ناقابل ِ تسخیر

 مجھے سگریٹ سے رغبت نہیں لیکن اس کے باوجود ایک ماچس کی ڈبیا ہروقت میرے پاس ہوتی ہے جانتے ہو کیوں؟ جب بھی کوئی گناہ کرنے کا خیال آتاہے میں ماچس کی ایک تیلی سلگا کر انپی ایک انگلی کے نیچے رکھ لیتا ہوں جس کی تپش برداشت نہیں ہوتی تو میں خودسے سوال کرتاہوں جب یہ ماچس کی ایک تیلی کی آگ تمہاری برداشت سے باہرہے تو جہنم کی آگ کا سامنا کیسے کرے گا۔۔ عظیم باکسر محمدعلی کلے نے ایک انٹرویومیں ان خیالات کااظہارکرکے صحافی کو حیران بلکہ پریشان کرڈالا تھا اس نے یہ بھی کہا تھا’’ کھیلوں میں شہرت اور کمال حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا اور اگر نسل پرستی یا صنف کی بنیاد پر تعصب یا امتیاز کا سامنا رہا ہو تو مشکلیں مزید بڑھ جاتی ہیں‘‘۔ دنیا میں کتنے ایسے لوگ ہوں گے یقینا ان کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جنہوں نے مشکل حالات اور برے رویوں کے باوجود اپنا مقام پیدا کرکے دنیا کو بتادیا کہ عزم و استقلال، خداداد صلا حیتوں جر‘أت کے بل بوتے پر دنیا کو تسخیرکیا جاسکتاہے کیونکہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پرچھوڑنے والے کبھی نامور نہیں بن سکتے ،نامساعد حالات، لوگوں کے روئیے، نسلی امتیاز، غربت یہ سب چیزیں انہیں روکنے کے لئے کافی تھیں لیکن وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور اور مقابل کو چِت کرتے گئے۔ مشکلات کے باوجود انہوں نے ثابت کیا کہ عزم ، جذبہ اور کھیل کی محبت بہت طاقت ور ہوتی ہے۔ اگر وہ حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے تو آج ان کا نام کہیں نظر نہ آتا۔ انہوں نے کچھ ایسا کیا کہ تاریخ میں امر ہو گئے۔ جو لوئس امریکا میں سیاہ فام امریکیوں سے امتیاز اگرچہ اب بھی ہوتا ہے لیکن ماضی میں یہ کہیں زیادہ تھا۔ سیاہ فام کھلاڑیوں کو سفید فاموں کے ہاں پذیرائی نہیں ملتی تھی۔ جو لوئس پہلا افریقی امریکی ایتھلیٹ تھا جسے مین سٹریم امریکا میں ہر طرح کے لوگوں میں شہرت ملی۔ اسے سیاہ فاموں اور سفید فاموں دونوں نے پسند کیا اور یوں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ باکسنگ کے میدان میں ہیوی ویٹ چیمپئن شپ میں اس کی حیران کن جیت نے اسے بھورے بمبار کا لقب عطا کیا۔ وہ ایک ایسا کھلاڑی تھا جو باکسنگ کے ہر مقابلے میں رنگ بھر دیتا تھا اور ہارتے ہارتے جیت جاتا تھا۔ اس کے اندر مقابلے میں واپس آنے کی زبردست صلاحیت تھی۔ اس نے باکسنگ کے میچ میں اپنی واحد شکست کا بدلہ لیا اور جرمن فائٹر میکس شملنگ کو 1938 کے مشہور ری میچ میں شکست سے دوچار کیا۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ میچ ریاست ہائے متحدہ کی نازی جرمنی پر فتح کے مترادف تھا۔ وہ غربت میں پلا بڑھا اور دس برس کی عمر میں اس نے تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ اگرچہ وہ 1937 سے 1949 تک باکسنگ کا اعلی ترین کھلاڑی رہا لیکن اس نے اپنی ساکھ کو خراب نہیں ہونے دیا اور تشدد اور جوئے کا سہارا نہیں لیا، حالانکہ اس کھیل میں یہ چیزیں عام تھیں۔ کھیلوں میں عورتوں کی شمولیت بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے لیکن بیلی جین کنگ نے ناممکن کو ممکن کردکھایا جو کئی عوامل کی وجہ سے آسان نہیں تھا۔ ان میں سے ایک مجموعی معاشرتی رویہ ہے۔ کھیلوں کی تنظیمیں بھی انہیں زیادہ توجہ کا مستحق نہیں سمجھتیں اور انہیں مردوں کے برابر سہولیات ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کھلاڑی عورتوں کے لئے ماضی میں یہ کہیں بڑا مسئلہ تھا۔ بیلی جین کنگ نے اس سلسلے میں خواتین ایتھلیٹس کے لئے بہت کام کیا اور بہت سی تنظیمیں قائم کیں۔ مثال کے طور پر اس نے سپورٹس میگزین کا اجرا کیا اور خواتین ایتھلیٹس کی ایک فاونڈیشن قائم کی۔ وہ عورتوں کو کھیلوں کے میدان میں آگے دیکھنا چاہتی تھی۔ خود اس نے اس میدان میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں اور متعدد بار ومبلڈن چیمپئن بنی۔ البتہ اس کی زندگی کا اہم موڑ تب آیا جب اس نے مردوں کے ومبلڈن رہنے والے بوبی رگز کے چیلنج کو قبول کیا۔ 1973 میں ہوسٹن اسٹروڈوم میں 29 سالہ کنگ نے 55 سالہ رگز کو سٹریٹ سیٹس میں شکست دی۔ اس مقابلے کو صنفوں کی جنگ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ جیسی اوونز وہ پہلا امریکی تھا جس نے ایک اولمپک میں چار سونے کے تمغے جیتے۔ وہ 1913 ء میں پیدا ہوا اور اس کانام جیمز کلیولینڈ اوونز رکھا گیا لیکن وہ مشہور جیسی اوونز کے نام سے ہوا۔ اوونز نے ہائی سکول میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور بہت سے ریکارڈ قائم کیے۔ ابتدا ہی میں اس نے لانگ جمپ کا ریکارڈ قائم کیا۔ اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی پہنچنے پر اس نے مزید ریکارڈ بنائے۔ اس کے کیرئیر کا عروج 1936 ء کے گرما اولمپکس تھا جو جرمنی کے شہر برلن میں ہوئے جن میں اس نے چار سونے کے تمغے جیتے۔ امریکی صدر گیرالڈ آر فورڈ نے 1976 میں اسے صدارتی تمغہ برائے آزادی دیا۔ اوونز کی موت پھیپھڑوں کے کینسر سے 1980 ء میں ہوئی تھی۔ 1990 ء میں صدر جارج ڈبلیو بش نے اسے کانگریشنل گولڈ میڈل دیا۔ چارلی سیفورڈ اس نے پروفیشنل گالف ایسوسی ایشن میں نسلی امتیاز کے خلاف بہت سی رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد کی۔ خود چارلی سیفورڈ کا کہنا تھا کہ وہ کوئی تاریخی کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ جس کھیل کو وہ پسند کرتا ہے اسے کھیل سکے۔ گالف میں اس کی مہارت شمالی کیرولینا میں عہد شباب ہی میں ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھی۔ وہ کام سے فارغ ہونے کے بعد یہ کھیل کھیلا کرتا تھا۔ بالآخر 1952 میں اسے فونیکس اوپن کا دعوت نامہ ملا۔ اس کی اہم کامیابیوں میں پہلے پی جی اے ٹور کو جیتنے کے بعد یو جی اے نیشنل نیگرو اوپن کو پانچ بار جیتنا شامل ہیں۔ وہ پہلا سیاہ فام تھا جسے 2004 میں ورلڈ گالف ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ التھیا گبسن افریقی امریکی عورت تھی جس نے ایک نہیں دو کھیلوں میں شاندار کارنامے سرانجام دئیے اور یہ کھیل ہیں ٹینس اور گالف۔ وہ پہلی سیاہ فام عورت تھی جسے 1951 میں ومبلڈن میں مقابلوں کی دعوت دی گئی۔ 1956 ء میں اس نے فرنچ اوپن جیتی اور 1957 اور 1958 میں ومبلڈن اور یو ایس اوپن کے ٹائٹل اپنے نام کرلئے۔ ایک برس بعد وہ ٹینس کی پروفیشنل کھلاڑی بن گئی۔ گالف میں اس کا کیرئیر مختصر عرصے کا تھا۔ اس میں اس کی کامیابیاں اتنی نہیں تھیں جتنی ٹینس میں تھیں۔ تاہم گالف میں بھی اس نے نسلی اور صنفی امتیاز کی رکاوٹوں کو عبور کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسے 1971 میں انٹرنیشنل ٹینس ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ وہ سانس میں تکلیف کی وجہ سے 2003 میں فوت ہوئی۔ فریڈرک فرٹز پولارڈ وہ این ایف ایل کا پہلا افریقی امریکی کوچ تھا۔ اس کا تعلق شکاگو سے تھا اور 1915 میں وہ براون یونیورسٹی کے لیے سکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ وہ امریکی پروفیشنل فٹ بال لیگ (جسے 1922 میں این ایف ایل کا نام دے دیا گیا) میں ایکرون پروز کی جانب سے کھیلا اور انہیں 1920 ء میں چمپئن بنا کر دم لیا۔ اس نے این ایف ایل کی ٹیموں کی کوچنگ کی اور تنظیم میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی۔ پولارڈ کو 2005 میں ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ محمد علی ذرائع ابلاغ کے دو اداروں بی بی سی اور سپورٹس السٹرڈ نے محمد علی کو بیسویں صدی کا بہترین کھلاڑی قرار دیا۔ وہ گزشتہ صدی کے سب سے مشہور چہروں میں شمار ہوتا ہے۔ جتنی اس کی باکسنگ شاندار تھی اتنی ہی اس کی شخصیت بھی باوقارتھی اس کے دور میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ 1942 ء میں پیدا ہوا۔ اس نے باکسنگ کا آغاز اپنی بائیسکل چوری ہونے کے بعد کیا۔ وہ چور کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اس نے خوب مشق کی اور پانچ برس بعد 1959 میں گولڈن گلووز چمپئن بن گیا۔ 1960 ء میں اس نے اولمپک گولڈ میڈل جیتا۔ وہ پروفیشنل باکسر بنا اور 1960 ء کی دہائی میں ناقابل شکست رہا۔ اس نے ورلڈ ہیوی ویٹ چمپئن شپ جیتی۔ 1964 ء میں اس نے اپنا بچپن کا نام بدل کر نیا نام محمد علی کلے رکھا۔ اس نے ویت نام کی جنگ میں لڑنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کے اس فیصلے پر تنازعہ کھڑا ہوا جس نے اس کے کیرئیر کو متاثر کیا۔ 1981 میں وہ ریٹائر ہوا۔ اس کے بعد اس نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس نے اپنے ملک کی جارحانہ پالیسیوں کی مخالفت کر کے اور جدوجہد میں قربانیاں دے کر ایک مثال قائم کی۔ 2005 میں اسے صدارتی تمغہ برائے آزادی دیا گیا۔ محمد علی کلے کے کھیلنے کاانداز اس قدر دلچسپ تھا کہ یہ کھیل اس کی وجہ سے پوری دنیا میں مقبول ہوگیا بلاشبہ اس نے ثابت کردکھایا کہ وہ ناقابل ِ تسخیرہے اس کا مطلب ہے انسان کی ہمت،قوتِ ارادی،کوشش،محنت اور عزم کے سامنے بڑی سے بڑی رکاوٹ ہیچ ہے اس لئے انسان کو حالات کے آگے کبھی ہارنہیں ماننی چاہیے جبرکے سامنے ڈٹے رہنا ہی جواں مردی ہے۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 336804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.