تحریر : ذہین شاہ
خرم کافی پریشان لگ رہاتھا۔کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ آخر اس
نے فیصلہ کیا کہ وہ بابا جی کے پا س جائے گا۔ اسے یقین تھا کہ با با جی کے
پا س اس کے مسئلے کا حل ضرور ہوگا۔ جب خرم با با جی کے ڈیرے پر پہنچا۔ تو
وہاں کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔ با با جی چائے پی رہے تھے۔ خرم نے سلام
کیا اور پا س ہی بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد چائے خرم کو بھی پیش کی گئی۔
با با جی کے پا س نجانے کون سی سکین مشین تھی۔ وہ چہرے دیکھ کر پریشانی کی
وجہ معلوم کرلیتے تھے۔ خرم بیٹا آج زیادہ پریشان لگ رہے ہو۔ سب خیر ہے ناں۔
با باجی کچھ سمجھ نہیں آرہی کیا کروں۔ کبھی کو ئی پریشانی آجاتی ہے تو کبھی
کوئی۔ مجھے تو ٹھوکریں ہی لگتی رہتی ہیں۔ با با جی مسکرائے ۔ اور بولے۔ خوش
نصیب ہو۔ بیٹا۔ خرم حیران ہوا ۔ کہ میں پریشانی بتا رہا ہوں۔ با با جی فرما
رہے ہیں کہ خو ش نصیب ہو۔ سمجھ نہیں آئی مجھے با با جی۔ ساتھ ہی بابا جی نے
سوال کیا۔ اﷲ کریم سے محبت ہے؟ جی بابا جی بالکل ہے۔ سب کو ہوتی ہے بیٹا
۔لیکن بہت سارے صرف دعوے تک ہی رہتے ہیں۔با با جی کچھ وضاحت فرما دیں۔بیٹا
جب اﷲ کریم نے کسی کو کوئی انعام دینا ہوتاہے تو انسان کو کسی امتحان میں
ڈال دیتاہے۔اور اس امتحان میں کامیابی کا راز صبر اور کامل یقین میں پنہاں
ہوتاہے۔لیکن اکثر اوقات انسان امتحان میں صبر کا دامن چھوڑ دیتا ہے اور
شورمچانا شروع کردیتاہے زبان پر شکوے شکایات لانا شروع کردیتاہے۔تو اس
کامیابی کو نہیں پا سکتا جو اس کے مقد رمیں لکھی جاتی ہے۔پھرپورے انعام سے
بھی محروم ہوجاتاہے۔بیٹا آپ یہ سمجھتے ہیں ناں۔ کہ برُا زہر سانپ کا
ہوتاہے۔ جی بابا جی ایسا ہی ہے۔ نہیں بیٹا سب سے بُرا زہر زبان کا ہوتاہے
جب اس سے بدکلامی کی جاتی ہے جب اس سے کسی کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ سانپ کا
زہر تو مختلف اعضاء سے ہوتا ہوا۔ دل تک جاتاہے۔زبان کا زہر سیدھادل پر وار
کرتا ہے۔تبھی تو زبان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت دی ہے ہمارے پیارے نبی ﷺپاک
نے۔اسی طر ح سوچ کا زہر ہوتاہے۔بُری سوچ بھی زہر آلود ہوتی ہے۔زبان کا زہر
دوسروں کو متاثر کرتاہے۔اور سوچ کا زہر خود انسان کو اندر سے کھوکھلا کر
دیتاہے۔ہروقت کسی کی ٹوہ میں رہنا۔ طنزکرنا۔کسی کی دل آزاری کرنا۔دل میں
حسد رکھنا۔دوسروں کے بارے میں نفرت رکھنا۔یہ سب بیماریاں ہیں جو نظر تو
نہیں آتیں۔لیکن انسان کا دلی سکون غارت کر دیتی ہیں۔خرم کو ایسے لگ رہاتھا
جیسے بابا جی اس کے تمام مسائل بغیر بتائے ہی جانتے ہیں۔اور ان کا حل بھی
بتا رہے تھے۔باباجی نے آخری نصیحت خرم کو یوں کی۔بیٹا جی جب کوئی بلاوجہ آپ
کی ٹوہ اور نگرانی کرے تو اس کو کرنے دو۔ اس بات کو دل ودماغ میں جگہ بھی
نہ دو۔ بس اس کے لیے دعا کرو ۔ کہ اﷲ کریم اس کو اس بیماری سے نجات
دے۔کیونکہ جب کسی کے لئے بغیر کسی غرض کے اﷲ کریم سے مانگا جاتاہے۔تو وہ
ایسا سخی ہے کہ پہلے دعا مانگنے والے کو عطا کرتاہے پھر اس کو جس کے لیے
دعا مانگی جاتی ہے۔بیٹا جب آپ کسی کو کچھ عطا کررہے ہوتے ہیں اور دل میں
ریاکاری کی نیت بھی نہیں ہوتی۔فقط مالک کی رضا کے لیے عطا کررہے ہوتے ہیں
تو گویا آپ اپنے مالک کی صفت اختیار کر رہے ہوتے ہیں پھر آپ پر فضل ہی فضل
اور کرم ہی کرم ہورہا ہوتاہے۔خرم بس غور سے سن رہا تھا۔بابا جی کے لہجے میں
ایک عجیب سا سکون اور یقین تھا۔ خرم اپنے آپ کو بہت پرسکون محسو س کر رہا
تھا ۔اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے کوئی پریشانی تھی ہی نہیں ۔باباجی کی اس
دعا کے ساتھ خرم رخصت ہوا۔اﷲ کریم آپ کو آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم
کرنے کا شرف عطا کرے۔ آمین۔
|