رَوایات دوستی اور اٰیات دُشمنی کا اَنجام !!

علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹🌹
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 73 تا 76 ازقلم. مولانا اخترکاشمیری  
 اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذا تتلٰی
علیھم اٰیٰتنا
بینٰت قال الذین
کفروا للذین اٰمنوا ای
الفریقین خیر مقاما 73 و
کم اھلکنا قبلھم من قرن ھم
احسن اثاثا ورئیا 74 قل من کان فی
الضلٰلة فلیمدد لہ الرحمٰن مدا حتٰی اذاراو
مایوعدون اماالعذاب واماالساعة فسیعلمون من
ھو شر مکانا واضعف جندا 75 ویزید اللہ الذین اھتدوا
ھدی والبٰقیٰت الصٰلحٰت خیر عند ربک ثوابا وخیر مردا 76
اے ھمارے رسُول ! جب روایات پرستوں کی جماعت کو قُرآنی اٰیات کی اتباع کی تلقین کی جاتی ھے تو مُنکرینِ قُرآن کی یہ جماعت پہلے تو قُرآن کی پُرمغز اٰیات اور اپنی مُہمل روایات کے ماننے والوں کا ایک عددی موازنہ کرتی ھے اور پھر اُس موازنے کے بعد کہتی ھے کہ اُس کو تو یہ دیکھنا ھے کہ قُرآن کی اِن اٰیات اور زمانے میں رائج روایات کی ماننے والی دو جماعتوں میں سے عددی اعتبار سے کون سی جماعت برتر ھے اور کون سی جماعت کمتر ھے ، اٰیات کے اِن مُنکروں اور روایات کے اِن حامیوں کی یہ جماعت اِس سے قبل بھی ہر زمانے کی ہر زمین پر ایک بھیڑ بَن کر اُبھرتی اور پھر خُدا کے عذاب کا شکار ہوکر زمین سے فنا ہوتی رہی ھے ، حالانکہ اَسلاف پرستوں کی اِس جماعت سے پہلے جو جو جماعت گزری ھے وہ اپنی روایت پرستی کی شُہرت اور اپنی نام و نمُود میں اِس نئی جماعت سے زیادہ طاقت ور تھی ، لہٰذا اگر روایت پرستوں کی وہ قدیم جماعت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکی ھے تو روایت پرستوں کی یہ جدید جماعت بھی ہمیشہ قائم نہیں رھے گی ، آپ اِن لوگوں سے کہہ دیں کہ جو انسان تُمہاری طرح ایک طویل المیعاد گُم راہی میں مُبتلا ہوتے ہیں تو رحمٰن بھی اُن کو ایک طویل المیعاد مُہلت دیتا ھے اور جس وقت اِس مُہلت کے خاتمے سے پہلے ہی اُن پر آنے والی قیامت آجاتی ھے تو اُس وقت اُن کو یقینی طور پر معلُوم ہوتا ھے کہ گزرے زمان و مکان میں کون کون سی جماعت کس کس جماعت سے بہتر رہی ھے اور کون کون سی جماعت کس کس جماعت سے کمتر رہی ھے ، فیصلے کے اُس دن کے آنے تک اللہ تعالٰی اہلِ ھدایت کی ھدایت کو بڑھاتا رہتا ھے اور اہلِ جہالت کی جہالت کو بھی بڑھنے کا موقع دیا جاتا ھے یہاں تک کہ اِن دونوں کے اَنجامِ خیر و شَر کا وہ مُقررہ وقت آجاتا ھے جس وقت اہلِ خیر کا اَنجامِ خیر اہلِ خیر کے سامنے آجاتا ھے اور اہلِ شَر کا اَنجامِ شَر اہلِ شَر کے سامنے آجاتا ھے !
 مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان کے جسم و جان میں آنے والی بُری عادات بھی انسانی جسم و جان میں آنے والی اُن بُری بیماریوں کی طرح ہوتی ہیں جن بُری بیماریوں کو ایک اَچھے وقت پر ایک اَچھی حکمتِ عملی کے ساتھ انسانی جسم و جان سے نکال دیا جاۓ تو وہ نکل جاتی ہیں لیکن اگر نہ نکالا جاۓ تو وہ بیماریاں انسانی جسم سے اُس کی جان نکال کر ہی واپس جاتی ہیں ، اُس سے پہلے واپس نہیں جاتی ہیں ، روایت پروری اور روایت پرستی بھی انسانی جسم و جان میں آنے والی اُن مُہلک بیماریوں میں سے ایک مُہلک بیماری ھے کہ جس کو ایک مُناسب وقت پر ایک مُناسب طریقے کے ساتھ انسانی جسم سے نکال دیا جاۓ تو یہ بیماری بھی انسانی جسم سے نکل جاتی ھے لیکن اگر ایک درست وقت پر ایک درست طریقے کے ساتھ اِس بیماری کو انسانی جسم سے باہر نہ نکالا جاۓ تو پھر یہ بیماری انسان کے دل سے ایمان کی دولت نکال کر بھی انسان کے جسم سے باہر نہیں جاتی کیونکہ یہ ایک طویل عرصے تک انسانی جسم میں رہتے ہوۓ انسانی جسم کے ساتھ اِس طرح مانُوس ہوجاتی ھے جس طرح رحمِ مادر میں رہنے والا بچہ رحمِ مادر سے مانُوس ہوجاتا ھے اور جس طرح رحمِ مادر میں پرورش پانے والے بچے کے لیۓ رحمِ مادر ہی سب کُچھ ہوتا ھے اسی طرح انسانی جسم میں رہنے والے مرضِ روایت کے لیۓ بھی انسانی جسم ہی سب کُچھ ہوتا ھے ، مزید براں یہ کہ جس طرح ایک بچہ جسمِ مادر سے پیدا ہونے کے بعد بھی جسم مادر ہی کے آس پاس رہ کر ہی خوش رہتا ھے اور اگر اُس کو جسمِ مادر سے بار بار دُور بھی کیا جاۓ تو وہ بار بار جسمِ مادر کی طرف ہی لپکتا رہتا ھے اسی طرح اگر مرضِ روایت بھی انسانی جسم میں رہ کر انسانی جسم کا عادی بن جاۓ تو وہ جسمِ انسانی سے نکلنے کے بعد بھی ماں سے بچھڑے ہوۓ بچے کی طرح بار بار انسانی جسم کی طرف آتا رہتا ھے اور بار بار انسانی جسم میں اپنی جگہ بناتا رہتا ھے ، سُورَہ مَریم کی اٰیت 70 میں اِس کیفیت کو "صلیا" کہا گیا ھے جو صلٰی یَصلی سے ایک مصدر سماعی ھے اور اِس مصدر سماعی کا معنٰی کسی زندہ وجُود کا کسی زندہ وجُود کے پیچھے آنکھ بند کر کے مُسلسل اِس طرح چلنا ہوتا ھے جس طرح انسان و حیوان کے بچے آنکھ بند کر کے مُسلسل اپنے والدین کے پیچھے چلتے ہیں ، انسانی تاریخ میں انسان کے مرضِ روایت پروری و روایت پرستی کا مُکمل علاج اِس لیۓ نہیں ہو پایا ھے کہ انسانی جسم میں اِس مرض کی مقدار ہمیشہ ہی اِس مرض کی دوا سے زیادہ رہی ھے جو دوا اِس کے جسم کو دی جاتی رہی ھے اور وہ جو کم کم دوا انسانی جسم کو ملتی بھی رہی ھے تو وہ اِس مرض کی خوراک بنتی رہی ھے ، نزولِ قُرآن کے زمانے میں قُرآنِ کریم کے سامنے سب سے بڑا مرض روایت پرستی اور اَسلاف پرستی ہی کا مرض تھا اور زمین کی اکثر اَقوام مرضِ روایت پرستی و مرضِ اسلاف پرستی کا شکار تھیں اور اٰیاتِ بالا میں اٰیات و روایات کے حاملین کا عددی موازنہ کرنے والی جس قوم کا ذکر کیا گیا ھے وہ اُس زمانے کی چھوٹی چھوٹی اَقوام میں سے کوئی ایک چھوٹی سی قوم نہیں تھی بلکہ اِن چھوٹی اَقوام کے بڑے بڑے اَفراد پر مُشتمل ایک بڑی قوم تھی جو اُس زمانے کے اُس ماحول کی ایک نمائندہ قوم تھی اور یہ بھی ظاہر ھے کہ وہ مُسلم جمعیت کے مقابلے میں ایک بڑی انسانی جمعیت تھی جس کا یہ کہنا تھا کہ ھماری عددی قوت مسلمانوں سے زیادہ ھے اور ھم اپنی عددی قوت کی بنا پر مُسلمانوں سے بہتر اور برتر ہیں ، اٰیاتِ بالا میں اُس مُنہ زور جماعت کو یہ مُنہ توڑ جواب دیا گیا ھے کہ اگر تمہیں اپنی روایت پرستی پر اتنا ہی گمھنڈ ھے تو تُم زمین پر گُھوم پھر اپنے گمھنڈی اَسلاف کا عبرت ناک اَنجام بھی ایک نظر دیکھ لو ، زمین پر جب اللہ تعالٰی کی اٰیات نازلہ کے مقابلے میں انسانی روایات کو لایا گیا ھے تو اُن روایات کو ایک وقتی پزیرائی ہر وقت ملی ھے لیکن ایک ہمہ وقتی پزیرائی کبھی بھی نہیں ملی ھے جو اِس بات کا ایک کافی ثبوت ھے کہ اہل روایت کی اِس روایت پرستی کا اَنجام دُنیا میں بھی ناکامی ھے اور عُقبٰی میں بھی ناکامی ہی ناکامی ھے !!
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 454984 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More