کربلا اور حسینؓ (چھٹی قسط)


تحریر: شبیر ابن عادل


حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپؐ سجدے میں گئے تو حسن ؓ اور حسین ؓ اچھل کر آپؐ کی پیٹھ پر چڑھ گئے۔ لوگوں نے انہیں منع کرنا چاہا تو آپ ؐ نے انہیں اشارے سے منع فرمادیا۔ جب آپؐ نے نماز مکمل کرلی تو ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھالیا، اور فرمایا کہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان دونوں سے محبت کرے۔ (السلسلۃ صحابہ۔ حدیث نمبر 694)

حضرت شدادرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں مغرب یا عشاء کی نماز کے لئے رسول ا للہﷺ تشریف لائے تو آپؐ نے حضرت حسن ؓ یا حسین ؓ کو اٹھا رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ (نماز پڑھانے کے لئے) آگے بڑھے اور بچے کو نیچے بٹھا دیا۔ پھر نماز کے لئے تکبیر تحریمہ کہی اور نماز شروع کردی۔ نماز کے دوران آپؐ نے ایک سجدہ بہت لمبا کردیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر بیٹھا تھا اور آپ سجدے میں تھے۔ میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب حضور اکرم ؐ نے نماز مکمل فرمائی تو لوگوں نے گزارش کی کہ اے اللہ کے رسول! آپ نے نمازکے دوران ایک سجدہ اس قدر لمبا کیا کہ ہم سمجھے کہ کوئی حادثہ ہوگیا ہے یا آپؐ پر وحی کا نزول ہورہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار ہوگیا تو میں نے پسند نہ کیا کہ اسے اپنی پیٹھ سے فوری اتار دوں، چنانچہ میں اس کے خود ہی اترنے کا منتظر تھا۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر 1142)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ، انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جب آپؐ نے سجدہ کیا تو حسن اور حسین رضی اللہ عنہا آپ کی پشت پر چڑھ گئے۔ جب آپ نے اپنا سر اٹھایا تو ان دونوں کو (اپنے ہاتھ سے اپنے پیچھے سے نرمی سے) پکڑا اور نرمی سے اتار دیا، جب آپ ؐ دوبارہ سجدے میں گئے تو وہ بھی دوبارہ چڑھے۔ جب آپؐ نے نماز پڑھ لی (توان دونوں کو اپنی رانوں پر بٹھا لیا) ایک کو یہاں اور دوسرے کو اس طرف۔

ابوہریرہ ؓ نے کہا، میں آپؐ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا مین ان دونوں کو انکی ماں کے پاس نہ چھوڑ آوں؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، پھر ایک بجلی چمکی تو آپؐنے فرمایا کہ اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔ وہ دونوں آسمانی بجلی کی روشنی میں چلتے ہوئے اپنی ماں کے پاس پہنچ گئے۔ (السلسلۃ صحابہ۔ حدیث نمبر 145)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ؐ نماز پڑھی تو حسن ؓاور حسین ؓ دونوں کھیل رہے ھے اور آپؐ کی پیٹھ مبارک پر بیٹھ رہے تھے۔ مسلمان انہیں ہٹانے لگے، جب آپؐ نے سلام کہہ دیا تو فرمایا کہ میرے ماں باپ قربان! ان دونوں کو چھوڑ دو، جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان دونوں سے محبت کرے۔

ایک دن رسول اللہ ﷺ نے علی ؓ، فاطمہ ؓ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں اس شخص کے لئے سراپا صلح ہوں، جس سے تم لوگوں نے صلح کی اور سراپا جنگ ہو اس کے لئے جس سے تم لوگوں نے جنگ کی (سنن ابن ماجہ۔ حدیث نمبر 145)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں۔ (سنن ابن ماجہ۔ حدیث 118 ْْ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے حسن اور حسینؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 143)

حضرت سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ جب حسنؓ پیدا ہوئے تو ان کا نام حمزہ رکھا، جب حسین پیدا ہوئے تو اس کے چچا کے نام پر جعفر رکھا، رسول اللہ ﷺ نے مھے بلایا اور کہا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان دونوں ناموں کو بدل دوں، میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے۔ پھر آپ ؐ نے دونوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔ (جاری ہے)
=================








shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.