اِس ذِی شعور دور میں ہر شخص توقیر و تزہیک کو
سمجھتا ہے کہ جہاں اسے انس‘ پیار محبت ‘ اپنائیت اور ہمدردی ملے اس دیس کو
وطن ِ مالوف اور ماں کی گود تصور کرنے لگتا ہے‘ چونکہ انسان کو محبت ہی سے
مسخر کیا جاسکتا ہے۔ بعینہ ِ رمضان المبارک اور عید الفطر کی خوشیاں بھی
باہمی مروت و مودت‘ خصوصی توجہ کی متقاضی ہیں کیونکہ ہمارے محلے‘ علاقے‘
ماحول معاشرے اور پہلو کے گھرانوں میں بھی ہماری طرح احسن تقویم اور خودی
داری کا پیکر انسان بستے ہیں جنہیں غرباء‘ مسکین یتیم ‘ بے سہارا کے نام سے
جانا جاتا ہے ان کے اندر بھی ہماری طرح کا دِل ‘ ہماری طرح اولاد کا غم ‘
ہماری مستورات کی طرح ان کی چار دیواری کی زینت مستورات کی بھی ضروریات ِ
حیات ہیں۔کورونا‘ لاک ڈاؤن نے جہاں بالمعوم پوری ملک‘ بالخصوص غریب کا جینا
دوبھر کر دیا‘ غریب کی عید تو درکنار‘ افطاری کے وقت ان کے بچوں کی دِل
ہلادینی والی حالت ِ زار ہے۔
جیسے ہمیں اپنے اہل و عیال عید کے پُرمسرت موقع پر کپڑے‘ بوٹ‘ جیولری‘
کاسمیٹکس اور اشیاء خورد و نوش ‘عیاش و عشرت کی فرمائش کرتے ہیں بالکل ایسی
طرح ان غریبوں کے سربراہان بنیادی ضروریات کی زد میں ہیں‘ اُن کے بچے بھی
عید کی خوشیوں کا ارمان لیے بیٹھے ‘ان کی بیٹیاں بھی عیاش نہیں‘ لیکن سر پر
دوپٹے کی خواہاں ضرور ہیں لیکن ان کے والدین‘ بھائیوں کے ہاتھ خالی ہیں اگر
آمدن ہے بھی تو معقول نہیں جن سے وہ اپنے معصوم بچوں کو عید کی خوشیوں میں
شریک کر سکیں‘ ایسے بھی ہمارے ہی گرد و نواح میں موجود ہیں جن کے پاس روزہ
افطار کے لیے پانی کے گھونٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور ہماری افطار پارٹی
ختم ہونے میں نہیں آتی ‘ہم عید کی خوشی میں پکوان ‘آرائش کا اہتمام کی
فہرست‘ مہنگے شاپنگ سنٹر کی تیاریاں‘سلام وپیام کا سلسلہ ‘غرض ایک ہنگامہ
برپا ‘ جب کہ پڑوس ہی میں غریبوں کے گھروں میں صف ِماتم ہو رہا ہوتا ہے۔
اِن کے بچے بھوک سے نڈھال رو رو کر سوتے ہیں۔
یہ نادار ‘مفلس‘ یتیم ‘مسکین‘ بہوہ مفلوک ِ الحال‘ کسمپرسی کا شکار تھے یا
مہنگائی کے پہاڑوں نے ان کے ارمان ملیامیٹ کر کے رکھ دئیے۔آج کا دن اس
غریب گھر میں جس کا وارث نہ رہا ہو‘ قیامت کا دِن ہے۔ غریب بیوہ اپنے یتیم
بچوں کو نہلا دھلا کر اور پیوند لگے کپڑے پہنا کر عیدگاہ بھیجنا چاہتی
ہے‘مگر کوئی نہیں ملتا جس کی انگلی پکڑ کر یہ بے وارثے عیدگاہ جائیں۔
جب وہ بیچاری دیکھتی ہے کہ گھر والے کی زندگی میں آج کے دن یہ بچے نئی
جوتیاں پہن کر اور چمکتی ہوئی کامدار ٹوپیاں اوڑھ کر عیدگاہ جاتے تھے اور
آج ان کے پائوں میں پھٹی ہوئی جوتیاں بھی نہیں اور سر پر کامدار چھوڑ سفید
نئی ٹوپیاں بھی نصیب نہیں تو اس کے کلیجے پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے‘وہ روتی
ہے‘تو یہ نادان بچے پوچھتے ہیں: اماں تم کیوں روتی ہو؟ اچھا بتائو کیا ہوا؟
تو وہ غریب آنسو پی کر رہ جاتی ہے اور ان معصوموں کا دل میلا نہیں کرنا
چاہتی۔
جب یہ بچے کسی پڑوسی کے ساتھ عیدگاہ جاتے ہیں اور واپسی کے وقت پڑوسی کے
بچوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں خرید رہے ہیں اور
باپ سے پیسے لیتے جاتے ہیں‘تو یہ ہر شخص کا منہ تکتے ہیں مگر کچھ کہہ نہیں
سکتے۔ گویا ان بھولی اور بے بس آنکھوں سے کہتے ہیں کہ ہم کس سے مانگیں اور
کون ہم کو کھلونے دلوائے؟ہر شہر اور محلے میں ایسے غریب ہیں‘جن کی عید میں
یہ دلخراش نظارے پیش آتے ہیں۔ مگر ہماری آنکھیں بے نور ہیں‘ہمارے دل بے
حس ہیں‘ جو اس کی پروا نہیں کرتے اور اپنی خوشی میں مشغول رہتے ہیں۔قیدی پہ
جیسے روز گزر جائے عید کا‘اتراتے ہیں جو لوگ بدل کر لباسِ نو!
یہ تقسیم روز ِ ازل سے ہے اور تاقیامت رہے گئی اس میں غربا کا صبر ٗ امیر
کاامتحان مطلوب ہے یہ ممکن نہیں سائل ہو اور فریاد رس نہ ہو ‘غریب ہوں اور
سخی نہ ہو ‘یہ درد بھرا بحر بیکراں موضوع ہے ‘عید کی آمد آمد ہے ہمارے
بازاروں میں بے ہنگم رش ہمارے گھروں میں شاپنگ کی اشیاء کو سنھبالنے کی جگہ
نہیں مگر ہماری سوچ اس طرف سے کیوں معدوم ہے کہ ہمارے بچے تین سوٹ لگا سکتے
ہیں تو پڑوسی کا بچے کیوں ایک سے بھی محروم ‘ان کی بیٹیاں سر پر دوپٹہ کے
لیے بھیک مانگی رہی ہیں؟فرمایا: ایسے لوگوں کو ُان کے چہروں سے پہچان لیا
کریں کیوں وہ لوگوں سے لیپٹ کر سوال نہیں کرتے“القرآن)حدیث میں ہے کہ:
بیواؤں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے
کی طرح ہے (بخاری 5353)۔پھر اسوہ حسنہ زندہ و جاوید امثال موجود ایسی ہی
ایک عید کا دِن رحمت کونین ﷺعید گاہ کی طرف تشریف لاجارہے ہیں اثنا ء ِ راہ
ایک بچے کو روتا پایا ‘رونے کی وجہ پوچھی تو جواباً عرض کی آج عید ہے مگر
میرے والدین داغ ِ مفارقت دے گے اور کوئی سرپرست بھی نہیں اکلوتا ہوں اور
روتا اس لیے ہوں کہ میرا کوئی ہوتا تو میں بھی اسکے ساتھ عید کی خوشی
مناتا‘ رحمت العالمین ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے پیارپھرا دلاسہ دِیا اور
فرمایا:بچے اَب تیرا رونا ختم ہو جانا چاہیے کیا تجھے یہ پسند ہے کہ تمہارے
باپ حضرت محمد ﷺہوں تمہاری ماں عائشہ ہوں تمہاری بہن حضرت فاطمہ رضی اللہ‘
تمہارے بھائی حسن و حسین ؓ ہوں ‘بس یہ فرماتے ہوئے اس کو گھر لے آئے اور
فرمایا کہ اس بچے کو نہلاؤ ‘حسن و حسین ؓ کے کپڑے پہناو‘ خوشبو لگاؤپھر
ساتھ عید گاہ تشریف لے گے ‘امت ِ مسلمہ کی تاریخ غم خواری‘ ایثار‘ محبت
‘بھائی چارہ سے بھری پڑی ابوالحسن خر قانی ؒ راہِ سلوک میں مجائدہ ِ نفس کے
سفر پر عید کے دن خراسان کے جنگل میں محوِ ریاضیت ہیں کہ ایک یتیم بچہ
رورہا تھا اور ساتھ پانچ چھ بچے ہنسی خوشی اخروٹ سے کھیل رہے ہیں مگر پہلو
میں یہ یتیم رو رہا ہے ‘یہ منظر دیکھا تو ابوالحسن ؒکا درد مندانہ پیمانہ ِ
صبر لبریز لب ِ بام آگیا وہ جنگل کی طرف جا کر گری ہوئی کھجوریں اُٹھا
اُٹھا کر صاف کی اور دامن میں ڈال کر راستے میں آگے کھجوریں فروخت کرنا
شروع ہو ئے تو کسی نے پوچھا: حضرت آج عید کا دِن اور آپ ساری خوشیاں چھوڑ
کر اس جنگل میں کھجوریں چن چن کر صاف کر کے فروخت کر رہے ہیں؟بھلا آپ کو
کیا پڑیں تو ابوالحسن خرقانی یوں گویا ہوئے: کھجوریں اس لیے صاف کر کے
فروخت کر رہا ہوں کہ ان سے جو رقم ملے گی اس سے اخروٹ خرید کر اس یتیم بچے
کو دونگا تاکہ وہ بھی بچوں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہو۔
یہ امثالیں ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہیں‘ اِسلام نام ہی خیر خواہی کا‘فطرانہ
بھی ہمارے لیے یہی پیغام ہے کہ اپنی خوشیوں میں ان غربا ء کو بھی شامل کریں
جو مفلوک ِ الحال ضرور مگر لیکن خودار بھی ہیں۔ رَب العالمین کا فرمان: کون
ہے جو اللہ کو قرض ِ حسنہ دے“آج ہمارے زکوۃ نہ دینے‘ بروقت فطرانہ کی عدم
ادائیگی کے باعث ہمارے اپنے ہی محلہ میں غریب بھوکے‘ عید رو کر گزرانے پر
مجبور ہیں۔فرمایا: اُس محلہ کی حفاظت اللہ نہیں کرتا جس میں کوئی بھوک سوتا
ہے۔ یہ مال‘ دولت قارون کے پاس نہ رہا تو ہمارے پاس کب رہے گا؟ یہ بہ روز ِ
محشر سانپ ہو گا اور ہمارے لیے عذاب۔ہمیں فطرانہ وہ جو ہماری دولت میں غربا
کا حصہ‘ حق ہے۔وہ ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ہماری دولت کا اگر حساب بھی
نہیں تو بھی ہم فطرانہ میں کم سے کم اعداد و شمار وہ بھی اپنی سب فضولیات
پر صرف کرنے کے بعد عید کی صبح فطرانہ دیں گے تو یہ بے سارا لوگ کیسے عید
منائیں گے؟ وہ اطفال ِ غریباں جنہوں نے پانی پی کر ہم سے کئی گنا اچھے روزے
رکھے ہوں گے وہ کیسے اِن عید خوشیوں میں شریک ہوں گے؟جن کے بارے میں بشارت
ہے کہ بہ روز محشر رحمت العالمینﷺ جنت میں جاتے ہوئے اور ان کے ساتھ ان کے
اُمت کے غریب ہوں گے۔ اور پھر رحمت العالمینﷺ نے فرمایا مجھے غریب اور
مسکین لوگوں میں تلاش کرو ٗ صاحب ثروت کو غریبوں ہی کی بدولت رزق ملتا ہے۔
اس شان کے لوگ آج ہماری بے حسی نے مظلوم بنا کر رکھ دئیے۔ہماری خریداری تو
صاحب ثروت کی‘ مگر فطرانہ سب سے کم والا‘ کیا یہی انصاف ہے؟
دینی فریضہ یہ ہے کہ صاحب ِ مال غریبوں کا خصوصاً خیال رکھیں اگر ایک صاحب
ِ ثروت فیملی ایک یتیم بے سہار ا ‘ غریب الحال کو عید کا خرچہ دے دیں یا
اِن کی ضروریات کی اشیاء بہم پہنچا دیں تو وہ بھی ان خوشیوں میں شریک ہو
جائیں انہیں سٹرکوں پر بھیک نہ مانگنی پڑے‘ غریب کی بیٹی کو عزت نہ نیلام
کرنی پڑے۔ عید کے موقع پر ان بچوں کو اپنے ہاں بلانا بھی چاہیں ان کے ہاں
جائیں بھی تاکہ ان میں احسا س ِ محرومی پیدا نہ ہو۔ ہمارے ہاں اپنا اسٹیٹس
دیکھا جاتا ہے جب کہ ان مجبور لوگوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے‘ جو
انسانی حقوق کے منافی ہے۔ ہمیں اپنے اردگر د کی خبر لے کر ایسے افراد جو
ہمارے توجہ‘ شفقت ‘ہمدردی‘ غم خواری کے محتاج ہیں ان کا تعاون بروقت کرنا
چاہیے انہیں بھی عید کے رنگ ‘سب کے سنگ میں شامل کریں ان مقدس ایام میں
ہمیں اُمت ِمسلمہ کے لیے خصوصاً دعا کرنی چاہیے جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے
جارہے ہیں جن کی عزتیں عصمتیں محفوظ نہیں جو برما ‘مقبوضہ کشمیر ‘روہنگنیا
‘فلسطین ‘افغانستان ‘اور دیگر جگہوں مظلومیت کا شکار ہیں اگر ہم ان کے
مسائل کے حل میں یہاں اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے مسائل
پریشانیوں کو یاد کرتے ہوئے اللہ کے حضور ان کے لیے دُعا تو کر سکتے ہیں۔
کیونکہ مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں وہ ظلم کی چکی نیچے پس رہے ‘غریب
‘یتیم ‘بے سہارا‘ بیوہ غم و الم میں چُور ہیں ‘ ادیکھا ہے چاند تیری تاریخ
عید کا!اس غمکدے میں کٹ گئی یوں اپنی زندگی ‘اورہم سیمنا ہال میں فلمیں
دیکھیں ‘دعوتیں اُڑائیں تو یہ عید نہیں ‘اُمت ِ مسلمہ کی پستی کی انتہا
ہے۔شاہد انہی مجبوروں کی بدولت ہمارا سامان عیاش بھی بند ہے‘ دُنیا کے پاس
دو ہی حل ہیں یا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کریں ‘یا پوری دُنیا قید
میں رہے ‘ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں عید نصیب کریں۔ اہل اسلام کو
ایڈونس عید مبارک!
|