’’پکا قلعہ‘‘
ماضی کی عظیم الشان عمارت...آج حسرت و یاس کی تصویر ہے
'معر وف محقق رچرڈ ایف برٹن کا قول ہے کہ’’ قلعہ ایک ہی وقت میں دفاع،
حکومتی ایوان، اور مقامی حکمرانوں کی رہائش کے کام آتا ہے‘‘۔سندھ کے
کلہوڑا حکمراں نے بھی دفاع سمیت تمام حکومتی و رہائشی ضرورتوں کو پورا کرنے
کے لیے حیدرآباد کی پہاڑیوں پر ایک عظیم الشان قلعہ تعمیر کرایا تھا۔ سندھ
کے دوسرے بڑے شہر کے بیچوں بیچ اس عظیم الشان قلعے کی باقیات موجود ہیں۔
کبھی اس کی شان و شوکت کے چرچے ہر جگہ ہوا کرتے تھے، آج چاروں طرف اس کی
شکستہ دیواریں نظر آتی ہیں۔ ہاں ایک دیو ہیکل دروازہ اب بھی موجود ہے، اور
اپنی خستہ حالی کی دہائی دیتا نظر آتا ہے جب کہ قلعے کے اندر تجاوزات کی
بھر مار ہے۔
پکے قلعے کے وجود میں آنے کی بھی دلچسپ کہانی ہے، جس میں مختلف حکمرانوں
کے عروج و زوال کی داستانیں موجود ہیں۔ قلعے کی باقیات اب بھی اس کے شاندار
ماضی سے لے کر اس کی موجودہ حالتِ زار کی کہانی بیان کرتی نظر آتی ہیں۔کہا
جاتا ہے کہ کلہوڑا بادشاہوں کا دارالحکومت خدا آباد کا علاقہ تھا۔لیکن
مسلسل سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے سندھ کے حکمراں میاں غلام شاہ کلہوڑو
بہت پریشان تھے۔تنگ آکر انہوں نے اپنا دارالحکومت وہاںسے کسی محفوظ شہر
میں منتقل کرنے کا ارادہ کیا اوربالآخر 1760 کی دہائی میں انہوں نے نیا
دارالحکومت گنج یا گنجو نامی ایک پہاڑی پر قائم ماہی گیروں کے ایک قدیم
گاؤں کے کھنڈرات پر بسانے کا ارادہ کیا۔ مقامی زبان میں گنجو کے معانی
بنجر کے ہیں۔ یہ قدیم گاؤں جسے کبھی نیرون یا نیرون کوٹ بھی کہا جاتا
تھا،اس کی تاریخ موریہ عہد (185-322 قبلِ مسیح) جتنی پرانی ہے۔ یہاں غلام
شاہ کلہوڑو نےنئے شہرحیدر آباد کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اس شہر کو
دارالحکومت بنایا اور سول کام کے لیےکچھ عمارتیںبھی تعمیر کرائیں۔ایسی ہی
ایک تعمیر ’’پکا قلعہ ‘‘ ہے۔ کبھی اس کی شان و شوکت کے چرچے ہر جگہ ہوا
کرتے تھے، مگر آج اس کی خستہ حالت اپنی حالت زار خود بیان کرتی ہے۔ کہا
جاتا ہے کہ خدا آباد میں مسلسل آنے والے سیلابوں سے میاں غلام شاہ کلہوڑو
تنگ آگئے تھے،جس کی وجہ سےانہوں نے اپنا دارالحکومت گنج یا گنجو نامی ایک
پہاڑی پر قائم ماہی گیروں کے ایک قدیم گاؤں کے کھنڈرات پر بنانے کا ارادہ
کیا۔ اس کی تعمیر دیوان گدومل کی زیرِ نگرانی ہوئی تھی، جو کہ ایک درباری
تھا۔ اس کام کے لیے اس نے میاں غلام شاہ کلہوڑو کی جانب سے دو کشتیاں بھر
کر سرمایہ دیا تھا۔
غلام شاہ کلہوڑا نے شاہی قلعے یا پکا قلعہ کونہ صرف رہائش کے لیےاستعمال
کیا بلکہ یہاںامور حکومت بھی حل کرتے تھے، یعنی عدالتیں بھی لگائی جاتی
تھیں۔ خاندان کے رہنے کے لئے حرم بنائے اوراس میںمساجد بھی تعمیر
کروائیں۔بد قسمتی سے1843ء انگریزوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔1857ء میں
برطانوی فوجیوں نے قلعے کے کچھ حصے مسمار کیے اور اس جگہ پر اپنے فوجیوں
اور جنگی ساز و سامان کے لیے کمرے تعمیر کروالیے۔ پکا قلعہ تیس ایکڑ کی جگہ
پر بنا ہوا ہے۔ میاں غلام شاہ کلہوڑوکوافغان بادشاہ احمد شاہ درانی نے شاہ
وردی خان کا لقب دیا اور وہ اسی لقب سے پہچانےجاتے تھے۔ میاں نور محمد
کلہوڑو کی حکومت کے بعد وہ سندھ میں نہ صرف استحکام لے کر آئے بلکہ انہوں
نے سندھ کو دوبارہ منظم کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مراٹھاوں اور رائے کچھ
کے مستقل جاگیرداروں کو صحرائے تھرمیں شکست دی اورفتح سے ہمکنار ہوئے۔پہاڑی
پر قلعہ بنانے کا مقصد سندھ کےعوام کا دفاع کرنا تھا۔پکا قلعہ کو سندھی
زبان میں’’ پکو قلعو ‘‘کہتےہیں ۔ قلعے میں ایک خیمے نما حصہ ہے ،جس کوپکی
اینٹوں سے بنایا گیا ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ اپنے گھوڑے اس پکی
اینٹوں کے خیموں میں باندھتے تھے ،مگر اس پکے خیمے کی حالت اب مخدوش ہو چکی
ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلعے کے نوادرات بھی چوری ہوتے گئے۔ میر حرم کے
نزدیک ایک لکڑی کا دروازہ ہے جس میں کیلیں لگی ہوئی ہیں ۔اس کا صرف ایک
مرکزی دروازہ ہے، جو شاہی بازار کی طرف کھلتا ہے۔ برطانوی دور میں محنت کش
اور کاری گراس میں رہتے تھے۔حرم کے اندرکئی پینٹنگز لگی ہوئی ہیں ،پانچ بڑے
ہال ہیں، یہ وہ جگہ ہے جہاں ’’میر‘‘ اپنا خزانہ رکھتے تھے۔ کچھ ہالوں
کوبرطانوی راج میں ریکارڈ آفس میں تبدیل کردیا گیا تھا، جب کہ تین ہالوں
کو میوزیم بنا دیا گیا ہے،مشہور واقعہ ہے کہ جب انگریزوں نے قلعے پر قبضہ
کیا تھا، تو سندھ کے مشہور جنرل ہوش محمد شیدی وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہید
ہوگئےتھے۔ واضح رہے کہ ہوش محمد شیدی تالپور افواج کے کمانڈر تھے۔انہیںسندھ
کا بچہ بچہ انتہائی احترام سے دیکھتا ہے۔برطانوی سرکارنے قلعے پر قبضےکے
بعد اس کے کچھ حصے منہدم کرکےوہاں افواج اور مزدوروں کی رہائش گاہ تعمیر
کرا دی تھیں۔وادی سندھ کی یہ قدیم یادگار اب مکمل تجارتی و رہائشی مرکز بن
چکی ہے۔ تجاوزات نے اس قدیم قلعے کےحسن کو گہنا دیا ہے،قلعے کی بیرونی
دیواربھی انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پکّا قلعہ کی مرمت
و تزئین و آرائش کروائی جائے، تاکہ یہ تاریخی ورثہ تباہی سے بچ سکے اور
آنے والی نسلیں بھی اسے دیکھ سکیں، اس کی اہمیت سے واقف ہو سکیں۔ یہ امر
بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخی ورثوں یا عمارات کی حفاظت کی ذمے داری صرف مقتدر
حلقوں کی نہیں ہوتی، بلکہ عوام کو بھی چاہیے کہ اس کی دیکھ بھال میں اپنا
کردار ادا کریں۔علاوہ ازیںاسکول ، کالج کے طلباء کو تاریخی مقامات کا دورہ
کر وانا چاہیے تاکہ نئی نسل ثقافتی ورثےسے آگاہ ہو سکے۔ |