حضرت نوح علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر اور
رسولوں میں سب سے پہلے رسولؑ تھے۔انہوں نے900سال تک تبلیغ کی ۔ ان سالوں
میں تقریباً80لوگوں نے ان کا دین قبول کیا اور باقی اس بات پر مصر رہے کہ
اگر اﷲ تعالی نے ہماری قوم کی طرف واقعی کوئی پیغمبر بھیجاہوتا تووہ کوئی
فرشتہ ہوتانہ کہ تمہاری طرح کا عام آدمی ۔ جب ان کی قوم نے ان کا انکارجاری
رکھا اور ظلم اور مظالم پر اتر آئے تو اﷲ تعا لیٰ کے حکم سے حضرت نوح ؑ نے
اپنی قوم کو اﷲ تعالی کے سخت ترین عذاب سے خبر دار کیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت
نوح ؑ کو حکم دیا کہ وہ ایک کشتی بنائیں جس میں ان پر ایما ن لا نے والو ں
سمیت روئے ار ض پر تمام انواع حیا ت کا ایک ایک جو ڑا بھی آسکے ۔کشتی کی
تعمیر شر و ع کی گئی ، جب وہ مکمل ہو گئی تو لو گو ں نے نو ح ؑ کا مذ اق اُ
ڑا تے ہو ئے اس کشتی کو اپنا بیت الخلا بنا لیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے کشتی غلا
ظت سے بھر گئی ۔نو حؑ ؑنے اﷲ تعالی سے شکا یت کی کہ اب اُ س کشتی کو کیسے
صا ف کیا جا سکے گا ؟ اﷲ تعا لی نے انہیں ما یو س نہ ہو نے کا حکم دیتے ہو
ئے کہاکہ یہ لو گ خو د کشتی صا ف کر یں گے ۔ تھوڑے عرصے میں قوم کے ایک شخص
کو کوڑھ کا مرض لاحق ہوگیا ۔ بستی کے لوگوں نے اسے وہاں سے نکال دیا۔ کوڑھ
دن بدن پھیلنے لگا اور یوں کوڑھ میں مبتلا لوگ کشتی کے گرد جمع ہونے لگے ۔
ایک دن یہ ہوا کہ بیمار لوگوں میں سے ایک شخص کشتی کے اوپر بیٹھ کر پیشاب
کر رہا تھا ۔ کہ کشتی کے اندر اوندھا جاگرا۔ اس غلاظت میں لوٹ پوٹ ہونے سے
اس کی بیماری دور ہوگئی ۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے تمام طاعون زدہ لوگوں نے اس
کشتی کی غلاظت مل کر ختم کردی اور کشتی بالکل صاف ہوگئی ۔ یہ تو ہزاروں سال
پہلے کی بات ہے کہ جب سائنس تھی ہی نہیں ۔ اور نہ ہی اتنے وسائل تھے کہ
کوڑھ کے بارے میں تحقیق کی جاسکتی اور اس کا علاج کیا جاسکتا ۔ لیکن اب
ہمارے پاس جدید ترین ٹیکنالوجیز کے ساتھ جدید ترین سائنس اور ان کو قابل
استعمال بنانے کے وسائل بھی موجود ہیں ۔اس کے باوجود اگر دنیا میں ضعیف الا
عتقادی باقی رہے تو اس میں انسان خود قصور وار ہے فطر ت نہیں ۔ کئی لوگ
دنیا میں آج بھی یہ سوچتے ہیں کہ سائنس کی تمام تر ایجادات محض من گھڑت
باتیں ہیں اور انسانوں کو بھٹکانے کی شعبدہ بازی ہے ۔ تو اس جہالت کا جواب
یہ ہے کہذات باری تعالیٰ نے خودانسان کو دنیا میں اپنی بندگی کے ساتھ ساتھ
تمام قسم کی نعمتوں کے بارے میں کھوج لگانے اور اس کی طرف سے عطا کردہ شعور
جس کی وجہ سے انسان دوسری مخلوقات کی نسبت اشرف کہلایا کو بھی استعمال میں
لانے کا حکم دیا ہے ۔ کوڑھ کے بعد بھی اس دنیامیں کئی وباؤں نے جنم لیا ہے
مگر جب سے سائنس نے ترقی کی ہے اور وسائل کو استعمال کرنے کا طریقہ ڈھونڈا
ہے تب سے یہ وبائیں بھی لا علاج نہیں رہیں ۔ حال ہی میں کورونا وبا نے جنم
لیا ہے جو انسان کے ذریعے انسان تک پھیل رہی ہے ۔ اور محض ڈیڑھ دوسال میں
ہی تحقیق کرنے کے بعد اس کی ویکسین ایجاد کر لی گئی ہے ۔ اس بھی بڑھ کر یہ
کہ کورونا کے بارے میں احتیاطی تدابیر بہت جلد بتا دی گئیں جسکی بدولت کو
رو نا کی وجہ سے دنیا کا کم سے کم نقصان ہو ا ہے۔ لیکن ہمار ے معاشروں میں
آج بھی لوگ ضعیف الاعتقادی یا اپنی جہالت کی وجہ سے اس موذی مرض کو غیر
سنجیدہ لے رہے ہیں ۔ ہر مذہب کے لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ
شکار ہو کر مر رہے ہیں۔ بے شک انسان کو اسکی تقدیر کا لکھا ملتا ہے مگر
دنیا میں جو کچھ بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے ،وہ اس کے اپنے پیدا کر دہ
اسباب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کئی طبقوں میں درباروں کی حاضری /وہا ں رکھے ہوئے
خالی دیوں میں تیل ڈالنے /چادر چڑھانے / جھاڑو ں پھیرنے اور پیر صاحب کے
بغل گیر ہو نے سے شفاملنے کا ز عم پا یا جا ر ہا ہے ۔اور سب سے بڑ ی جہا لت
تو بھارت میں دیکھنے کو ملی ہے ۔ جہا ں کو رو نا کی وجہ سے اس قد ر تشو
یشنا ک صو ر تحا ل ہے کہ پاکستان جیسا روایتی حریف ملک بھی بر داشت نہیں کر
پا ر ہا اور انسا نیت کے نا طے انہیں مددکر نے کے لیے ہا تھ بڑ ھا دیا ہے
۔بھارت میں ہند و انتہا پسند و ں کی جا نب سے ایک پر و گر ام کا انعقا د
کیا گیا جس میں انہو ں نے سب کے سامنے گا ئے کا پیشا ب اور فضلہ پیا اور
کھایا ہے ۔ اتنی ہی ڈ ھٹا ئی سے کہا ہے کہ اس سے انہیں کو رو ناسے
چھٹکارامل جا ئے گا ۔ نہ تو سا ئنس اور نہ ہی فطرت ہی اسی جہالت کو قبول کر
سکتی ہے ۔ یہاں یہ بات تو عیا ں ہوگئی ہے کہ ایک بڑی آبادی اور حدود اربعہ
رکھنے والے ملک بھارت کی معاشی /معاشرتی صورت حال ابتر سے ابتر کیو ں ہوتی
جارہی ہے ۔یقین کامل ہے کہ بھارت اگر اپنے ملک میں موجود اقلیتوں اور
کشمیریوں کے ساتھ ظالمانہ اور غیرمنصفانہ سلوک نہ رکھتا تو شاید ایسی نوبت
سے قدرت اسے ضرور بچا لیتی۔ پاکستانی اور دیگر اقوام کو بھارت کی حالیہ
صورت حال سے سبق سیکھنا اور ضعیف الا عتقادی کو ترک کر کے حقیقت پسند ہونا
چاہیے ۔ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا آج بھی موجود ہے جو اس کے جان لیوا وباء
کے وجود سے بھی انکاری ہے اور ہماری خواتین سے اﷲ اپنی پنا ہ میں رکھے ۔
جنہیں کسی بھی تقریب یا تہوار کا انتظار ہوتا ہے ۔ بازاروں میں حالات دیکھ
کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس قدر خواتین نے موجود ہ صورتحال کا مذاق
اڑایا ہے شاید ہی کسی طبقے نے اڑایا ہو ۔ دعا ہے کہ اﷲ ہم سب کو اس آفت سے
اپنے حفظ امان میں رکھے اور ہمیں ہدایت دے ،ہمارے پیاروں کو جاہلیت اور
پراپیگنڈوں کے خلاف تحقیق کرنے اور ثابت قدم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔
|