بلوچستان میں نسل کے خاتمے کے خطرے سے دوچار تیندوے کا جوڑا دریافت

image
 
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے قریب جنوب مغرب میں کوہ چلتن میں تیندوے کا ایک ایسا جوڑا پایا گیا ہے جس کی نسل خطرناک حد تک معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
 
محکمہ جنگلات و جنگلی حیات بلوچستان کے چیف کنزرویٹر شریف الدین بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ کوہ چلتن میں چیتے کا جو جوڑا پایا گیا ہے ان کو پرشیئن لیپرڈ کہا جاتا ہے جن کا مسکن زیادہ تر ایران سے لے کر وسطی ایشیا کے علاوہ بلوچستان سے سندھ تک کے علاقے ہیں۔
 
یہ چیتے صحراﺅں کی بجائے طویل اور دشوار گزار گھاٹیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
 
محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر کا کہنا تھا کہ 2011-12 میں مکران کے علاقے کلگ میں اس چیتے کے شکار کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔ اس کے بعد 2013 میں سکھر کے قریب ایک چیتے کی موجودگی رپورٹ ہوئی تھی لیکن اس کے بعد پہلی مرتبہ یہاں ثبوت اور تصاویر کے ساتھ ان کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ’جب چلتن پارک میں اس کی موجودگی کے نشانات ملے تو اس کے بعد چلتن پارک کے عملے کو ہم نے کیمرے اور دور بین وغیرہ لے کر دیے۔‘
 
image
 
انھوں نے بتایا کہ چلتن پارک کے منتظم نذیر احمد کرد، طارق شاہوانی اور فارسٹ گارڈز کی محنت کی وجہ سے یہ باقاعدہ طور پر نظر آیا ہے۔
 
چلتن نیشنل پارک ہزار گنجی کے منتظم اور محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے ڈپٹی کنزرویٹر نذیر احمد کرد نے بتایا کہ اس علاقے میں کئی دہائیوں سے رشئین لیپرڈ کی موجودگی اطلاع تھی لیکن ایک جوڑے کے پاﺅں کے نشانات ملنے کے بعد گذشتہ سال اکتوبر میں ان کی باقاعدہ تلاش شروع کی گئی۔
 
اس علاقے میں رشیئن لیپرڈ کی تلاش پر جو عملہ مامور تھا اس کے ساتھ کوئی الگ سے کیمرہ مین نہیں تھا بلکہ تیندوے کی تصاویر اور ویڈیوز چلتن نیشنل پارک میں گیم واچر کے طور پر کام کرنے والے محمد الیاس نے بنائی ہیں۔
 
اس سے پہلے دیگر جانوروں کی عکس بندی بھی وہی کرتے رہے ہیں۔
 
نذیر احمد کرد نے بتایا کہ پارک انتظامیہ کے گارڈز کی مسلسل چھ مہینے کی سخت کوششوں سے اس نایاب جانور کو مئی کے اوائل میں کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کیا گیا۔
 
نذیر کرد کا کہنا تھا کہ ’چلتن میں نظر آنے والا تیندوا جس رعب اور بے خوفی کے رویے کا مظاہرہ کر رہا تھا اس سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس مسکن اور اس کی ہر چیز کا مالک وہی ہے۔‘
 
image
 
’اس کی بے خوفی اور اطمینان کو دیکھ کر ہمیں یہ محسوس ہوا کہ یہ جانور یہاں محفوظ ہے۔‘
 
چلتن نیشنل پارک محفوظ پناہ گاہ
انھوں نے اس نایاب اور بڑے شکاری جانور کی موجودگی کو چلتن نیشنل پارک کے اہلکاروں، محکمہ جنگلات و جنگلی حیات سمیت بلوچستان کے لیے ایک اعزاز قرار دیا۔
 
image
 
چلتن نیشنل پارک میں مختلف انواع و اقسام کے پرندے اور جانور پائے جاتے ہیں تاہم شریف الدین بلوچ نے بتایا کہ چلتن کی شہرت معدومی کے خطرے سے دوچار ’وائٹ گوٹ‘ یعنی چلتن مارخور کی وجہ سے ہے جو کہ پوری دنیا میں صرف یہاں پایا جاتا ہے۔
 
انھوں نے بتایا کہ 1980 کی دہائی سے قبل چلتن مارخور کی تعداد پچاس ساٹھ کے لگ بھگ تھی لیکن مقامی قبائل کے تعاون اور چلتن پارک کے عملے کی وجہ سے چلتن مارخور کی تعداد پندرہ سو سے زائد ہو گئی ہے۔
 
نذیر احمد کرد کا کہنا تھا کہ ’چیتے کی موجودگی چلتن مارخور اور پہاڑی بکروں کو چست اور فٹ رکھنے میں مدد گار ثابت ہونے کے علاوہ قدرتی ماحول میں توازن پیدا کرنے کے لیے سود مند ثابت ہو گی۔‘
 
image
 
شکاری جانور دوسرے جانوروں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان چیتوں کے تحفظ کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے گی۔‘
 
’ہم آئی یو سی این، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور چیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے بھی رابطہ کر کے ان کے تحفظ کے لیے تعاون اور مدد لیں گے۔‘
 
انھوں نے کہا کہ ان کے تحفظ کے لیے ہمیں جہاں مزید وسائل اور عملے کی ضرورت ہو گی وہاں ہم لوگوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان چیتوں کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
 
’آئی یو سی این اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے دیگر بین الاقوامی اداروں کے مطابق چیتے کی یہ نسل معدومی کے سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ ہمارے پاس موجود ہیں۔ اگر یہ ختم ہو گئے تو ان کو دوبارہ لانا ممکن نہیں ہو گا اس لیے حکومت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان کی حفاظت کریں۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’چلتن کے ساتھ متعدد دیگر پہاڑی سلسلے کوہ ماران، تکتو، کوہ مردار، ررغون وغیرہ ہیں۔ اگر ہم اس کو یہاں تحفظ دیں گے تو اس کی آبادی دیگر علاقوں تک پھیلے گی۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: