح نبی کے اپنے اپنے
زمانی و مکانی حالات اور اپنی اپنی بشری و انسانی عادات تھیں جن کے تحت
اُنہوں نے اپنے اپنے زمان و مکان میں اپنا اپنا فریضہِ نبوت و رسالت اَنجام
دیا ھے ، مُوسٰی و ھارُون نبی کے اپنے اپنے زمانی و مکانی حالات اور اپنی
اپنی بشری و انسانی عادات تھیں جن کے تحت اُنہوں نے اپنے اپنے زمان و مکان
میں اپنا اپنا فریضہِ نبوت و رسالت اَنجام دیا ھے اور اسماعیل و ادریس نبی
کے بھی اپنے اپنے زمانی و مکانی حالات اور اپنی اپنی بشری و انسانی عادات
تھیں جن کے تحت انہوں نے اپنے اپنے زمان و مکان میں اپنا اپنا فریضہِ نبوت
و رسالت اَنجام دیا ھے ، زمان و مکان کے اِن خاص حالات اور بشری و انسانی
عادات کے اِس خاص حوالے سے اٰیات بالا میں جن اَنبیاء و رُسل میں ادریس
علیہ السلام کا پہلی بار ذکر ہوا ھے اور "رفعنا" کے اُسی خاص حوالے کے ساتھ
ذکر ہوا ھے"رفعنا" کے جس خاص حوالے سے سُورةُالنساء کی اٰیت 157 میں عیسٰی
علیہ السلام کا ذکر ہوا ھے اِس لیۓ عیسٰی علیہ السلام سے پہلے کُچھ لوگوں
نے ادریس علیہ السلام کے رَفعِ آسمانی کا اعتقاد قائم کیا ہوا تھا اور
ادریس علیہ السلام کے بعد کُچھ لوگوں نے عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں بھی
رفعِ آسمانی کا یہی اعتقاد قائم کیا ہوا ھے لیکن قُرآنِ کریم کا اُسلوبِ
کلام یہ ھے کہ اِس کلام میں وہی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں جو انسانی
زبان و بیان کی معروف اصطلاحات ہوتی ہیں اور اُن اصطلاحات کا جو معروف فہم
ہوتا ھے اور اِس معروف انسانی فہم کے مطابق انسان کی معروف مکانیت وہی ھے
جس مکانیت میں انسان رہتا ھے اور جس مکانیت کو انسان جانتا ھے ، انسانی فہم
کی اِس جانی پہچانی مکانیت کے مطابق مسیح و ادریس کا جو رفع ہوا ھے وہ اسی
معروف مکانیت میں ہوا ھے جس معروف مکانیت کو انسان اپنے فہم سے جانتا ھے
اور قُرآنِ کریم کی واضح اٰیات کی رُو سے انسان کی اِس جانی پہچانی مکانیت
کے علاوہ جو اَن دیکھی اور اَن جانی مکانیت ھے وہ صرف جنت و اہلِ جنت کی
مکانیت ھے اور جو انسان زمین کی اِس مکانیت سے نکل کر جنت کی اُس مکانیت
میں جاتا ھے وہ انسان کی اِس زمینی مکانیت میں کبھی بھی واپس نہیں آتا ھے
!!
|
|