قُرآن اور قانونِ شفاعتِ مُجرمین !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹🌹 |
|
#العلمAlil علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 77 تا 87 ازقلم مولانا اخترکاشمیری اٰیات و مفہومِ اٰیات
!! افرءیت الذی کفر باٰیٰتنا و قال لاوتین مالا وولدا 77 اطلع الغیب ام اتخذ عند الرحمٰن عھدا 78 کلّا سنکتب مایقول ونمدلہ من العذاب مدا 79 ونرثہ مایقول ویاتینا فردا 80 واتخذوا من دون اللہ اٰلھة لیکونوالہم عزا 81 کلّا سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیہم ضدا 82 الم تر انا ارسلناالشیٰطین علی الکٰفرین تؤزھم ازا 83 فلا تعجل علیہم انما نعدلہم عدا 84 یوم نحشرالمتقین الی الرحمٰن وفدا 85 ونسوق المجرمین الٰی جھنم وردا 86 لایملکون الشفاعة الّا من اتخذ عند الرحمٰن عھدا 87 اے ھمارے رسُول ! کیا آپ نے اُس شخص کی خود فریبی پر بھی کُچھ غور کیا ھے کہ جو ایک طرف تو ھماری اٰیات کا بھی کُھلم کُھلا انکار کرتا ھے اور دُوسری طرف اِس خوش فہمی میں مُبتلا رہتا ھے کہ ھم دُنیا کے بعد عُقبٰی میں بھی اُس کو مال و اَولاد کی یہی فروانی عطا کریں گے ، کیا اُس نے ھمارے عالَمِ غیب کا اَحوال دیکھ لیا ھے یا اُس نے اپنی اِس خواہش کی تَکمیل کے لیۓ رحمٰن کے ساتھ کوئی قول و قرار کیا ہوا ھے جس کی بنا پر وہ اِس تعلّی کا اظہار کر رہا ھے لیکن درحقیقت تو ایسا تو کُچھ بھی نہیں ھے اِس لیۓ ھم اُس کے اِس قسم کے اَقوال کو بھی اُس کے لکھے ہوۓ دیگر اَعمال کے ساتھ لکھ لیتے ہیں تاکہ جس وقت اُس کو دیگر اَعمال کی سزا دی جاۓ تو اُس سزا کے ساتھ اِن اَقوال کی سزا بھی دے دی جاۓ اور یہ شخص دُنیا میں دُنیا کے جس مال و اَسباب پر اتراتا پھر رہا ھے وہ مال و اَسباب تو ھمارا ھے جو ھمارے پاس رہ جاۓ گا اور اِس کو نَکو اور نہتا بنا کر ھمارے سامنے پیش کیا جاۓ گا ، اِس وقت اِن لوگوں نے دُنیا میں اپنے جو جعلی عالی جاہ و جعلی عالَم پناہ بنا رکھے ہیں اُس روز اِن کا کوئی عالی جاہ و عالَم پناہ اِن کا وکیلِ صفائی بن کر اِن کے ساتھ نہیں آۓ گا بلکہ اُس روز تو وہ سب کے سب اِن کے خلاف وکیلِ اِستغاثہ بن کر اِن کو سخت سے سخت سزا دلانے کے لیۓ بیتاب ہوں گے اور کیا آپ نے یہ صورتِ حال بھی نہیں دیکھی کہ قُرآن کے اِن سارے مُنکروں پر ھم نے اُن کے اپنے اپنے ہی شیطان مُسلّط کر رکھے ہیں جو ہر وقت اُن کو جہنم کے لیۓ اُکساتے اور جہنم کی طرف بڑھاتے رہتے ہیں اِس لیۓ آپ اِن کی سزا طلبی کا خیال دل سے نکال دیں کیونکہ یہ تو خود ہی تیزی کے ساتھ اپنی سزا کی طرف بڑھ رھے ہیں ، جب جزا و سزا کا وہ دن آۓ گا تو رحمٰن کی پناہ میں آۓ ہوۓ انسان رَحمٰن کے مہمان بن کر وہاں پر آئیں گے اور رحمٰن کے مُجرموں کو ھمارے اہل کار چوپایوں کی طرح ہانکتے ہوۓ جہنم کی طرف لے جائیں گے اور اُس دن کسی بھی انسان کے حق میں کسی بھی انسان کی شفاعت رحمٰن کی اجازت کے بغیر قبول نہیں کی جاۓ گی ! مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات
! شفاعتِ مُجرمین Recommendation of offenderers قُرآنِ کریم کا وہ وسیع الجہات Multi Direction مضمون ھے جس کو قُرآنِ کریم نے سُورةُالبقرة کی اٰیت 48 ، 123 ، 254 ، 255 ، سُورَةُالنساء کی اٰیت 85 ، سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 51 ، 70 ، 94 ، سُورةُالاعراف کی اٰیت 53 ، سُورَہِ یُونس کی اٰیت 3 ، 18 ، سُورَہِ مَریم کی اٰیت 78 ، سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 109 ، سُورةُالاَنبیاء کی اٰیت 28 ، سُورَہ یٰس کی اٰیت 23 ، سُورةُالرُوم کی اٰیت 13 ، سُورةالسجدة کی اٰیت 4 ، سورَہ سبا کی اٰیت 23 ، سُورةُالزُمر کی اٰیت 43 ، 44 ، سُورَہ غافر کی اٰیت 18 ، سُورةُالزخرف کی اٰیت 86 ، سُورةُالنجم کی اٰیت 26 اور سُورةُالفجر کی اٰیت کے 23 کے 24 مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے اور قُرآنِ کریم نے اِن 24 مقامات میں سے سُورةُالفجر کے اِس آخری مقام پر لَفظِ "شفع" کو لَفظِ "وتر" کے مقابلے میں لاکر شفع کا معٰی بھی مُتعین کردیا ھے کیونکہ علمُ الاَعداد کی رُو سے شفع سے مُراد وہ جُفت عدد ہوتا ھے جو قابلِ تقسیم ہوتا ھے اور وتر سے مُراد وہ طاق عدد ہوتا ھے جو ناقابلِ تقسیم ہوتا ھے اور شفع کی اِس تعریف و تقسیم کے لحاظ سے شفع کا طے شُدہ معنٰی کسی شئی کا عددی تقسیم میں برابر ہونا ھے اور قیامت کے روز حساب کا سارا دار و مدار ہی چونکہ حساب علی المیزان ھے اِس لیۓ شفع کا مفہوم قیامت کے روز انسان کے اعمال کا تول میں برابر آنا ، برابر ہونا اور یا برابر کیا جانا ھے ، وزنِ اعمال اور توازنِ اعمال کا یہ کام کس طرح کیا جاۓ گا اِس کے بارے میں اللہ تعالٰی کے سوا کوئی کُچھ بھی نہیں جانتا ، شفع کا ایک لُغوی معنٰی بلاشُبہ سفارش کرنا بھی ھے لیکن نفسِ سفارش کا ایک معنٰی کسی کا کسی کے حق میں کلمہِ خیر کہنا اور دُوسرا معنٰی کسی کا کسی کے کسی مُثبت یا مَنفی عمل میں شریکِ عمل ہوکر اُس کی عملی مدد کرنا ہوتا ھے ، اِس بارے میں اہلِ عرب کا ایک مشہور قول یہ ھے کہ { فلان یعادینی ولہ شافع } یعنی فلاں شخص مُجھ سے عداوت رکھتا ھے اور ایک دُوسرا شخحص میرے ساتھ ہونے والی اِس دُشمنی میں اُس کا مدد گار ھے ، سفارش کا یہ دُوسرا معنٰی مُسلم معاشرے کا ایک مقبولِ عام معنٰی ھے اور اِس مقبولِ عام معنی سے فائدہ اُٹھاتے ہوۓ اہلِ اسلام نے قیامت کے روز اپنی سفارش کے لیۓ اپنے بہت سے خیالی سفارش کار بھی بنا رکھے ہیں جنہوں نے اُن کی سفارش کرکے اُن کو جہنم سے بچانا ھے اور جنت میں پُہنچانا ھے ، علمی نقطہِ نظر کے اعتبار سے سفارش میں سب سے پہلے جن دو چزوں کا ہونا ضروری ھے اُن میں ایک چیز نفسِ سفارش اور دُوسری چیز جوازِ سفارش ھے اور سفارش میں اِن دو چیزوں کے بعد ایک حقیقت کے طور پر تو اُس فَرد کا ہونا ضروری ھے جس کو سفارش کی ضرورت ھے اور دُوسری حقیقت کے طور پر اُس فَرد کا ضروری ھے جس نے سفارش کرنی ھے اور تیسری حقیقت کے طور پر اُس مُعتبر ہستی کی اجازت سے اُس مُعتبر ہستی کے سامنے پیش ہو نے کا حوصلہ ہونا بھی ضروری ھے جس کے سامنے سفارش کی جانی ھے ، قُرآنِ کریم اصولِ مُطلق کے طور پر سفارش کی نفی نہیں کرتا لیکن قُرآنِ کریم قیامت کے حوالے سے سفارش کا یہ قانون ضرور فراہم کرتا ھے کہ قیامت کے روز سفارش کے جواز کا صرف اُس شخص پر اطلاق ہو گا جو دُنیا میں اللہ کی ذات پر ایمان لایا ہو ، اللہ کے پیدا کیۓ فرشتوں کے وجُود پر ایمان لایا ہو ، دُنیا میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان لایا ہو ، دُنیا میں اللہ کے مامُور کیۓ ہوۓ رسولوں پر ایمان لایا ہو اور قیامت کے اُس دن کے واقع ہونے پر بھی ایمان لایا ہو جس دن وہ سفارش کا طلب گار ھے ، جو شخص دُنیا میں ایمان کے اِس قانونی دائرے میں داخل ہوا ہوگا وہ عُقبٰی میں بھی سفارش کے اُس دائرے میں داخل ہوگا اور جو شخص دُنیا میں ایمان کے اِس دائرے سے باہر رھے گا وہ عُقبٰی میں بھی سفارش کے اُس دائرے سے باہر رھے گا ، سفارش کے بارے میں قُرآنِ کریم کا حتمی قانون یہ ھے کہ قیامت کے روز کسی انسان کے بارے میں جس انسان کو بذاتِ خود کسی انسان کی سفارش کا کرنے کا حق نہیں ہو گا بلکہ صرف اُسی انسان کو صرف اُسی انسان کی سفارش کا حق ہو گا جس انسان کو رحمٰن بذاتِ خود یہ حق دے گا اور قیامت کا دن چونکہ ایک قلیل زمان و مکان پر مُشتمل نہیں ہوگا بلکہ ایک طویل زمان و مکان پر مُشتمل ہو گا اِس لیۓ شفاعت و سفارش کا یہ مرحلہ شاید مُتعدد بار ہوگا یا شاید بار بار ہوگا لیکن جتنی بار بھی ہوگا اللہ کی حکمت کے تحت ہوگا اور اللہ کے حُکم کے تحت ہی ہوگا ، اٰیاتِ بالا میں شفاعت کے اِس مضمون کو اِس بنا پر لایا گیا ھے کہ اِس سُورت کی اٰیت 68 و 69 میں پہلے یہ مضمون بیان کیا گیا تھا کہ زمین کے جو انسان موت کے بعد ملنے والی زندگی پر یقیں نہیں رکھتے ھم اُن سب انسانوں اور اُن کے سب ساتھی شیطانوں کو جہنم کے اِرد گرد گھٹنوں کے بل گرا گرا کر جمع کریں گے اور پھر اِس مضمون کے بعد اسی مضمون کے بارے میں اٰیت 71 و 72 میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ جہنم کے اُس حلقے کے گردا گرد گھٹنوں کے بل گراۓ گۓ لوگوں میں سے جو لوگ کسی درجے میں خُدا خوفی رکھنے والے لوگ ہوں گے اُن لوگوں کو ھم بچا لیں گے اور دُوسرے تمام لوگوں کو اسی حال میں جہنم کے اُسی حلقے میں گھٹنوں کے بل پر پڑا ہوا رہنے دیں گے ، قُرآنِ کریم کے اُس مضمون سے یہ سوال سامنے آیا تھا کہ اُن جہنمی لوگوں کو جہنم کے باہر کیوں چھوڑا گیا ھے ، اگر وہ جہنمی ہیں تو اُن کو جہنم میں کیوں نہیں ڈالا گیا اور اگر ڈالا گیا ھے تو کب ڈالا گیا اور اِن میں سے جن لوگوں کو پہلے بچایا گیا ھے اُن کو کس حکمت اور طریقے سے بچایا گیا ھے ، یہاں پر پیدا ہونے والے اِس سوال کے جواب کے لیۓ عُلماۓ روایت نے حسبِ روایت اِن اٰیات سے پہلے یا بعد کی اٰیات کو دیکھے بغیر ہی اپنی بخاری شریف کی ایک روایت کے زور پر یہاں پر ایک پُل بنادیا ھے جو پُل صراط کے نام سے مشہور ھے اور جہنم پر بناۓ گۓ اُس جہنمی پُل کے لیۓ بخاری شریف کی یہ جہنمی روایت نقل کی گئی ھے کہ جہنم کے اُوپر ایک پُل بنایا جاۓ گا جس سے ہر مومن و کافر کو گزرنا ہو گا جس سے مومن تو پلک جَھپکتے ہی کُچھ بجلی اور ہوا کی طرح ، کُچھ پرندوں کی طرح ، کُچھ عُمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں کی طرح گزر جائیں گے ، جن میں سے کُچھ صحیح سالم رہ کر ، کُچھ زخمی ہوکر اُس پُل کو عبور کر لیں گے اور کُچھ جہنم میں گر جائیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے نکال لیا جاۓ گا لیکن کافر اِس پُل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور سب کے سب جہنم میں گر پڑیں گے ، لیکن ظاہر ھے کہ پہلی اٰیات میں جہنم کے کنارے پر پُہنچنے والے جن لوگوں کا ذکر ہوا ھے وہ اِس پُل سے پہلے اِس پُل کے بغیر ہی وہاں پُہنچے ہوۓ ہیں ، اِس لیۓ اِس پُل کا اُن لوگوں سے ، اُن لوگوں کا اِس پُل سے اور قُرآن کا اِس روایت سے کوئی تعلق نہیں ھے ، جہاں تک شفاعت کا تعلق ھے وہ طویل قیامت کے اُس طویل زمانے کے طویل زمانی وقفوں دوران اللہ کے حُکم سے جاری رھے گی ، کس طرح جاری رھے گی ، اِس کی تفصیلات کو اللہ تعالٰی کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا !! |