کلامِ رحمٰن اور زبانِ محمد علیہ السّلام !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
علمُ الکتاب ا ُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹🌹 |
|
#العلمAlilm علمُ،الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 88 تا 98
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قالوا
اتخذالرحمٰن
ولدا 88 لقد جئتم
شیئا ادا 89 تکاد السمٰوٰت
یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر
الجبال ھدا 90 ان دعواللرحمٰن ولدا 91 و
ما ینبغی للرحمٰن ان یتخذ ولدا 93 ان کل من فی
السمٰوٰت الّا اٰتی الرحمٰن عبدا 94 لقد احصٰھم وعدھم عدا
94 وکلھم یوم القیٰمة فردا 95 ان الذین اٰمنوا وعملواالصٰلحٰت
سیجعل لھم الرحمٰن ودا 96 فانما یسرنٰہ بلسانک لتبشر بہ المتقین
وتنذر بہ قوما لدا 97 وکم اھلکنا قبلھم من قرن ھل تحس من احد او
تسمع لھم رکزا 98
اے ھمارے رسول ! اِس سے پہلے اللہ تعالٰی کی ذات و صفات میں شرک کرنے والے
جن مُجرموں کا ذکر ہوا ھے اُن مُجرموں کا کہنا ھے کہ رحمٰن نے زمین کے ایک
انسان کو اپنا بیٹا بنا لیا ھے ، آپ اُن لوگوں کو اِس بات کا احساس دلائیں
کہ تُم لوگ تو اللہ تعالٰی کی ذاتِ عالی کے بارے میں ایک اتنی بُری اور ایک
اتنی بھاری بات گھڑ کر لے آۓ ہو کہ کُچھ عجب نہیں ھے کہ آسمان زمین پر گر
پڑیں ، زمین پَھٹ جاۓ اور زمین کے سارے پہاڑ سینہِ زمین پر آگریں تُمہاری
اِس بُری اور بھاری بات پر کہ اہلِ زمین نے زمین پر رحمٰن کے لیۓ اَولاد کا
دعوٰی کردیا ھے ، حالانکہ رحمٰن کی تو یہ شان ہی نہیں ھے کہ وہ کسی اپنا
بیٹا بناۓ ، زمین و آسمان میں جو بھی دیدہ و نادیدہ مخلوق ھے وہ اُس کے
بناۓ ہوۓ ایک حصار میں محصور ھے ، اُس نے اپنی اُس مخلوق کے جُملہ اَفراد
کی گنتی بھی کی ہوئی ھے اور قیامت کے روز اُس کی ہر ایک مخلوق کے ہر ایک
فرد نے فردا فردا اُس کے سامنے پیش ہونا ھے اور اے ھمارے رسُول ! زمان و
مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کے
اقتدار و اختیار پر خود ایمان لائیں گے اور پھر دُوسرے انسانوں کو بھی اپنی
بہترین ہمت و صلاحیت کے مطابق اللہ تعالٰی کے اِس اقتدار و اختیار کو تسلیم
کرنے کی تعلیم دیں گے تو اللہ تعالٰی اُن لوگوں کے لیۓ اپنوں اور بیگانوں
کے دل میں محبت پیدا کر دے گا ، اسی لیۓ ھم نے رحمٰن کا کلام آپ کی زبان پر
جاری کر دیا ھے تاکہ آپ اللہ تعالٰی کے حلقہِ پناہ میں آۓ ہوۓ لوگوں کو اُس
اَعلٰی اَنجام کی خوش خبری سناتے رہیں جس اَعلٰی اَنجام کے سے عالَم میں
اَقوامِ عالَم میں عروج و کمال اور بقا پاتی رہی ہیں اور اللہ تعالٰی کے
دائرہِ پناہ سے بھاگنے والے لوگوں کو اُس بُرے اَنجام سے ڈراتے رہیں جس
بُرے اَنجام سے عالَم میں اَقوامِ عالَم ذلت و زوال سے دوچار ہو کر فنا
ہوتی رہی ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورہِ مَریم کے خاتمہِ کلام کی اِن آخری دس اٰیات میں پہلی بات جو اِن
اٰیات کے موضوعِ سُخن کے حوالے سے کہی گئی ھے وہ اہلِ کتاب کا وہ ذہنی و
رُوحانی انتشار اور علمی و فکری خلفشار ھے جس ذہنی و رُوحانی انتشار اور
علمی و فکری خلفشار کا شکار ہو کر پہلے یہُود کے عُلماۓ یہُود نے عزیر علیہ
السلام کو اللہ تعالٰی کا بیٹا قرار دیا تھا اور بعد ازاں نصارٰی کے عُلماۓ
نصارٰی نے بھی اہلِ یہُود کا اہلِ یہُود کے یہُودی ہَتھیار سے مقابلہ کرتے
ہوۓ عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی کا بیٹا قرار دیا تھا ، قُرآنِ کریم
نے اٰیاتِ بالا میں اہلِ کتاب کی اِن دو مُشرک جماعتوں میں سے کسی جماعت کا
نام اِس لیۓ نہیں لیا ھے کہ قُرآنِ کریم کے اِس بیان میں بُنیادی اور مقصدی
بات اِنسان کا انسان کو رحمٰن کا بیٹا بنانا ھے اور یہ مُشرکانہ کام اِن
دونوں جماعتوں نے کیا ھے اِس لیۓ اِن کے نام کے بجاۓ اِن کے اِس کام ذکر
کردینا ہی کافی سمجھا گیا ھے تاکہ قُرآنِ کریم کا یہ بیان اِن دونوں
جماعتوں میں سے جس جماعت کے کانوں تک جاۓ تو وہ جماعت خود بخود ہی سمجھ جاۓ
کہ قُرآن کے اِس خطاب کی مخاطب ہر وہ جماعت ھے جس نے جس زمانے میں بھی کسی
انسان کو رحمان کا بیٹا قرار دے کر اِس شرک کا ارتکاب کیا ھے جس شرک کا
قُرآن کی اِن اٰیات میں ذکر ہوا ھے ، اٰیاتِ بالا میں اِس بات کو زیادہ
اُجاگر کیا گیا ھے کہ اگر اللہ تعالٰی اپنی مخلوق کے لیۓ رحیم اور کریم نہ
ہوتا تو انسان کا انسان کو اللہ تعالٰی کی اَولاد بنانے اور اللہ تعالٰی کو
صاحبِ اَولاد بنانے کا یہی ایک مُشرکانہ جُرم ہی اِس بات کے لیۓ کافی تھا
کہ زمین و آسمان پَل کے پَل میں فنا ہو جاتے اور اِس کے ساتھ ہی زمین کے
سارے انسان بھی فنا کے گھاٹ اُتار دیۓ جاتے لیکن اللہ تعالٰی نے انسان کی
ہلاکت پر انسان کی ھدایت کو ترجیح دی ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام کو اِس
اَمر کی ھدایت کی ھے کہ جس کتاب کو ھم نے آپ پر نازل کیا ھے اور جس کتاب کو
ھم نے آپ کے پڑھنے اور پڑھانے کے لیۓ سہل بنایا ھے اُس کتاب کے ذریعے انسان
کو باربار سمجھایا جاۓ تاکہ انسان شرک سے باز آجاۓ اور آتشِ جہنم میں جانے
سے بَچ جاۓ ، اِن اٰیات کے اِس مضمون میں قُرآن کے ماننے والوں کو اِس اَمر
کی تعلیم دی گئی ھے کہ اگر قُرآن کے ماننے والے بھی اپنے عظیم رسُول کو اُس
کے نبوت کے مرتبے سے بڑھا کر اُلوہیت کے مرتبے پر فائز کریں گے تو وہ بھی
یہُود و نصارٰی کی طرح گُم راہ اور راندہ درگاہ ہو جائیں آگے اور سُورت
ھٰذا کی اٰیات ھٰذا کے اِس موضوعِ سُخن کے بعد دُوسری بات جو سُورت ھٰذا کے
اِس مجموعی مضمون سے مُتبادر ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ زمانہ اٰدم و ادریس کا ہو
یا ابراہیم و یعقوب کا ہو ، اسماعیل و اسحاق کا ہو یا زکریا و یحیٰ کا ہو
اور مُوسٰی و ھارُون کا ہو یا مسیح و محمد علیہ السلام کا ہو ، ہر زمانے
میں آخری فتح صرف حق کی ہوتی ھے اور اِس وقت محمد علیہ السلام پر مُشکل
حالات کا جو مُشکل مرحلہ آیا ہوا ھے وہ آپ کے کارِ نبوت کا وہی عارضی و
آزمائشی مرحلہ ھے جو ہر ایک زمانے کے ہر ایک نبی اور ہر ایک رسُول پر آتا
رہا ھے اور آپ پر بھی آیا ہوا ھے لیکن مُشکل حالات کا یہ عارضی زمانہ جلد
گزر جاۓ گا اور اِس کے بعد جلد وہ زمانہ آجاۓ گا جب اپنے اور بگانے سب آپ
سے اور آپ کے کام سے محبت کریں گے اور حقیقت بھی یہی ھے کہ جب مکّی زندگی
کا مُشل دور آپ نے گزار لیا تو مدنی دور آتے ہی وہ آخری فتح آپ کے حصے میں
آگئی جس کا اپنوں اور بگانوں نے خواب میں بھی کبھی تصور نہیں کیا تھا ،
قُرآن کی ہر سُورت کی طرح اِس سُورت کا بھی یہی مُجرد پیغام ھے کہ جب تک
اہلِ اسلام میں اللہ تعالٰی کی کتابِ نازلہ پر عمل ہوتا رھے گا تب اہلِ
اسلام کو خُدائی مدد ملتی رھے گی اور جب اہلِ اسلام اللہ تعالٰی کی کتابِ
نازلہ کو چھوڑ کر اپنے نام نہاد مذہبی پیشواؤں ، اپنے اماموں اور اپنے
اَحبار و رُہبان کی کُتبِ باطلہ کی اتباع کرتے رہیں گے تب تک وہ ذلت و
اِدبار سے دوچار ہوتے رہیں اور باربار ہوتے رہیں گے !!
|
|