پاکستان معیاری کرونا ویکسین تیار کرسکتا ہے ۔ تاخیر کیوں؟

چاہے کوئی بھی ملک ہو وہاں کی حکومت پر فرض ہے کہ وہ صحت عامہ کو درپیش خطرات کی روک تھام اور ضرورت مندوں کی طبی نگہداشت کے لیے ضروری اقدامات کرے،کرونا وائرس نے پوری دنیا میں صحت کے نظام کو بری طرح سے ہلاکررکھ دیاہے آج کئی ممالک ایسے بھی ہیں جو ابھی تک کرونا وائرس سے لڑرہے ہیں اور کئی ممالک ایسے بھی ہیں جو اس وبا کے ہوتے ہوئے بھی سرخرو ہیں ،ہمیں دیگر ممالک کے کرونا بحران کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے لاک ڈاؤن کرونا کی اسپائیک میں تاخیر کر سکتا ہے لیکن مسئلے کا حل نہیں ہے اس کا حل جنگی بنیادوں پر کرنا ہوگا اور وہ بھی ویکسین لگا کرکیونکہ لاک ڈاؤن سے ملک اور عوام کے لیئے مسائل پیدا ہوتے ہیں ہمیں اپنے قریب سے قریب ترہونے والی مشکل کے لیئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ، ہمیں آکسیجن کی پیداوار میں جنگی بنیادوں پر کئی گنا اضافہ کرنا ہوگا، وبائی مرض کرونا کے ان سالوں میں سب سے کامیاب قوم وہ رہی ہے جس نے زیادہ سے زیادہ اپنے لوگوں کو ویکسین دی اور پھر معیشت کو کھول دیا اور یہ ایک کلیدی بات ہے، اس سلسلے میں جس قدر جلدی ہم ویکسینیشن کے عمل کو سرانجام دیتے ہیں اتنا ہی ہمارے ملک کے لئے بہترہوگا،ہندوستان میں کرونا کی بگڑی ہوئی صورتحال اپنی جگہ مگر ہندوستان میں عوام کے لیئے مزید ویکسین تیار کرنے کے لئے دانشورانہ املاک، خام مال اور ٹیکنالوجی میں منتقلی میں نرمی مل رہی ہے وہ خودسے ویکیسن کی تیاری کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ وہاں وہ اپنی عوام کو اپنی تیار کردہ اور بغیر کسی لمبے عرصے کہ ویکسین کے انتظار میں بروقت ویکسین لگا سکے ،کرونا کے معاملے میں دکھ بھی ایک ہے اوردردبھی پھر کرونا سے نبرزآزما ممالک کی نسبت ہمار ا مقصد ایک جیسا ہونا چاہیے، ہمیں پاکستان میں بہترین امریکی ویکسین تیار کرنے کے لیئے جتنی بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہو کرنی چاہیے، ہمیں ابھی اور مستقبل کے لیئے ویکیسن تیار کرنے کے لیئے ٹیکنالوجی استعمال کرنی ہوگی، ہم نے یکھا کہ جو ممالک کرونا سے نکل گئے ہیں ان کی اکانومی کھل گئی ہے جیسے ازرائیل ہے وہاں پر ماسک کوئی نہیں پہنتا ہے کیونکہ پچاس فیصد آبادی کو ویکسین لگ گئی ہے امریکہ میں سب کچھ کھلا ہوا ہے سب کچھ نارمل ہو گیا ہے کیونکہ انہوں نے تیس فیصد آبادی کو ویکسین لگا دی ہے، نیوزی لینڈ ، ناروے میں اکثریت کو ویکسین لگا دی گئی ہے، یہ وہ ہی ممالک تھے جہاں آئے روزہزاروں لوگ کرونا کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے تھے جہاں موت کے خوف نے اپنے پنجے بری طرح سے گاڑ رکھے تھے ، ان ممالک نے ویکیسینیشن کے عمل کو اپنایا اور کامیاب رہے کرونا کا حل صرف یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اکثریت کو ویکیسن لگا دی جائے، لاک ڈاؤن کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کم لوگوں میں پھیلے اور کم سے کم جانی نقصان ہو، زیادہ لوگ ایک ساتھ آتے ہیں ہسپتال میں تو ڈاکٹرز، آکسیجن، نرسز سمیت تمام سہولیات کا فقدان ہوجاتا ہے اس پر زیادہ رش اور ضرورت پڑنے پر ویکیسن بھی کم ہوجاتی ہے، اینٹی بائیوٹک کی بھی کمی ہوجاتی ہے لاک ڈاؤن سے یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا رش نہیں لگتا اور ایک ساتھ بہت سارے لوگ ہسپتالوں میں نہیں آتے ، لاک ڈاؤن کا مطلب آپ کرونا کو آہستہ آہستہ آگے لیکر چلتے ہیں اور آہستہ آگے بڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے مستقبل کے لیئے تیاری کرنی ہے اور تیاری یہی ہے کہ آپ نے ویکیسن اپنی بنا لینی ہے اور ویکیسن لگا بھی لینی ہے، سننے میں آیا ہے کہ برطانیہ میں اس وقت سائنس دان ایک ایسی عالمگیر ویکیسن کی تیاری میں مصروف ہے جو کروناکی تمام اقسام کے خلاف موثر ثابت ہوسکے ، ان ساری باتوں اور مثالوں اور دلائل کو دینے کا مقصد جب پورا ہوتا ہے جب ہم اپنے ملک میں خود ویکسین کی تیاری میں لگ جائیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ویکیسن بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے ، پاکستان میں اس وقت سائنوویکسین لگائی جارہی ہے جو صرف پچاس فیصد سے زائد پراثر کرتی ہے جبکہ انڈیا بہت عرصے ویکسین خود بنارہاہے اور ہم لوگ ویکسین امپورٹ کرتے ہیں ، اب ہمیں چاہیے کہ ویکسین بنانا سیکھ جائیں اور اپنی ویکسین بنائیں اور یہ ہمارے مستقبل میں بھی کام آئے گی بچوں کو ویکسین دینی ہوتی ہے کیونکہ معاملہ صرف ایک ویکسین یا ڈوز لگنے کا نہیں ہے صرف ایک بچے کو پانچ سے چھ ویکسین لگتی ہیں اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم لوگ کب تک ویکسین امپورٹ کرتے رہینگے ، وقت بہت کم ہے ہمیں ویکسین بنانے کے عمل پر تیزی سے کام کرنا ہوگا کیونکہ یہ ہی وقت کی اہم ضرورت ہے، خطرناک بات یہ ہے کہ کروناوائرس کی تقسیم ہوتی جارہی ہے دن بدن اس کے متغیرات خطرناک اور مختلف قسموں میں سامنے آتے جارہے ہیں برطانیہ کا وائرس، برازیل،ساؤتھ افریقہ، انڈیاسے کرونا وائرس کی مختلف اقسام سامنے آچکے ہیں،سب سے زیادہ تیزی سے برطانیہ والا وائرس پھیلتا ہے جو پہلے سے ہی پاکستان میں آچکا ہے، ملک کے زیادہ تر بڑے شہروں میں ٹیسٹ کی پوزیٹیویٹی ریٹ دس فیصد سے زیاد ہے اور انڈیا میں بھی زیادہ تر شہروں میں دس فیصد سے زیادہ سے ہے ایوریج دس فیصد جو ہے یہ وہی ایمرجنسی ہے جو انڈیا میں ہے جبکہ پاکستان میں کچھ شہر تو ایسے بھی ہیں جیسے حیدرآباد میں 23فیصد ہے ایسے بھی کچھ شہر ہیں جن میں شرح 30فیصد تک بھی ہے برٹس ویرینٹ وائرس پاکستان میں موجود ہے جو انڈیا کے وائرس سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، اور یہ وائرس کسی ایک ملک کے اندر نہیں رہتے، یہ نکلتا ایک شہر سے ہے اور مہینوں کے اندر دنیا بھرمیں پہنچ جاتا ہے کیونکہ ہمار ا سپلائیر چین ایسا ہے کہ ہر شہراس کے ساتھ منسلک ہے دوسرے شہروں سے ، تو آج جو چیز انڈیا کے اندر ہے وہ کل پاکستان میں ہوسکتی ہے وہ امریکہ میں آچکی ہے جو برطانیہ میں ہے وہ پہلے سے ہی پاکستان میں آچکی ہے یہ بھی جلد ی پوری دنیا میں پھیل جائیگا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیئے بھی بہت ضروری ہے کہ آبادی کی اکثریت کو کرونا ویکسین لگی ہوئی ہو،ایک بات تو طے ہے کہ کرونا کہیں نہیں جانے ولا یہ ایک حقیقت بن چکاہے لہذا کرونا سے ہر آدمی کو لڑنے کے لیئے اپنے اندر کے نظام دفاع کو مضبوط کرنا ہوگا چاہے وہ کرونا ہونے کے بعد کرے یا اس سے پہلے کر لے،اس سارے پروسیجر میں ویکیسن کا کام یہ ہے کہ کرونا اگر ہو بھی جائے تو متاثرہ شخص کو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور آکسیجن اور ایڈمٹ ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس کے اندر کا نظام دفاع مظبوط بنیادوں پر اس قابل ہوجاتاہے کہ وہ بغیر آکسیجن کے اس وبا سے لڑسکے جس کے لیے ضروری ہے کہ ویکسی نیشن ہر صورت میں کروانی ہے جب پچاس فیصد آبادی کو ویکیسن لگ جائے گا تو پھر نارمل طور پر زندگی گزاری جا سکتی ہے ، خوش آئند بات یہ ہے کہ کرونا کے حوالے سے ان دنوں چینی ماہرین کی ٹیم اسلام آباد میں موجود ہے،اور کہا یہ جار ہاہے کہ قومی ادارہ صحت کی جانب سے اورکین سائنو ویکسین کا خام مال بھی مئی کے آغاز میں اسلام آباد پہچنے کی خبریں موصول ہورہی ہیں، جیسا کہ اوپر کی تحریر میں زکر کیا جاچکاہے کہ چینی ویکسین کے ساتھ ہمیں پاکستان میں بہترین امریکی ویکسین تیار کرنے کے لیئے جتنی بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہو کرنی چاہیے اور اﷲ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس وسائل بھی ہیں اور ہمت بھی ،لہذا ہمیں پاکستان میں امریکی ساختہ موڈرینا کرونا ویکسین سمیت اور بھی بہترین کورنا ویکسین بنانے کی کوشش کرنی چاہے اگر حکومت فارماسیوٹیکل کمپنیز کو ویکسین بنانے کے لیئے کوئی ایسا پیکج دے دیں جیسے دس سال کے لئے ٹیکس میں رعایت دے دیں تو فوری طور پر تمام کمپنیز پاکستان آجائیں گی اور ویکیسن بنانا شروع کردیں گی نا صرف انسانوں کے لیئے بلکہ جانورو ں کو لگانے والی ویکسین بھی بننا شروع ہو جائیں گی مرغیوں کو لگنے والی ویکیسن جو ہم امپورٹ کرتے ہیں وہ بھی نہیں کرنی پڑیگی بلکہ پاکستان ویکسین ایکسپورٹ کرنے والا ملک بن جائیگا تو ہمیں یہ کام کرنا چاہیے کہ بہترین پیکج دینے چاہیے فارماسیوٹیکل کمپنیز کو تا کہ وہ لوگ ویکیسن بنانا شروع کردیں، روس نے بھی اپنے ماہرین کی جانب سے تیار کردہ ویکسین سپوتنک پنجم کوویڈ19پر پوردنیا کو خوشخبری سنائی ہے روس کے معروف سائنسدان ڈینس لوگوف نے کہاہے کہ روسی ساختہ ویکسین 97.6فیصد تک موثر ویکسین ہے ،مختلف ممالک اور ان کی کمپنیوں کی جانب سے کروناوائرس سے بچاؤ کی ویکسین نے امید پیدا کی ہے کہ اب دنیا اس عالمی وبا سے موثر انداز میں نمٹ سکتی ہے ،لہذا ایک بہترین اور موثر ویکسین کی تیاری کے لیے ہمیں بھی اب اس میدان میں اتر جانا چاہیے ،جو کہ زندگی اور معاشی پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے ایک بہترین تجویز ہے ۔ختم شد
آرٹیکل : حنید لاکھانی
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Hunaid Lakhani
About the Author: Hunaid Lakhani Read More Articles by Hunaid Lakhani: 12 Articles with 6427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.