عربی رسم الخط ، ایک ایسا وسیع نظامِ کتابت ہے جو ایشا
اور افریقا کی کئی زبانیں لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خط نسخ جسے
عرفِ عام میں عربی خط بھی کہا جاتاہے، کسی زمانے میں اُردو زبان کے لیے بھی
رائج رہا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اُردو زبان پر عربی زبان کے بہت اثرات
ہیں او راُردو کے حروفِ تہجی بھی عربی کے حروف ِ تہجی سے زیادہ مختلف نہیں۔
خط نسخ نویں صدی ہجری میں ، خلیفہ المقدور بااﷲ کے وزیر ابن ِ مقالہ نے
ایجاد کیا تھا۔اس خط کا یہ نام ’’نسخ ‘‘ اس لیے تجویز ہوا کہ یہ سابقہ خطوط
کا ناسخ بنا۔
چودھویں صدی عیسوی میں ایران کے ایک مشہور خطاط میر علی تبریزی نے خط نسخ
اور خط تعلیق کے امتزاج سے ایک خوب صورت رسم الخط ’’ نستعلیق ‘‘ متعارف
کرایا۔پندرھویں صدی میں اس خط نے ایران میں خوب شہرت پائی ۔ بر ِ صغیر میں
مغلیہ سلطنت نے فارسی کو عدالتی زبان کے طور پر رائج کیا۔اس دوران میں خط
نستعلیق پورے بر صغیر میں مقبول ہوگیا۔نہ صرف فارسی بلکہ اُردو، پشتو،
پنجابی، سرائیکی، بلوچی وغیرہ بھی اسی رسم الخط میں لکھی جانے لگیں۔ عربی
رسم الخط میں نستعلیق سب سے زیادہ استعمال ہونے والا خط ہے۔
دنیا بھر میں خط نستعلیق سب سے زیادہ بر صغیر پاک و ہند میں مستعمل
ہے۔نستعلیق کی ٹائپنگ کے لیے طبعہ نویس (ٹائپ رائٹر) بنانے کی پہلی کوشش
فورٹ ولیم کالج نے کی لیکن اصل نستعلیق سے ذرا مختلف ہونے کے باعث رواج نہ
پا سکا اور صرف کالج کے کتب خانے میں ، اپنی کتابیں شائع کرنے کے لیے
استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد ریاست حیدر آباد دکن میں نستعلیقی طبعہ نویس
بنانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ تجربہ بھی کامیاب نہ رہا۔جس کے نتیجے میں یہ
سوچ لیا گیا کہ تجارتی یا کار وباری مقاصد کے لیے نستعلیقی طبعہ کی تیاری
نا ممکن ہے، کیوں کہ نستعلیقی طبعہ کی تیاری کے لیے دھات کے ہزاروں ٹکڑوں
کی ضرورت پڑتی ہے۔ ۱
دیوانِ غالب نسخہ عرشی جس دور میں منظر عام پر آیا، اُس دور میں اُردو زبان
کے لیے نستعلیق بطور رسم الخط رائج ہو ئے ایک زمانہ بیت چکا تھا، لیکن
مولانا امتیاز علی عرشی نے پھر بھی اسے خط ِنسخ میں ہی شائع کروانا پسند
کیا۔ وجہ شاید یہ ہو کہ انھیں عربی سے بہت لگاؤ تھا اور عربی کی تحریر میں
آج بھی زیاد ہ تر خط نسخ سے کام لیا جاتا ہے۔نسخہ عرشی سے پیش تر بہت سی
کتابیں نستعلیق میں شائع ہوئیں۔نسخہ عرشی کی دوسری اشاعت اور اس کے بعد اسی
دوسری اشاعت کا عکس،اگلی اشاعتوں کے لیے استعمال ہوتا رہا اور آج بھی مجلس
ترقیِ ادب سے شائع ہونے والا نسخہ عرشی خط نسخ میں ہی دستیاب ہے۔
مولانا عرشی کی تدوین کے شاہکار کو کسی نے آج تک نستعلیق خط میں تبدیل کرنے
کی زحمت گوارا نہیں کی۔ آج کی نئی نسل ، جو کہ خط نستعلیق کو دیکھنے اور
پڑھنے کی عادی ہو چکی ہے، اس کے لیے خط نسخ میں کسی کتاب کو پڑھنا تو دور
کی بات، دیکھ کر ہی ’’مشکل ‘‘ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔کلاسیکی ادب کی بہت
سی بلند پایہ کتب نستعلیق خط میں نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل ، حتیٰ کہ
اُردو ادب کے طالب علم پڑھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔دیو ان ِغالب نسخہ
عرشی بھی ان اہم اور بلند پایہ کتب میں سے ایک ہے جسے پڑھنا آسان نہیں۔ اس
کتاب کو پڑھنے کے لیے رسم الخط سے لگاؤ کے ساتھ ساتھ ایک خاص سلیقے کی
ضرورت بھی ہے۔
نسخہ عرشی کو خط نستعلیق میں منتقل کرنے میں شاید کچھ ایسی ممکنہ مشکلات در
پیش ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے یہ آج تک نسخ میں موجود ہے۔مثال کے طور پر
ایک تو یہ کہ اس کا مسودہ ضخیم ہے۔یہ کام کوئی چند دنوں کا نہیں ہے ۔بہت
محنت طلب اور نہایت توجہ طلب بھی ہے۔نئے سرے سے اُردو میں کمپوزنگ اور پھر
اسے غلطیوں سے پاک کرنے کے لیے کئی بار کی پروف خوانی ایک اہم تقاضا ہے۔
دوم یہ کہ جو کوئی بھی اس مشکل کام کا بیڑا اُٹھائے گا، اُس سے یہ تقاضا
بھی کیا جائے گا کہ غالب کے قلم زد کلام کا وہ حصّہ جو مولانا عرشی کے نسخہ
کی کتابت کا کام مکمل ہونے کے بعد دریافت ہوا تھا اور اسے مولانا عرشی نے
دوسری اشاعت میں ’’ باد آورد‘‘ کے نام سے شامل کیا، اس حصّے کو نہایت
احتیاط کے ساتھ ، ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے سب سے پہلے حصّے’’ گنجینہ معنی
‘‘ میں شامل کیا جائے۔
دیوان غالب نسخہ عرشی کو نستعلیق خط میں منتقل کرنے میں اشاعتی ادارے کے
اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔ نسخہ عرشی خط نسخ میں رہے یا نستعلیق
میں منتقل ہو جائے، اس سے اس کی اہمیت میں کمی نہیں آسکتی البتہ بڑھ ضرور
سکتی ہے۔ خط نسخ سے قطع نظرمولانا عرشی کی تدوین کے اس کارنامے میں محل نظر
مقامات کے باوجود بے شمار خوبیاں موجود ہیں۔جن کا سرسری جائزہ حسبِ ذیل ہے۔
شعری متون کی تدوین کی اہمیت سب پر واضح ہے۔ تدوین نگاری کی روایت کو دیکھا
جائے تو تدوین کے بہت سے بہترین نمونے سامنے آ چکے ہیں۔ اس سلسلے میں حافظ
محود شیرانی، قاضی عبد الودود، امتیاز علی عرشی اور ذرا آگے بڑھیں تو رشید
حسن خاں اور خلیق انجم کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔شعری متون کی تدوین کے
اعتبار سے ’’ مولانا امتیاز علی عرشی ‘‘ کا نام سب سے ممتاز اور افضل مانا
جا سکتا ہے۔ امتیاز علی عرشی کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ’’ غالبیات‘‘
رہا ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہو کہ مولانا عرشی کو اُردو کے ساتھ ساتھ عربی
اور فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ اُردو میں تدوین متن کے جو بے مثال کام
نظر آتے ہیں۔ اِن میں نصف تعداد تو اُن کی ہے جنھیں مولانا عرشی کے مرتب
کیا۔ان کے نمایاں کارناموں میں ’’ مکاتیب ِ غالب، شعرا ے اُردو کا فارسی
تذکرہ، دستور الفصاحت اور دیوانِ غالب نسخہ عرشی‘‘ شامل ہیں۔غالب کے ساتھ
ان کی دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ ان کی تالیفات میں سب سے زیادہ کام غالب
کے حوالے سے موجود ہے۔ ۱۹۳۷ء میں مکاتیب غالب کی تدوین کی صورت میں اس دل
چسپی کا پہلا ثبوت دنیا کے سامنے آیا۔مکاتیب کی اشاعت کے اکیس سال بعد
انھوں نے دیوانِ غالب کی تدوین کا کام پیش کیا۔ اس دل چسپی کی مناسب سے اگر
مولانا عرشی کو غالب شناسی کا معلمِ اوّل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
تحقیق ِغالب میں جو قابلِ قدر اضافے مولانا عرشی نے کیے اور تحقیق و تدوین
کے جو میعارات انھوں نے پیش کیے وہ کسی اور غالب شناس کا مقدر نہیں بن
سکے۔۱۹۳۷ء سے ۱۹۵۸ء تک کے عرصے میں مولانا عرشی نے غالب کی سماجی اور ادبی
شخصیت کے کن کن گوشوں کی کیسی کیسی سیر کی ہے، اس کا اندازہ دیوان غالب میں
شامل حواشی سے لگایا جا سکتا ہے۔
’’دیوانِ غالب نسخہ عرشی‘‘ سے پہلے دو ایسی کاوشیں دکھائی دیتی ہیں جن میں
کلامِ غالب کو تاریخی ترتیب اور صحتِ متن کے ساتھ پیش کیا گیا۔غالب کا
متداول اور غیر متداول کلام مفتی محمد انوار الحق نے مرتب کیا۔ نسخہ حمیدیہ
میں متداول کلام کے علاوہ نسخہ بھوپال کا کلام بھی شامل ہے۔دیگر ماخذوں میں
شامل کلام بھی انھوں نے شامل کیا۔مطبع نظامی بدایونی کی طبع ثانی میں جو
اشعار ہیں، وہ بھی نسخہ حمیدیہ میں شامل کیے گئے ہیں۔ڈاکٹر عبدالطیف نے
تاریخی ترتیب سے کلام ِ غالب شائع کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو
سکے۔محمد اکرام نے غالب نامہ اور ارمغان ِغالب میں ایسا کرنا چاہا لیکن یہ
کام بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔مفتی انوار الحق کا کام بنیادی نوعیت
کاحامل ہے۔ اس وقت متداول کلام میں نسخہ بھوپال ہی میسر تھا۔
امتیاز علی عرشی نے نہ صرف نسخہ بھوپال کو سامنے رکھا بلکہ نسخہ شیرانی کے
کچھ عکس، اس کے علاوہ دوسرے ماخذ ، خطوط ، تذکرے، کتابیں، رسایل وغیرہ،جن
میں غالب کے انتخابات شامل ہیں،سے بھی استفادہ کیا۔یہ تمام تفصیل نسخہ عرشی
کے اشاریے میں موجود ہے۔نسخہ عرشی میں تدوین کے اصولوں کے لحاظ سے کئی محل
نظر مقامات ہیں۔مالک رام، مولانا عرشی کی ہی طرح غالب شناسوں میں شمار کیے
جاتے ہیں۔ وہ اپنے مضمون’’ مخطوطات‘‘ میں لکھتے ہیں: ۲
’’ غالب کا دیوان ان کی زندگی میں پانچ مرتبہ چھپا۔۱۸۴۰ء ، ۱۸۴۷ء ، ۱۸۶۱ء ،
۱۸۶۲ء
۱۸۶۳ء بادی النظر میں ۱۸۶۳ء کا نسخہ ان کی زندگی کا آخری متن ہے۔اور ہمیں
مندرجہ صدر اصول
کے مطابق اسی کو اپنے زیرِ ترتیب متن کے لیے اساس بنانا چاہیے۔لیکن یہ
مغالطہ ہے۔۱۸۶۳ء کا
نسخہ در اصل مبنی ہے ایک قلمی نسخے پر، جو غالب نے خود لکھوا کر، ۱۸۵۷ء میں
نواب یوسف علی خاں
والی ِرام پور کی خدمت میں پیش کیا تھا۔جب اس نسخے کی کتابت مکمل ہو گئی
تونواب ناظم کے پاس
بھیجنے سے پہلے انھوں نے اسے دیکھا،اور کہیں کہیں کوئی لفظی تبدیلی کر
دی۔یہ نسخہ کتاب خانہ رام پور
میں محفوظ رہا۔اور جب غالب ۱۸۶۰ء میں وہاں گئے تو نیّر ِ رخشاں کی فرمائش
پر ، وہ اُن کے لیے
اس کی نقل لیتے آئے۔یہی نسخہ بعد کو شیو نرائن رام نے اپنے مطبع مفید
الخلائق آگرہ میں چھاپ کر ،
۱۸۶۳ء میں شائع کیا۔پس اگرچہ اشاعتی ترتیب میں یہ نسخہ غالب کی زندگی میں
سب سے آخر میں
چھپا، متنی ترتیب میں یہ ۱۸۵۷ء میں رکھا جائے گا۔ ۱۸۵۷ء میں اس نسخے کی
کتابت کے وقت
غالب نے متن میں جو تبدیلیاں کی تھیں، اصولاً غالب کو چاہیے تھا ، کہ انھیں
اپنے کلام میں شامل کر
لیتے۔لیکن انھوں نے یہ نہیں کیا۔اس کے بعد دیوان مطبع احمدی ،دہلی سے ۱۸۶۱ء
میں چھپا۔ انھوں
نے اس نسخے کی کاپی خود دیکھی تھی، لیکن انھوں نے ۱۸۵۷ء والی تبدیلیاں اس
میں شامل نہیں کیں۔
پھر اسی مطبع احمدی والے مطبوعہ نسخے پر ، انھوں نے نظر ِ ثانی کی ،اس کی
اغلاط درست کیں اور اس
مسودے کو چھپنے کے لیے مطبع نظامی کان پور میں بھیج دیا۔یہ نسخہ ۱۸۶۲ء میں
شائع ہوا۔پس غالب
کی زندگی کا آخری نسخہ ۱۸۶۲ء کا ہے۔(نہ کہ آگرے والا، ۱۸۶۳ء کا مطبوعہ یا
اس کی اصل، ۱۸۵۷ء
والا خطی نسخہ)اگر آج ہم غالب کا دیون مرتب کرنا چاہیں،تو ہمیں اسی مطبع
نظامی کانپور والے نسخے کو
اساس قرار دینا ہو گا۔
میں نے اس پر نسبتہً تفصیل سے اس لیے بحث کی ہے، کیوں کہ مولانا امتیاز علی
خاں عرشی نے اپنے
مرتبہ دیوان ِ غالب (نسخہ عرشی) کی اساس۱۸۵۷ء کے قلمی نسخے کو قرار دیاہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ
۱۸۵۷ء والے نسخے کی تبدیلیاں(اصلاحیں)اتنی اہم ہیں ، کہ ہم اسے نیا نسخہ
قرار دینے میں حق
بجانب ہیں۔‘‘
دیوانِ غالب نسخہ عرشی کے اب تک تین ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔پہلا
ایڈیشن۱۹۵۸ء میں انجمن ِ ترقی اُردو ہند ، علی گڑھ سے شائع ہوا۔اس میں
مولانا عرشی نے تب تک کا معلوم کلام تاریخی تریب سے مرتب کیا۔نسخہ عرشی کی
طبع اوّل کے بعد غالب کو نو دریافت شدہ اور کچھ الحاقی کلام سامنے آیا،
لہٰذا نسخہ عرشی کو اس نو دریافت شدہ کلام کے تحت نئے سرے سے مرتب کیا
گیا۔ترمیم و اضافہ شدہ یہ ایڈیشن ۱۹۷۰ء کے قریب مرتب کر لیا گیا تھا۔مولانا
عرشی اسے اپنی نگرانی میں طبع بھی کروا چکے تھے۔طبع شدہ یہ مسودہ ان کے
انتقال کے بعد انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی سے شائع ہوا۔اس میں نہ صرف مقدمے
کے مباحث پھیلے بلکہ بنیادی اور ثانوی ماخد میں بھی بڑھ گئے اور نسخہ عرشی
زادہ اور نسخہ حمیدیہ کے اختلافِ نسخ کے لیے آخر میں ’’ استدراک ‘‘ کا بھی
اضافہ کیا گیا۔الحاقی کلام کو اس میں سے خارج کر دیا گیا۔مولانا عرشی کے
مرتبہ اس ترمیم واضافہ شدہ ایڈیشن میں غالب کے کل ۴۲۲۴ اشعار اور گیارہ
(۱۱) فرد مصرعے ہیں جب کہ پہلے ایڈیشن میں اشعار کی تعداد ۴۱۳۲ تھی اور ۹
فرد مصرعے ۔دوسرے ایڈیشن کے حصّہ’’ استدارک ‘‘ یا ’’ صحت نامہ ‘‘ میں
کروائے جانے والے حذف و اضافہ کے مطابق اشعار کی واقعی تعداد جو مرتب کی
تحقیق اور منشا کے مطابق ہے۔۴۲۱۷ اشعاراور ۷ فرد مصرعے۔
نسخہ عرشی کا تیسراایڈیشن ۱۹۹۲ء میں پہلی بار پاکستان سے مجلس ترقیِ ادب
لاہور سے شائع ہوا۔یہ دوسرے ایڈیشن کی عکسی اشاعت ہے۔ اس میں کسی قسم کی
ترمیم یا اضافہ نہیں کیا گیا۔دیوان غالب اُردو کے آج تک جتنے بھی نسخے شائع
ہو چکے ہیں ، ان میں نسخہ عرشی کو میعار کے لحاظ سے اولیت حاصل ہے۔ڈاکٹر
گیان چند جین ’’رموز ِ غالب ‘‘ میں نسخہ عرشی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں۔ ۳
’’ ۱۔غالب کا پورا کلام یکجا کرنا۔۲۔ اس کی تاریخی ترتیب۔۳۔ مختلف نسخوں
اور ایڈیشنوں کی مدد سے صحیح ترین متن
پیش کرنا۔۴۔بیش بہا معلومات پرمشتمل مقدمہ، حواشی اور اختلافِ نسخ۔آج جو
مجھ جیسے مبتدیان ِ غالبیات نسخہ ٔ رام پور
جدید ، نظامی ایڈیشن کانپورجیسی اصطلاحوں میں بات چیت کر سکے ہیں یہ نسخہ
عرشی ہی کا فیضان ہے ورنہ میں نے کب
ان نسخوں اور ایڈیشنوں کو دیکھا تھا۔مقدمے اور حواشی کے علاوہ اختلاف ِ نسخ
اہلِ تحقیق کی جنت ہیں۔‘‘
دیوانِ غالب نسخہ عرشی کے دوسرے ایڈیشن کو چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
۱۔ ’’ گنجینہ ٔ معنی ۲۔ نوائے سروش ۳۔ یاد گارِ نالہ ۴۔ باد آورد‘‘۔
’’گنجینہ معنی‘‘ کے تحت غالب کا قلم زد کلام رکھا گیا ہے۔۱۸۳۸ء میں غالب نے
بہت سا کلام دیوان میں سے خارج کر دیا تھا۔ ۱۸۴۱ء میں یہ شائع ہوا۔ اس سے
پہلے بہت سے مخطوطات تیار ہو چکے تھے۔۱۸۶۱ء میں بیاض غالب سامنے آئی۔ ۱۸۲۱ء
میں نسخہ بھوپال دریافت ہوا۔ گنجینہ معنی میں نسخہ بھوپال اور نسخہ شیرانی
کا قلم زد کلام موجود ہے۔ مولانا عرشی کا خیال یہ تھا کہ ایسا کلام جو قلم
زد ہوا ، اُسے آغاز میں ہونا چاہیے۔
’’ نوائے سروش‘‘ میں غالب کا متداول کلام ہے۔ وہ کلام جسے غالب نے خود
منتخب کیا اور شائع کروایا۔ تیسرے حصّے ’’ یاد گارِ نالہ ‘‘ میں متفرق
منظومات ہیں۔ جو کہ قلمی یا مطبوعہ نسخوں میں نہیں تھے بلکہ خطوط میں اگر
کوئی شعر موزوں ہو جاتا یا اخبار وغیرہ میں لکھ دیا، ایسے اشعار مولانا
عرشی نے تیسرے حصّے میں رکھے۔قطعات، قصیدے کے اشعار، رباعی وغیرہ۔
دوسرے ایڈیشن کی تیاری کے وقت جب ۱۹۶۹ء میں مسودہ تیار ہوا تو غالب۔ کی صد
سالہ برسی پر اپریل ۶۹ء میں امروہہ سے غالب کے ہاتھ کی لکھی بیاض دریافت
ہوئی۔امروہہ سے دریافت کی وجہ سے اسے نسخہ امروہہ بھی کہا گیا۔مولانا عرشی
کے بیٹے نے اسے ایڈٹ کر کے چھاپ دیا اور یہ نسخہ عرشی زادہ کہلایا۔اسی نسخے
کو نثار احمد فاروقی نے نسخہ لاہور کہا۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ بیاض جعلی
ہے۔ کمال احمد صدیقی نے اس کی جعل سازی ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔جب تک یہ
بیاض سامنے آئی تب تک چوں کہ نسخہ عرشی کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری مکمل ہو
چکی تھی،اس موقع پر بیاض میں سے بھی کلام کا منتخب کیا جانا ضروری تھا۔
ایسا کلام جو گنجینہ معنی کی ذیل میں شامل کیا جانا تھا اس میں سے وہ منتخب
کیا گیا۔لیکن گنجینہ معنی کے بجائے اسے ’’ باد آورد‘‘ میں رکھا گیا۔ کتابت
کا کام مکمل ہونے کی وجہ سے اسے پہلے حصے میں شامل کرنا ممکن نہیں تھا۔
تدوین کا تقاضا ہے کہ بنیادی ماخذ کی تفصیل اس طور دی جائے کہ اصل کی
محتاجی نہ رہے۔ مقدمے میں ایسی مروگزاشتیں ہیں جن کو ہینڈل کرنا سب سے پہلے
ضروری ہے۔ نسخہ بھوپال میں غالب کے دو قصائد شامل ہیں۔نسخوں کے تعارف میں
معروضیت نہیں ہے۔مقدمے کے یہ حصّے جن میں نسخوں کی تفصیلات درج ہیں،
سائنٹفک نہیں ہیں۔مولانا عرشی نے وضاحتیں تو دی ہیں لیکن خود ہی ان پر عمل
نہیں کر پائے۔املا کا میعار بھی ایک نہیں رکھ پائے۔املائی مختارات کو پیشِ
نظر رکھا گیا ہے اور مروج املا کو بھی۔
نسخہ عرشی میں املا کی دو رنگی نظر آتی ہے۔اس دو رنگی کی بظاہر کوئی ٹھوس
وجہ دکھائی نہیں دیتی۔اس سے املا نہ غالب کے زمانے کا قائم رہا نہ ہی
مروجہ۔ املائی مختارات قائم نہ رکھنے کی وجہ یہاں سہوِ مودن ہے۔رشید حسن
خاں نے اعتراض کیا کہ مولانا عرشی نے چھے مقامات پر ’’ مزہ ‘‘ لفظ ’’ ہ ‘‘
سے لکھا ہے اور باقی تمام جگہ ’’مزا ‘‘ الف سے۔ اسی طرح لفظ ’’ لا چار ‘‘
اور ’’ نا چار ‘‘ کا معاملہ ہے۔’’لاچار ‘‘ کو غالب نے غلط محض قرار دیا اور
’’ناچار ‘‘ کو زیادہ فصیح سمجھا۔
نسخہ عرشی میں غالب کے کلام کی تاریخی ترتیب ممکن نہیں ہو سکی۔اس کے علاوہ
بقول گیان چند جین ، اس کا عنوان ’’ دیوان‘‘ کے بجائے کلیات کا طلاق ہوتا
ہے۔اسے کلیات کہنے سے اس کی امتیازی خصوصیات وضع ہو جائیں گی۔تاریخی ترتیب
کی وجہ سے ردیف کا لحاظ ختم ہو جاتا ہے۔اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف
شاید اس لیے چلے گئے کہ یہ کام بہت وسیع اور تھا دینے والا تھا۔
’’دیوان ِ غالب نسخہ عرشی ‘‘ تدوین کی ایسی کتاب ہے جسے پڑھنے کے لیے خاص
طریقے اور سلیقے کی ضرورت ہے۔جب تک مدون کی دی گئی تفصیلات پیشِ نظر نہیں
رکھی جائیں گی، مشکلات پیش آتی رہیں گی۔نسخہ عرشی ،ایسی تمام تفاصیل کے
باوجود اُلجھن کا باعث بھی بنتا ہے۔نسخہ عرشی تدوین کا ایک شہکار ہے ۔
غالبیات پر ہونے والی تحقیق و تدوین میں سب سے معیاری کام نسخہ عرشی کا
ہے۔اس کے با وجود مسائل، مشکلات اور محل نظر واقعات اس قدر ہیں کہ اب بھی
دیوانِ غالب کی تدوین کسی اچھے مدون کی محتاج ہے۔
حوالہ جات
1. https://ur.wikipedia.org
۲۔مالک رام ’’ مخطوطات‘‘ مشمولہ ’’آزادی کے بعد دہلی میں اُردو تحقیق‘‘
مرتبہ ، ڈاکٹر تنویر علوی(نئی دہلی: اُردو اکادمی، ۱۹۹۰ء ) ص، ۳۲، ۳۳
۳۔ گیان چند جین ، ڈاکٹر، ’’ رموز ِ غالب ‘‘ ( نئی دہلی: مکتبہ جامعہ ،
۲۰۱۱ء ) ص ، ۳۱، ۳۲
ماخذ:
۱۔مالک رام ’’ مخطوطات‘‘ مشمولہ ’’آزادی کے بعد دہلی میں اُردو تحقیق‘‘
مرتبہ ، ڈاکٹر تنویر علوی ،نئی دہلی: اُردو اکادمی، ۱۹۹۰ء
۲۔ گیان چند جین ، ڈاکٹر، ’’ رموز ِ غالب ‘‘ نئی دہلی: مکتبہ جامعہ ، ۲۰۱۱ء
۳۔محمد سعید، ’’ دیوان ِ غالب نسخہ ٔ عرشی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘
مقالہ ایم۔فل،اسلام آباد: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ۲۰۰۴ء
۴۔عرشی، مولانا امتیازعلی، مرتبہ، دیوانِ غالب اُردو نسخہ ٔ عرشی،(طبع
ثانی)، دہلی: انجمن ترقی اُردو(ہند) ۱۹۸۲ء
|