ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم مئی یوم مزدور کے طور پر
منایا جارہا ہے، لیکن انتہائی غیر معمولی حالات میں جب کہ کورونا وائرس کی
وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن کی تیسری لہر انتہائی خطرناک چل رہی ہے اور اس سے
سب سے زیادہ مزدور طبقہ متاثر ہواہے، ایک اندازے کے مطابق کم و بیش چھ
کروڑمزدورانفارمل سیکٹر میں ہیں
جیسے منڈی ، بازار، کھیت، تعمیرات، فشریز، کان کن، گھریلوں ہنرمند، ہوٹلوں
، دوکانوں میں کام کرنے والے پرائیویٹ دفاتر میں کام کرنے والے کلرک چپڑاسی
گارڈ اور بھٹہ مزدوروں پر ملک کے لیبر قوانین اور سماجی تحفظ کے قوانین کا
اطلاق نہیں ہوتا،
نا انکی سوشل سیکیورٹی اور نا اولڈ ایج بینیفٹ کی رجسٹریشن ہوتی ہے انہیں
بیگارکیمپ جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور فارمل سیکٹر میں بھی ایک کروڑ
مزدور ٹھیکیداری نظام اور یومیہ اجرت کی وجہ سے لیبر قوانین اور سماجی تحفظ
کے قوانین کے دائرے سے باہر کردیئے گئے ہیں، اس طرح اس ملک کے تقریبا سات
کروڑ مزدور بیگار کیمپس میں ہیں، یہ پہلے ہی انتہائی کم تنخواہ پانے والے
تھے، اتنی کم کہ جس میں ایک ہفتہ کا راشن فراہم کرنا ممکن نہیں، خوراک کی
کمی کی وجہ سے خود یہ مزدور ہی نہیں ان کے بچے بھی جسمانی اور ذہنی طور پر
بہت کمزور صحت رکھتے ہیں یہی نہیں ہے ان کے بچے تعلیم سے محروم اور ان کے
مریض علاج سے محروم ہیں۔
شاعر مشرق مزدور کا احساس کرتے ہوئے فرماتے ہیں
"جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو "
صنعتی دور کی تاریخ کروڑوں محنت کش انسانوں کی محنت اور جدوجہد سے عبارت
ہے، لیکن اس اجتماعی سماجی محنت سے پیدا ہونے والی ساری دولت اور ترقی کے
ثمرات وسائل پر قابض چند افراد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
یہ کیپیٹلزم جیسے فرسودہ نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ غریب اور محنت کش کے گهر
کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا اور دوسری طرف امیر شہر کی میز پر تین وقت رنگا
رنگ کهانوں کا انبار نظر آتا ہے۔
محنت پر سرمائے کی بالادستی کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد صدیوں پر محیط ہے
اور اس میں سب سے نمایاں دن یکم مئی ہے، جو انسانی تاریخ میں محنت کی عظمت
اور جدوجہد کے استعارے کے طور پر ابھر ا ہے۔ آج سے 137 برس پہلے شکاگو میں
سرمائے کے جبر کے خلاف اٹھنے والی پر امن آواز کو طاقت کے زور پر خون میں
نہلا دیا گیا، لیکن خون میں لتھڑے اور پھانسی کے پھندے پر بہادری سے جھولتے
ہوئے محنت کشوں نے بغاوت کا ایسا علم بلند کیا جو ہر آنے والے دن تمام تر
نامساعد حالات کے باوجود محنت کشوں کی تحریک کو توانائی بخش رہا ہے۔
کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کارگاہوں میں سرمائے کی بھٹی
میں محنت جھونکنے والے کروڑوں محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی
بنیاد ہوتے ہوئے بھی زندگی کی تمام رعنائیوں سے محروم اور محکوم ہیں
انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے
بھرپور استعارے کا دن یکم مئی ہے۔ 1884 ء میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقہ کے
خلاف اُٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا
گیا۔ اپریل 1886 ء کو تمام مزدوروں نے امریکہ کے شہر شگاگو میں اکٹھے ہونے
کا فیصلہ کیا اس موقع پر تقریبا 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مزدور اس ہڑتال
میں شامل ہوئے۔ ہڑتال کو روکنے کے لیے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد
شہر میں بڑھا دی گئی۔
لیکن مزدور اپنی جگہ ڈٹے رہے اس ہڑتال کے دوران متعدد لوگ ہلاک اور زخمی
ہوئے لیکن مزدوروں کی یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی اور بالاآخر 1889 ء میں
ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890 ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا
اعلان کیا گیا۔ شکاگو کے سرکردہ مزدور راہ نماؤں اوگست اسپائس، البرٹ
پارسنز، اڈولف فشر، جارج اینجل، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور
اسکرنیب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں سب اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف
فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887 کو پھانسی دی گئی جب کہ مائیکل شواب
اور سیموئیل فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔
لوئس لنگ کی جیل میں وفات ہوگئی تھی۔ ان مزدور راہ نماؤں میں سے 2 کا
امریکا جب کہ باقی کا برطانیہ، آئر لینڈ اور جرمنی سے تعلق تھا۔ شکاگو کے
حاکموں نے اس واقعے کو محض ”ہے مارکیٹ کے بلوے“ کا نام دینا چاہا، مگر یہ
دن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ 1889 میں یکم مئی کو مزدوروں کے
عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا اور 1890 سے اس دن کو دُنیا بھر میں
منانے کا آغاز ہوا۔ اس فیصلہ کے بعد یہ دن ”عالمی یوم مزدور“ کے طور پر
منایا جانے لگا۔
مزدوروں کا عالمی دن کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں
میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے کروڑوں محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت
کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بُنیاد ہیں۔ آج بھی پوری دُنیا میں ٗمیں
محنت کش استحصال کا شکار ہیں۔ مزدوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد محنت کش
مزدوروں کی بحالی کے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہے مگر یہ بات شاید تپتی دھوپ اور
ٹھٹھرتی سردی میں اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے والے مزدور کو
نہیں پتہ کہ دُنیا آج انہی کا عالمی دن منا رہی ہے اور اسی دن بھی انہیں
آرام نہیں ہوتا۔
جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں
"ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات"
مزدوروں اور محنت کشوں کی ترقی کے بغیر نہ تو ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ
اس کے عوام خوشحال ہو سکتے ہیں۔ الجزائر میں 1962 سے یکم مئی کو عام تعطیل
کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مصر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ کافی عرصہ قبل مصر کے
صدر، یوم مئی کی تقریبات میں بطور خاص شرکت کرتے تھے۔
لیبیا میں کرنل قذافی کا تختہ الٹ جانے کے بعد 2012 میں اب اسے قومی دن کے
حوالے سے منایا جاتا ہے۔ نائیجریا میں اب یہ روایت بن چکی ہے کہ یکم مئی کو
نائیجریا لیبر کانگریس کے صدر، ورکرز سے خطاب کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں
1994 سے یوم مئی کو سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ تنزانیہ، تیونس، زمباوے
میں بھی اس روز تعطیل ہوتی ہے اور فلپائن میں یوم مئی 1930 سے ایک تہوار کے
طور پر منایا جاتا ہے، جب لوگ چھٹی کے روز ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے ہیں۔
کینیڈا میں لیبر ڈے ستمبر میں منایا جاتا ہے۔ 1894 میں حکومت نے ہر ستمبر
کے پہلے پیر کو کینیڈا کا سرکاری لیبر ڈے قرار دیا۔ امریکہ میں بھی یہی دن
مقرر ہے تاہم اس روز مختلف ریاستوں میں مزدور اور ورکرز جلسے جلوسوں کا
اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ چلی میں 1931 سے یوم مئی سرکاری طور پر منایا جاتا
ہے۔ کیوبا میں یوم مئی بہت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ اس روز ورکزر
سڑکوں پر مارچ کرتے ہیں۔ پاناما میں بھی اس دن کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس روز
کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیز تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ بھارت میں
سب سے پہلے یوم مئی مدارس (موجودہ چنائے ) میں یکم مئی 1923 کو منایا گیا۔
بھارت میں یہ پہلا موقع تھا جب سرخ جھنڈا لہرایا گیا۔ انڈونیشیا میں 2014
سے مئے ڈے، لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز ملک بھر کے مزدور
سڑکوں پر آکر اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔ ایران میں یہ دن انٹرنیشنل ورکرز
ڈے کے نام سے موسوم ہے۔
ایران میں سرکاری تعطیلات کا جو شیڈول مقرر ہے اس میں ورکرز کے لئے یہ دن
بھی شامل ہے۔ جاپان میں یوم مئی کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں لیکن یہ دیگر
قومی چھٹیوں کے درمیان آتا ہے اس لئے جاپانی ورکرز کی اکثریت اس روز چھٹی
کرتی ہے۔ یکم مئی جاپان کے ”گولڈن ویک“ میں آتا ہے جب کئی تعطیلات ہوتی
ہیں۔ ملائیشیا نے 1972 سے یوم مئی کو سرکاری تعطیل کے طور پر منانا شروع
کیا۔ پاکستان میں بھی یوم مئی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔
اس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور محنت کش اس روز ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا
کردار ادا کرنے کا عزم نو کرتے ہیں۔ فلپائن، سنگا پور، جنوبی کوریا میں بھی
اس روز عوامی تعطیل ہوتی ہے۔ فرانس میں یکم مئی کو پبلک ہالیڈے ہوتی ہے۔ اس
روز ٹریڈ یونینز بڑے شہروں میں تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں اس روز اپنے
ملنے جلنے والوں کو پھول بھی پیش کرتے ہیں۔
جرمنی میں اپریل 1933 میں حکومت نے یکم مئی کو ”ڈے آف نیشنل ورک“ قرار دیا
تھا اور اس روز چھٹی کا اعلان کیا تھا۔ جرمنی میں آج کل اسے صرف لیبر ڈے
کہا جاتا ہے۔ اٹلی میں 1890 سے لیبر ڈے منایا جارہا ہے۔ اس روز رنگا رنگ
تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ ناروے، پولینڈ اور پرتگال میں ورکرز ڈے کے طور
پر منایا جانے والا یہ دن اس لحاظ سے یادگار ہوتا ہے کہ محنت کش پورے ملک
میں پرامن ریلیاں نکالتے ہیں اور ایک جشن کا ساسماں ہوتا ہے۔
روس میں انقلاب سے پہلے یہ دن غیر قانونی طور پر منایا جاتا تھا تا آنکہ
1917 میں اسے پہلی بار قانونی حیثیت دی گئی۔ اس موقع پر ریڈ سکوائر میں
شاندار پریڈ ہوتی ہے۔ سویڈن، سوئٹرز لینڈ میں بھی یوم مئی پر تقریبات منعقد
ہوتی ہیں۔ سویڈن میں 1938 میں اسے پبلک ہالیڈے قرار دیا گیا۔ اس روز سٹاک
ہوم میں نصف لاکھ سے زائد افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔
ترکی میں بھی یوم مئی کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ 1981 میں یہ چھٹی منسوخ
کردی گئی تاہم 2010 میں اسے دوبارہ بحال کردیا گیا۔ برطانیہ میں 1978 سے
یوم مئی کی سرگرمیاں مئی کے پہلے پیر کو منائی جاتی ہیں۔ لندن میں، لندن مے
ڈے آرگنائزئنگ کمیٹی ان تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ وطن عزیز میں ابتداء
میں مزدوروں کی فلا ح و بہبود اور ٹریڈ یونین معاملات کنکرنٹ لسٹ میں درج
تھے۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں ان امور پر قانون سازی کرنے کی مجاز
تھیں۔
ھوٹے بڑے شہر میں بلدیاتی نظام قائم ہے، لیکن صفائی کے لئے عملے کی مطلوبہ
تعداد کہیں بھی نہیں ہے اور موجود بہت کم سینٹری ورکرز پر ساری آبادی کا
بوجھ ڈال دیا جاتاہے، اور نہ تو ان کی تنخواہوں کا کوئی اسٹرکچرہے ، نہ
انہیں حفاظتی لباس یا سامان مہیا کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی زندگیاں اور
صحت بچانے کا کوئی انتظام ہے یہ بے بس لوگ ظلم کا نظام بھگت ر ہے ہیں۔
ٹریٖڈ یونینز کے نمائندوں اور لیبر لیڈر شب کواس موقعے پر یوم خندق کو یاد
کرنا چاہیے ۔ مزدوروں اور کسانوں کے اندر اس شعور اور آگاہی کو پیدا کرکے
انہیں رسول ﷺکے انقلاب سے روشناس کرایا جائے تاکہ اس ظالمانہ سرمایہ داری
جاگیرداری نظام سے نجات مل سکے۔
جس خوبصورت انداز میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدور کی عزت
افزائی فرمائی اس کی نظیر نہیں ملتی
“الکاسب حبیب اللہ” ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدور اور محنت
کش کو انبیا اکرام اور اولیا اللہ کی صف میں کهڑا کر کے مزدور کو وہ مقام
دیا جو اہل ثروت کی سوچ سے بہت بلند ہے۔ جہاں ہم اپنے خاص لوگوں کے قصیدے
لکهتے نہیں تهکتے۔ آج اپنے مزدور بهائیوں کی شان میں چند سطریں بیان کرتے
ہیں۔
پاکستان کی اکثریت مسلمان طبقہ ہے تو اس سلسلہ میں کہنا چاہوں گا کہ غور
کیجیے گا کہ بحثیت مسلمان ہمیں ہمارا دین اس بارے کیا راہنمائی دیتا ہے؟
کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے اسلام کا تو مطالبہ ہے کہ مزدور کو اس کی جائز
اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ اس کا حق نہ کهاؤ، اس کو اپنے جیسا
لباس پہننے کو دو، اور اس کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کرو کیونکہ تمہارے
نوکروں کو تمہارے ماتحت کر کے اللہ پاک تمہارا امتحان لے رہا ہے۔ اگر اسلام
یہ کہتا ہے تو ہم کس حد تک اس پر عمل پیرا ہیں؟ عبادات، صوم و صلواتہ سے
باہر معاملات کی حدود میں ہم کتنے سچے مسلمان ہیں؟ اللہ ہمارے ساتھ بهلائی
کا معاملہ کرے اور ہمیں اپنے بتائے ہوئے رستے پر چلائے۔ آمین
|