ماشا ء للہ، الحمداللہ، ماہ رمضان کی آمد کیساتھ ہی مساجد
کی رونقیں بحال ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مسجد سے جیسے ہی اذان کی آواز بلند
ہوتی ہے، ہر شخص چاہے وہ سرکاری، پرائیویٹ دفاتر میں کام کررہاہو، فیکٹریوں
میں کام رہا ہو، مزدور، محنت کش یا دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو
مسجد کی طرف دوڑتا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے۔ پنچگانہ باجماعت نمازادا کرنے کے
لئے کیا بوڑھے کیا بچے اور کیا نوجوان ذوق در ذوق مساجد کی طرف دوڑ لگاتے
ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ سب سے خوبصورت مناظر میں سے ایک منظر جو کہ واقعی
دیدنی ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی ٹولیاں آپس میں ہنسی خوشی ہلکی پھلکی شرارتیں
کرتے ہوئے مساجد کی طرف رواں دواں ہوتی ہیں،، تاجر، دوکاندار حضرات اپنی
دوکانوں کو بند کرکے ”وقفہ برائے نماز“ کے بورڈ آویزاں کرکے مسجد کی طرف
رواں دواں ہوتے دیکھائے دیتے ہیں۔ ہر شخص کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسجد
کی سب سے پہلی صف میں پہنچ کر تکبیر اولیٰ کیساتھ باجماعت نماز ادا کرکے
اپنے نامہ اعمال میں ہزار ہاں نیکیوں کا اضافہ کرلے۔ مسجد میں کہیں ذکر و
اذکار کی پرنورمحفلیں تو کہیں پر نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ
واصحابہ وبارک وسلم کی پرنور محفلیں رونقیں پھیلا رہی ہوتی ہیں اسی طرح
کہیں پر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول نوجوان اور بزرگ زیادہ سے زیادہ ختم
ِ قرآن مجید کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آرہے ہوتے ہیں۔ فرائض نماز
کیساتھ ساتھ نوافل نمازوں کی کثرت کی جاتی ہے۔ تراویح اور محافل شبینہ میں
قرآن مجید کی تلاوت خوب اہتمام کے ساتھ کی جاتی ہے۔ بزرگ اور نوجوان ماہ
رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف جیسی عظیم سنت ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے
ہیں۔ غرباء مساکین کی امداد دل کھول کی جاتی ہے۔ چونکہ ماہ رمضان المبارک
کے مقدس مہنیہ میں ہر نیکی کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے، اسلئے ہر مسلمان
اپنے تئی زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح سحر و
افطاری کے لئے جگہ جگہ بالا تفریق رنگ، نسل اور مسلک، فی سبیل اللہ
دسترخوانوں کا انتظام کیا جارہا ہوتاہے۔ ہر طرف اور ہر لمحہ نیکیاں سمیٹنے
کے لئے ہر مسلمان تگ و دو میں مشغول نظر آرہا ہوتا ہے۔ ہر ممکن کوشش کی
جارہی ہوتی ہے کہ جھوٹ, غیبت، ظلم، لڑائی جھگڑے، نا جائز منافع خوری، گالی
گلوچ، بے حیائی جیسی بیماریوں اور گناہوں سے بچا جائے۔الحمداللہ رب
العالمین، یہ تو ہے انتہائی مثبت پہلو، ماشاء اللہ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ماہ رمضان میں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ
جاتا ہے، لیکن کیا یہ تلخ حقیقت نہیں ہے کہ ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں
نظر آنے والے ایسے حسین، پررونق اور بابرکت مناظر جن کو دیکھنے کے لئے ہم
سب کو پورا ایک سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تو اک انتہائی تلخ اور دماغ میں
تنگ کرنے والا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماہ رمضان کے مقدس اور بابرکت میں
مہینے میں روزہ جیسی عظیم عبادت کے علاوہ کی جانے والی دیگر عبادات و
معاملات جیسا کہ نماز کی پابندی، جھوٹ سے بچنا، غیبت سے بچنا، قرآن کی
تلاوت، غریب و مساکین کی امداد، لڑائی جھگڑے سے بچنا دیگر مہینوں میں نہیں
کئے جاسکتے؟ یاد رہے روزہ جیسی عظیم عبادت کی فرضیت سال کے ایک مہینہ یعنی
رمضان میں طے شدہ ہے، لیکن دیگر عبادات اور سب سے بڑھ کر نماز جیسی عظیم
عبادت تو سال کے بارہ مہینے اور دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ لیکن کیا ہم
نماز جیسی فرض عبادت جس کے ادا کرنے کا حکم پوری کائنات کے خالق اللہ کریم
نے قرآن مجید و فرقان حمید میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے، اک اندازے کے مطابق
نماز ادا کرنے کا حکم غالبا 700 مرتبہ قرآن مجید میں آتا ہے، کیا نماز جیسی
عظیم عبادت اورفرض عظیم کو سال کے گیارہ مہینوں میں بھول جانا چاہئے؟ کیا
نماز دیگر مہینوں میں فرض نہیں؟ جہاں ماہ رمضان میں فرض نمازوں کیساتھ ساتھ
نوافل کا اہتمام بہت شوق سے کیا جاتا ہے، وہی پر ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر
رمضان میں کم از کم فرض نماز کو پابندی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ کیونکہ ایک
فرض نماز کو چھوڑنے کے متعلق روز قیامت بہت ہی زیادہ سختی اور عذاب کی
وعیدیں بتائیں گئی ہیں۔ روز قیامت عبادات میں سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق
سوال پوچھا جائے گا۔ خدانخواستہ روز قیامت ہم پہلے ہی سوال میں فیل ہوگئے
تو اللہ معاف فرمائے آگے پتا نہیں کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا؟ کیا سچ بولنے
کے لئے صرف ماہ رمضان کے مہینہ کا انتظار کرنا چاہئے، جبکہ حقیقت یہ ہے
جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ کیا غرباء و مساکین کی خدمت
اور مدد کرنے کا حکم صرف ماہ رمضان ہی کے لئے ہے؟ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں
ہے، جہاں ماہ رمضان کے مقدس مہینہ میں ہر نیکی کا اجر 70 گنا تک (اللہ کریم
اپنی قدرت سے اس سے بھی زیادہ دے سکتے ہیں ان شاء اللہ) بڑھ جاتا ہے، وہی
پر ماہ رمضان ہم تمام مسلمانوں کے ایک re-fresher course کا باعث بھی بنتا
ہے، چونکہ ماہ رمضان میں جس ذوق اور شوق سے جسمانی و مالی عبادات کی جاتی
ہیں یقینی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ ماہ رمضان میں کی گئی پریکٹس کو غیر
رمضان میں بھی اُسی طرح نہیں تو کم از کم فرائض عبادات کو پابندی کے ساتھ
ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہئے۔عید کا چاند نظر آنے کی دیر ہے ہم
میں سے اکثریت مسا جد میں پنجگانہ باجماعت نماز و دیگر عبادات سے reverse
gear لگالیتے ہیں، جس کا اندازہ عید کے دن پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے لئے
مساجد میں نظر آنے والے نمازیوں کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ رمضان
میں عبادات کی پابندی اور ذوق و شوق کیساتھ ادائیگی اور غیر رمضان میں
نوافل تو دور کی بات فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے تو ایسا لگتا ہے کہ
شائد مذہب اسلام میں عبادات کا مہینہ صرف اور صرف ماہ رمضان ہی ہے دیگر
مہینوں میں مسلمان جیسے چاہیں اپنی زندگیاں گزارہے، جس سے یہ تاثر اُبھرتا
ہے کہ شاید ہم سال میں ایک مہینے ہی کے لئے مسلمان ہوتے ہیں۔جبکہ ایسا
بالکل نہیں ہے۔ مسلمان کیلئے تو سال کے بارہ مہینوں، دن کے چوبیس گھنٹوں
میں اللہ کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کے فرمودات کے
تحت اپنی زندگیوں کو گزارنے کا حکم ملتا ہے۔ اللہ کریم مجھ سمیت سب
مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے اور ہم سب کو اپنی زندگیوں کو غیر رمضان میں
بھی ماہ رمضان ہی کی طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ہم سب فلاح
پاسکیں، آمین ثم آمین۔
|