عید الفطر کا مبارک دن مسلم اُمہ کے لیے مسرت و شادمانی
کا دن ہے ، یہ با برکت تہوار ہمیں عظیم اسلامی روایات کے مطابق مل بانٹ کر
خوشیاں منانے ،غریب ،نادار اور مستحق افراد کو اپنی خوشیوں میں شریک اور
باہمی اتحاد ،اتفاق ،یکجہتی و ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔ماہ رمضان کے روزے
رکھنے کے بعد عیدالفطر کا دن اُمہ کے لیے اﷲ کی طرف سے ایک انعام ہے ۔لیکن
امسال کورونا وائرس کی تیسری لہر سے آئے روز ہونے والی اموات نے ساری دنیا
کو خاص طور سے مسلمانوں کر دکھی اور رنجیدہ کر دیا ہے ۔شاہد ہی کوئی گھرانہ
ایسا ہو کہ جن کا کوئی عزیز،رشتہ دار ،ماں باپ ، بہن بھائی یا کوئی تعلق
دار کورونا کے باعث انہیں داغ مفارقت دے کر اپنی حقیقی منزل کی جانب روانہ
نہ ہوا ہو ۔ایک ایک گھرانے میں 2سے 4تک بندے موت کا شکار ہوئے ۔قدرتی آفات
حتیٰ کے وبائی امراض سے مرنے والے کو شہید کا درجہ دیا گیا ہے لیکن کورونا
کی آمد کے ابتدائی دنوں میں مرنے والوں کی میتیں بھی لواحقین کو نہیں دی
جاتی تھیں ۔اور اگر میت دے بھی دیا جاتا تو اسے ایک تابوت میں بند کرکے دیا
جاتا تھا ۔کوروناسے مرنے والے شخص سے وائرس کے جراثیم لگنے کے خوف کی وجہ
سے اپنے خونی رشتوں میں بندھے لوگوں نے بھی میت کا آخری دیدار کرنے اور
تدفین کے سارے عمل میں شریک ہونے سے گریزکیا ۔ دن رات کا سکھ چین بھلا
کرساری زندگی محنت مشقت کرکے اپنے بچوں کے لیے سہولیات اور عیاشیوں کا
سامان کرنے والوں کاآخری دیدار کرنا بھی گوارا نہ کیا گیا۔لوگ موت کے خوف
سے اپنے پیاروں سے دور رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے رہے ۔۔ہمیں ایک بات
ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ موت سے فرار ممکن نہیں ، بزرگوں کا کہنا ہے کہ
’’جو رات قبر میں ہے ،وہ باہرنہیں ‘‘۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک
انسان اپنے حصے کا رزق ختم نہیں کرے گا ،اُسے موت نہیں آئے گی ۔زندگی کی
حفاظت کوئی اور نہیں کرتا ۔ایک موت ہی ہے کہ جس کے حصار میں ہماری روح و
جسم قید ہے ۔لیکن جب ملک الموت ہماری جان نکالنے کے لیے آتا ہے تو پھر اس
کے راستے میں کوئی دیوار حائل نہیں ہو سکتی ۔کوئی پیر ہو یا ڈاکٹر ،چائے
کوئی کسی بڑے عہدے پر ہی براجمان کیوں نہ ہو ،وہ سب کام کرنے کی طاقت رکھنے
کے باوجود ’’موت‘‘کو نہیں روک سکتا ۔
امسال کورونا نے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ۔دنیا بھر میں اب تک
3,304,173 کے قریب افراد ہلاک ہوئے جبکہ صرف بھارت میں ابتک246,146 افراد
اس موذی مرض کے سبب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔اور یہ سلسلہ ابھی
تھما نہیں ۔بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے ،وہاں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی
اس مرض سے مر رہے ہیں ۔بھارت کے باسی پوری طرح غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔پوری
دنیا میں لاکھوں،کروڑوں لوگوں کی اموات نے سبھی لوگوں کو سوگوار کر دیا ہے
۔پاکستان نے انسانی ہمدردی کے ناتے بھارت کو کورونا سے پیدا شدہ صورتحال
میں امداد کی پیشکش کی ہے جو خوش آئند ہے ۔بلاشبہ دکھی انسانیت کی خدمت سے
بڑھ کر کوئی عبادت نہیں۔
کورونا سے ہونے والی اموات کے صدمے سیے رنجیدہ ہونے کے باوجود بازاروں میں
عید کی خریداری میں کوئی کمی نہیں آئی ،مارکیٹوں کے رش کی صورتحال یہ ہے کہ
کندھے سے کندھا چھل رہا ہے ۔ایک ہجوم ہے کہ جس سے نکلنا محال ہے ۔ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ قوم کو اپنے پیاروں ،اپنے تعلق داروں کی موت کا غم شائد
بھول گیا ہے اور سبھی لوگ عیدالفطر کا دن روایتی جوش و جذبے سے منانا چاہتے
ہیں ۔لیکن ہمارے حق میں بہتر یہی ہے کہ ہم اس سوگوار عید پر نماز پڑھتے
ہوئے یا قبرستانوں میں اپنے پیاروں کی مغفرت کے لیے دعا کرتے وقت کورونا کی
وباء کو بھی مت بھولیں ۔گو کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کافی حد تک کاروباری
مراکز بند ہیں ۔لیکن اگر حکومت لاک ڈاؤن نہ کرتی تو بازاروں میں دکاندار
اور عوام کسی قسم کے ایس اوپیز پر عمل کرنے میں تسائل پسندی کا عملی مظاہرہ
کرتے ہوئے ایک جم غفیر بازاروں میں خریداری میں مصروف نظر آتا۔ عید پر ہمیں
چاہئے کہ ہم اپنے دلوں کو صاف کریں اور اپنے ربّ کے حضور گڑگڑا کر عاجزی
اور انکساری سے ایسی درد بھری دعا مانگیں کہ جسے اﷲ کے دربار میں قبولیت
حاصل ہو اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے کورونا کا خاتمہ ہو جائے ۔بیشک !
دلوں سے کدورتیں اور منافقتیں نکال کر خلوص نیت سے جب ہم دعا مانگیں گے تو
کوئی وجہ نہیں کہ ہماری دعا قبول نہ ہو ۔عید پر نئے کپڑے پہننے یا بنانے کی
بجائے اپنے پیاروں سے بچھڑنے والوں کی دلجوئی ہمیں سکون قلب سے نوازسکتی
ہے۔یقیناکورونا کی وجہ سے اپنے پیاروں کو کھونے والے انہیں کبھی بھلا نہیں
پائیں گے۔
عید الفطرکادن تقاضا کرتا ہے کہ ہم آپس کی رنجشیں ،کدورتیں اور نفرتیں مٹا
کر ایک اُمت واحدہ کی طرح مثالی اتحاد اور اخوت کا مظاہرہ کریں اور دُنیا
کوباور کرائیں کہ دینِ اسلام امن و شانتی ،سلامتی ومساوات اور بھائی چارے
کا مذہب ہے جو ہمیں اِس بات کی تلقین کر تا ہے کہ ہم احترام آدمیت اور
انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے دُنیا میں امن پھیلائیں اور اُن قوتوں کی
حوصلہ شکنی کریں جو دہشت گردی ،انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے ذریعے
خونریزی پھیلا کر عالمی امن کے لئے خطرہ بن گئے ہیں ملک میں مختلف مذاہب کے
لوگ رہتے ہیں اور سبھی ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں میں شامل ہوتے ہیں جس سے
نہ صرف آپس میں محبت کا کلچر پروان چڑھتا ہے بلکہ ملکی ترقی اور معیشت پر
بھی مثبت اثر ات مرتب ہوتے ہیں۔امسال ہمیں عید کے روز نماز عید کی ادائیگی
کے وقت ملک وملت کو کورونا سے نجات کے لیے اجتماعی طورہر خصوصی دعائیں کرنا
چاہئے۔ پاکستان ہمارا وطن ہے اور اس میں رہنے والے سب ہی ایک قوم کی
مانندہیں،ہم میں سے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کم ازکم عید الفطر کے
دن ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوں ،گو کہ یہ عید سوگوار ہے ،لوگ کس طرح
خوشی منا سکتے ہیں لیکن بچے تو ان باتوں سے بے نیاز ہوتے ہیں، غریبوں کو
عید کی خوشیاں منانے کا موقع دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم فطرانے کی نقد رقم
عید الفطر کے دن کا انتظار کرنے کی بجائے عید سے پہلے رمضان شریف میں ہی
اپنے اردگرد بسنے والے نادارو مستحقین خواتین وحضرات کو دیں تاکہ وہ اپنی
مرضی سے جو کچھ خریدنا چاہیں خرید کر اپنی خوشیوں کو دوبالا کر سکیں ۔روزے
رکھنے کے بعد ہمارا یہ عمل ربّ کائنات کے حضور انتہائی پسندیدہ اور قابل
قبول ہوگا۔ اس عیدپر ہماری دعا ہے اﷲ اپنی رحمتوں کے صدقے دنیا سے کورونا
کا خاتمے کرے اﷲ کورونا سے شہید ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو
صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|