مصر جانے والی پی آئی اے کی وہ پرواز جس کے صرف چھ مسافر ہی زندہ قاہرہ پہنچ سکے

image
 
’میں اس واقعہ پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔ آپ مجھ سے اس واقعے پر بات مت کیجیے کیونکہ میں اُسے یاد ہی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ میری بھتیجیاں اور دوسرے بچے بھی اس بارے میں پوچھتے ہیں لیکن میں اُن سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ ان باتوں کو میں یاد ہی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں وہ سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں۔‘
 
یہ اُن چھ مسافروں میں سے ایک کا کہنا تھا جو آج سے ٹھیک 56 برس قبل یعنی 20 مئی 1965 کی صبح پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 705 کو قاہرہ میں پیش آئے حادثے میں زندہ بچ گئے تھے۔
 
’دی ٹائمز‘ لندن کے مطابق زندہ بچ جانے والے چھ انسانوں کے علاوہ اس پرواز پر سوار چھ بندر بھی زندہ بچ گئے تھے۔
 
مڈل ایسٹ نیوز ایجنسی کے مطابق بچ جانے والوں میں جلال الکریمی وہ واحد مسافر تھے جو حادثے کے بعد جائے حادثہ پر چل پھر رہے تھے۔ حادثے کے بعد طیارے کے ملبے میں آگ لگی ہوئی تھی اور جلال زخمی حالت میں بچ جانے والے مسافروں کی تلاش کر رہے تھے۔
 
چند گھنٹوں بعد جب ہنگامی امداد پہنچی تو انھوں نے زرد رنگ کا رومال ہلا کر مدد کے لیے اشارہ دیا تھا۔ انھوں نے چند اور مسافروں کی زندگیاں بھی بچائی تھیں۔ جلال الکریمی نے ہسپتال میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’پرواز کے لینڈ کرنے سے دس منٹ پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ اپنی حفاظتی بیلٹیں باندھ لیں۔‘
 
’اور اس کے چند لمحوں کے بعد زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی دی گئیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میں زمین پر چل رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک دوست صلاح الدین کو دیکھا اور انھیں ملبے سے باہر نکالا۔ پھر میں نے دو اور مسافروں کو ملبے سے باہر نکالا۔ اُس وقت دھند سی تھی۔‘
 
زندہ بچ جانے والے مسافر
 
image
 
حادثے پر جس صدمے کا اظہار جلال الکریمی نے کیا ایسی ہی حالت ایک اور بچ جانے والے مسافر صلاح الدین صدیقی کی ہے۔ وہ حادثے کے وقت پی آئی اے کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے۔
 
وہ اب لندن میں رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے بچ جانے کے واقعے کو یاد کرتے ہیں بلکہ بچ جانے والے دیگر مسافروں کے نام بھی انھیں یاد ہیں۔
 
اس حادثے میں بچ جانے والوں میں صلاح الدین (وہ خود)، یونیورسل ٹریولز کے شوکت میکلائی، پی آئی اے کے سٹیشن مینیجر جلال الکریمی، کراچی کے ایک ہوٹل ڈی فرانس کے مالک عارف رضا (یہ ہوٹل کراچی ایئرپورٹ کے قریب سٹار گیٹ کے سامنے ڈرگ روڈ پر واقع تھا)، گلوبل ٹریولز سے وابستہ ظہور اور ایرو ٹریولز کے امان اللہ کھانڈے والا شامل تھے۔
 
حادثے سے پہلے کے لمحات کا آنکھوں دیکھا حال
 
image
 
’مومی گُل درانی نے صبح کے تقریباً پونے تین بجے قاہرہ ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی اس پرواز کے اُترنے کا اعلان کیا۔ ’اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیجیے‘ اُنھوں نے یہ اعلان طیارے کے پچھلے حصے میں کھڑے ہو کر کیا تھا۔ اس کے بعد وہ قریب ہی ایک خالی نشست پر بیٹھ گئیں۔‘
 
حادثے سے کچھ دیر پہلے کا یہ منظر صلاح الدین صدیقی نے بی بی سی کو بتایا۔
 
صدیقی صاحب آج کل لندن میں مقیم ہیں جہاں وہ اپنے بیٹے مبین صدیقی کے ساتھ رہتے ہیں۔ سنہ 1965 کے حادثے کے بعد جب ان کی صحت بحال ہوئی تو ایئر مارشل نور خان اُن کا پرواز سے پیدا ہونے والا خوف دور کرنے کے لیے ایک طیارے پر انھیں ڈھاکہ لے گئے تھے۔
 
اس کے بعد ان کا لندن ٹرانسفر ہو گیا۔ پھر بعد میں انھیں جنرل مینیجر شعبہ تعلقات عامہ کے عہدے پر ترقی ملی۔ صلاح الدین صدیقی بھی اس حادثے کو یاد نہیں کرنا چاہتے ہیں، انھیں دوستوں اور ساتھیوں کی جدائی کا آج بھی گہرا دُکھ اور صدمہ ہے۔
 
میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے بی بی سی اردو کے سابق ساتھی راشد اشرف کے ذریعے ان سے رابطہ کیا جن کے صلاح الدین صدیقی سے اچھے تعلقات ہیں اور اسی وجہ سے وہ بی بی سی سے بات کرنے کے لیے راضی ہو گئے۔
 
’اللہ نے مجھے موت کے منھ میں ڈال دیا اور پھر اسی نے مجھے بچا لیا۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔‘
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’مومی گل قاہرہ ایئرپورٹ پر اترنے کے آخری اعلان کے بعد جس نشست پر بیٹھی تھیں وہ میرے ساتھ والی بائیں جانب کی تھی۔ دائیں جانب ایک اور ٹریول ایجنٹ بیٹھے ہوئے تھے۔‘
 
’تھوڑی دیر بعد ہی طیارہ ایک دھماکے سے زمین سے ٹکرایا اور پھر مجھے ہوش نہ رہا۔ جب کچھ ہوش آیا تو دیکھا کہ ہر جانب لاشیں تھیں اور طیارے کا ملبہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔‘
 
’جلال نے مجھے اور شوکت میکلائی کو ملبے سے زندہ نکالا تھا۔ اُس نے شاید اور مسافروں کو بھی بچانے کی کوشش کی۔‘
 
image
 
ایک رپورٹ کے مطابق مصر میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے اچھے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ایئرپورٹ سے فقط بارہ میل کے فاصلے پر موجود جائے حادثہ پر ہنگامی امداد پانچ گھنٹوں کے بعد پہنچی تھی۔
 
صلاح الدین بتاتے ہیں کہ ’کچھ دیر بعد ایک مصری ہیلی کاپٹر وہاں آیا، جس پر زخمیوں کو قاہرہ کے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں پتہ چلا کہ میرے بائیں جانب بیٹھی ہوئی مومی گل اور دائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک ٹریول ایجنٹ دونوں حادثہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا اور بچ گیا۔‘
 
’صحرا میں آگ کا گولا‘
پی آئی اے کی یہ پرواز کراچی سے براستہ ظہران، قاہرہ اور جنیوا، لندن کے لیے رواں دواں تھی۔
 
قاہرہ میں اپنے دوسرے سٹاپ پر جب یہ پرواز اُتر رہی تھی تو ایئرپورٹ سے 12 میل پہلے زمین سے ٹکرا گئی۔ چند گھنٹے قبل ہی اس پرواز نے ظہران سے اڑان بھری تھی اور جمعرات کی صبح تقریباً دو بج کر پچاس منٹ پر اس نے قاہرہ کے ایئرپورٹ پر اترنا تھا۔
 
لیکن خبر رساں ادارے یونائیٹڈ پریس ایجنسی (یو پی آئی) نے 21 مئی کو خبر بریک کی کہ ’پی آئی اے کا بوئنگ 720 بی جیٹ، جو 113 مسافروں اور عملے کے 13 ارکان کو لے کر جا رہا تھا، جمعرات کی صبح قاہرہ کے بین الاقوامی ایئرپورٹ سے 19 کلو میٹرکے فاصلے پر گر کر تباہ ہو گیا۔‘
 
فرانس کی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’اس حادثے میں 120 افراد ہلاک ہوئے۔ (ہلاکتوں کی مختلف تعداد بیان کی جاتی ہے لیکن ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے مطابق ایک سو اکیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔)
 
شوکت میکلائی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ صحرا میں ریسکیو ورکرز سے پہلے وہاں پہنچنے والے مقامی بدّو عرب مرے ہوئے لوگوں کی اشیا چوری کرنے پہنچ گئے تھے۔ جب مصری حکام آئے تو انھوں نے بچ جانے والے زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد پہنچائی اور لاشوں کو جمع کرنا شروع کیا۔
 
لندن کے دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مصری فوجی ہیلی کاپٹر قاہرہ کے اُس صحرا سے پی کے 705 پرواز کے حادثہ میں بچ جانے والے چھ مسافروں اور 121 افراد کی جلی ہوئی لاشوں کو لے کر قاہرہ کے ایئر پورٹ کے مضافات میں ’ہیلیوپولِس‘ کے ہسپتال لایا تھا۔
 
image
 
ٹرانسِسٹر میں سوا لاکھ کے زیورات
بعد میں لندن کے اخبار دی ٹائمز کی 26 مئی کی ایک خبر کے مطابق مقامی پولیس نے اطلاع دی کہ طیارے کے ملبے میں ایک ٹرانسسٹر ریڈیو ملا تھا جس میں قیمتی زیورات تھے جن کی مالیت ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر بتائی گئی تھی۔
 
پی آئی اے کے ذرائع سے اس کے مالک یا مالکہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
 
مسافروں کی شہریت
ایجنسیوں کے حوالے سے اخبارات نے رپورٹ کیا تھا کہ حادثہ میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کی میتوں کو قاہرہ میں دفنایا گیا تھا البتہ چند میتوں کے ورثا شناخت کرنے کے بعد اپنے اپنے ممالک لے گئے تھے۔ قاہرہ میں دفنائے گئے تمام مسلمان نہیں تھے تاہم اجتماعی تدفین مسلمانوں کے طریقے سے کی گئی۔
 
دی ٹائمز کے مطابق ہلاک ہونے والے مسافروں میں دو مسافر عبدالوارث اور شفیق اللہ برطانوی شہری تھے، مسٹر ہوورڈ، مسز ہوورڈ اور مس الزیبتھ کی شہریت نامعلوم بتائی گئی۔ مسٹر ہوفمین، مسٹر ٹیری اور مسز ٹیری کی شہریت میں ’غیر ملکی‘ درج تھا جبکہ ڈیوڈ لو امریکی شہری تھے، سات چینی شہری تھے اور باقی پاکستانی۔
 
ایک صحافی جو سوار نہ ہو سکے
 
image
 
صلاح الدین صدیقی بتاتے ہی کہ اس افتتاحی پرواز میں مسافروں میں کچھ تو ٹکٹ لے کر سوار ہوئے تھے لیکن زیادہ تر ٹریول ایجنٹس تھے جن کے نام پی آئی اے کے مختلف شعبوں کے مینیجروں نے تجویز کیے تھے۔ ایک پی آئی اے کے کمرشل ڈائریکٹر تھے، باقی صحافی تھے جن کا انتخاب اخبارات کی انتظامیہ یا مالکان نے کیا تھا۔
 
کراچی کے ایک فوٹوگرافر اور مصنف و محقق ایس ایم شاہد نے بتایا کہ اس وقت کے کراچی کے ایک بڑے اخبار روزنامہ ’انجام‘ سے وابستہ صحافی طفیل احمد جمالی کو بھی ریٹائرڈ میجر جنرل حیا الدین کی جانب سے دعوت ملی ہوئی تھی۔
 
لیکن جب وہ سوار ہونے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ اُن کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ ایس ایم شاہد کہتے ہیں کہ ’جنرل حیاالدین اور کئی لوگوں نے کوشش کی کہ وہ کسی بھی طرح سوار ہو جائیں لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا اور بالآخر وہ مایوس ہو کر گھر چلے گئے۔ وہ بہت ناراض تھے۔‘
 
’اگلی صبح اخبار میں دیکھا کہ حادثہ ہو گیا۔ وہ پہلے تو روئے پھر بہت خوش ہوئے۔ وہ اور اُن کی اہلیہ بعد میں بہت شکر ادا کرتی رہیں۔‘
 
’میں سینیئر صحافی کے حق میں دستبردار ہو گیا‘
 
image
 
زوار حسن اُس وقت ’مارننگ نیوز‘ میں سینیئر اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر تھے۔ مارننگ نیوز نیشنل پریس ٹرسٹ کا اخبار تھا اور اُس وقت اُس کے ایڈیٹر محسن علی تھے۔
 
زوار حسن اب 96 برس کے ہیں اور کیلیفورنیا کے ’بے ایریا‘ کے ایک ساحلی شہر میں اپنے تین بچوں اور اہلیہ کے ہمراہ ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بی بی سی نے اُن سے کیلیفورنیا میں رابطہ کیا اور سنہ 1965 کی قاہرہ جانے والی پی آئی اے کی پرواز کے بارے میں بات کی۔
 
زوار حسن نے بتایا کہ ان کے ’ایڈیٹر محسن علی نے اس پرواز سے چند دن پہلے مجھے بلایا اور کہا کہ پی آئی اے کی قاہرہ کے لیے افتتاحی پرواز روانہ ہو رہی ہے، اس میں ٹریول ایجنٹس اور صحافیوں کو دعوت دی گئی ہے۔ تم سینیئر بھی ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہو اس لیے تم اس پرواز میں چلے جاؤ۔‘
 
زوار حسن اپنے روانہ نہ ہونے کی وجہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایڈیٹر کی جانب سے نامزدگی کی اطلاع میں نے نیوز روم میں اپنے ساتھیوں کو دی۔ وہاں میرے ایک سینیئر سبطِ فاروق فریدی بھی موجود تھے اور جنھیں احترام کی وجہ سے میں سبطِ بھائی کہتا تھا۔‘
 
’قاہرہ کا سُن کر سبطِ بھائی خوش ہوئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں کچھ تحقیق کر رہا تھا اور مجھے اس کے لیے مصر جانا تھا۔ کاش میں اس پرواز میں قاہرہ جاتا اور اپنا کام بھی کر لیتا۔ میں کچھ دیر بعد ایڈیٹر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ میری جگہ سبطِ بھائی کو بھیج دیجیے۔ میں سینیئر صحافی کے حق میں دستبردار ہو گیا۔‘
 
زوار حسن کہتے ہیں کہ انھیں خوشی ہوئی تھی کہ سبطِ فاروق اس سفر میں جائیں گے اور اپنی ریسرچ مکمل کر سکیں گے۔ ’لیکن اُس وقت کس کو معلوم تھا کہ یہ پرواز انھیں موت کی جانب لے جائے گی۔ جب حادثہ پیش آیا تو عجیب سی خوشی بھی ہوئی لیکن سوچا کہ اگر چلا جاتا تو سبطِ بھائی بچ جاتے۔‘
 
انھیں ایک اور صحافی کے اس پرواز میں سوار ہونے کا واقعہ بھی یاد آیا۔
 
’ایک صحافی تھے خالد، وہ کراچی جم خانہ کے سامنے ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ انھوں نے اچانک اس پرواز میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہوٹل سے اٹھے اور ایئر پورٹ پہنچ گئے۔‘
 
زوار حسن یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایم بی خالد نے ’گیٹ کریشر‘ صحافیوں کے اپنے مخصوص انداز میں پوری کوشش کی کہ وہ طیارے میں سوار ہو جائیں لیکن ان کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ عملے نے اور دیگر متعلقہ سٹاف نے صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک پاسپورٹ نہیں ہو گا آپ سوار نہیں ہو سکیں گے۔
 
’خِالد مجبوراً ایئر پورٹ سے نکلے اور کسی بھی طرح جلدی جلدی کراچی شہر میں اپنے گھر پہنچے، وہاں اپنا پاسپورٹ تلاش کیا اور پھر ایئر پورٹ واپس پہنچے۔ پرواز یا تو اُن کا انتظار کر رہی تھی یا شاید ابھی اتنا وقت تھا کہ وہ روانہ نہیں ہوئی تھی۔ وہ غالباً پرواز میں سوار ہونے والے آخری مسافر تھے۔‘
 
image
 
جلال الکریمی
پاکستان کے سینیئر صحافی محمد ضیا الدین کہتے ہیں کہ ایک زندہ بچ جانے والے ٹریول ایجنٹ جلال الکریمی زمانہِ طالب علمی میں مشرقی پاکستان میں ان کے جونیئر تھے۔ ’یہ مصری تھے اور اُن کا خاندان آزادی سے پہلے انڈیا آ کر آباد ہو گیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان جا بسا تھا۔ بعد میں جلال کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا تھا۔‘
 
شوکت میکلائی روزنامہ ڈان میں 26 نومبر سنہ 2011 کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ جلال الکریمی نے انھیں جہاز کے جلتے ہوئے ملبے سے باہر نکالا تھا۔ اس لیے وہ جلال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’میں آج اِنہی کی وجہ سے زندہ ہوں۔‘
 
جلال الکریمی کو انگریزی ادب سے گہرا شغف تھا اور ڈراموں کی ہدایتکاری کا بھی شوق تھا۔ عربی ان کی اپنی زبان تھی۔ شاید اسی لیے انھیں سعودی عرب کے ساحلی شہر، ظہران میں پی آئی اے نے اپنا سٹیشن مینیجر تعینات کیا تھا۔
 
حادثے کے لمحات
مصری حکام نے بتایا کہ بوئنگ حادثے کے وقت قاہرہ ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور سے رابطے میں تھا۔ اخباری خبروں کے مطابق مصری حکام کا کہنا تھا کہ طیارے کے کیپٹن نے اس وقت خرابی کی اطلاع دی تھی جب طیارہ لینڈنگ کے قریب پہنچ چکا تھا۔
 
کنٹرول ٹاور نے فوری طور پر ائیرپورٹ عملے کو رن وے پر کھڑے ہونے کے لیے روانہ کر دیا تھا۔ اُسی وقت چند سیکنڈز کے بعد ہی یہ حادثہ پیش آیا۔ ایک مقامی بدّو عرب، جو حادثے کے وقت قریب ہی صحرا میں موجود تھے، نے بتایا کہ انھوں نے اس طیارے کو بہت نیچے اڑتا ہوا دیکھا اور پھر ایک شدید دھماکہ ہوا۔
 
حکام نے کہا کہ ’صحرا اچانک شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ ہم واقعی یہ دیکھنے سے قاصر تھے کہ کیا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ آگ کے شعلے کم ہوئے اور فضا پر خاموش طاری ہو گئی۔ انھی آخری لمحات کو شوکت میکلائی نے شازیہ حسن کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا۔‘
 
’عملے نے اپنے ہیٹس پہن رکھے تھے اور وہ اپنے کیبن کا سامان جمع کر چکے تھے۔ جب طیارہ رن وے 34 کی جانب لینڈنگ کے لیے اتر رہا تھا وہ قاہرہ ایئرپورٹ کے آس پاس ایک دائرے میں چکر لگا رہا تھا اور اس وقت وہ گر کر تباہ ہوا۔‘
 
’بس اُسی لمحے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جب میں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو مجھے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ بجائے اس کے کہ مدد کے لیے پکاروں، میں چیختے ہوئے اپنا نام لے کر شوکت! شوکت! پکار رہا تھا۔ ایک اور مسافر، ایک نوجوان جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا، وہ میری جان بچانے کے لیے پہنچا۔‘
 
’وہ بری طرح زخمی تھا لیکن اس نے مجھے ملبے سے نکال لیا۔ ہمارے چاروں طرف لاشیں اور سامان پڑا تھا۔ میں نے ان میں اپنی بیوی کی بے جان لاش دیکھی۔‘
 
’میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا لیکن میں ساکت رہا۔ ابھی بھی صدمے کی حالت میں، میری زندگی کی ایک فلم میرے ذہن میں گزری۔ میرے بچپن سے اب تک کی زندگی، میں نے جو کچھ دیکھا تھا اور کیا تھا اور وہ چیزیں، جو میں نے بعد میں کرنا تھیں، وہ سب ذہن میں ایک لمحے کے لیے آئیں۔‘
 
’یہ سوچ کر کہ میری زندگی جلد ہی ختم ہو جائے گی میں نے خدا کے بارے میں سوچا اور کہا کہ اگر اس نے مجھے زندگی گزارنے کا ایک اور موقع فراہم کیا تو میں آنے والے دن کا انتظار کیے بغیر ہر کام اسی وقت کروں گا اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کم خوش قسمت لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کروں گا۔‘
 
ایئر ہوسٹس مومی گل درانی
 
image
 
ہلاک ہونے والوں میں چار ایئر ہوسٹس (فضائی میزبان) بھی شامل تھیں جنھیں اس پرواز کی اہمیت کے لحاظ سے خاص طور پر مہمانوں کی خدمت کے لیے پی آئی اے انتطامیہ نے منتخب کیا تھا۔ ان میں ایک ایئر ہوسٹس مومی گل درانی تھیں جو گذشتہ دہائی سے اپنی پُرکشش شخصیت اور حُسن کی وجہ سے پی آئی اے کی شناخت بن گئی تھیں۔
 
مومی گل درانی نہ صرف پاکستان کی قومی ایئرلائن کی ایک شناخت تھیں بلکہ ’ایوی ایشن وائس‘ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پیشہ ورانہ خدمات کی وجہ سے دنیا کی دس بہترین ایئر ہوسٹیسز میں بھی شمار ہوتی ہیں۔
 
مومنہ گل درانی جنھیں ان کے دوست پیار سے مومی گل بھی کہتے تھے، پاکستان کے معروف موسیقار، سہیل رانا کی بیگم قندیل گل کی بہن تھیں۔ قندیل اور سہیل رانا آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ سہیل رانا کہتے ہیں کہ مومی گل ’ایک خوش مزاج، خوش مذاق، خوش روح مشرقی خاتون تھیں۔‘
 
’وہ پی آئی اے کا فخر تھیں اسی وجہ سے ایئر مارشل نور خان ہمیشہ ان کا خیال رکھتے تھے۔ اس پرواز کے عملے میں وہ شامل نہیں تھیں۔ انھیں عموماً خاص خاص پروازوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ لیکن طیارے کے عملے کی ایک ایئر ہوسٹس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور ان کی جگہ مومنہ کو جانا پڑا۔‘
 
سہیل رانا بتاتے ہیں کہ مومنہ درانی کا تعلق افغانستان کے شاہی خاندان سے تھا جن کی نسل ہندوستان میں سہارنپور اور امرتسر میں آکر آباد ہو گئی تھی۔ ’جب مومی بیس اکیس برس کی عمر میں پی آئی اے میں شامل ہوئیں تو وہ جب کسی محفل میں آتیں تو لوگ ان کے لیے احتراماً ایسے کھڑے ہوجاتے جیسے وہ ایک شہزادی ہوں۔‘
 
اس طیارے کے زندہ بچ جانے والے ایک مسافر شوکت میکلائی نے 26 نومبر 2011 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ دورانِ پرواز اپنی نشست پر ’قبضہ‘ ہو جانے کی وجہ سے طیارے میں سٹاف سے باتیں کرنے لگ گئے تو وہاں ان کی مومی گل سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔
 
’مومی گُل اُس وقت بہت زیادہ خوش مزاج نظر نہیں آئیں۔ تو میں نے اُن سے کہا کہ مجھے کمپلینٹ کارڈ دیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا آپ شکایت کرنا چاہتے ہیں؟ تو میں نے کہا بالکل، یہ پی آئی اے کی اہم پرواز ہے اور آپ کا رویہ بہت اچھا نہیں ہے۔‘
 
اس پر مومنہ گل نے کہا کہ ’رولز کے مطابق انھیں اس پرواز پر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ وہ مسلسل دوسری پرواز پر بھیج دی گئی تھیں۔ شاید اس لیے ان کا مزاج اتنا اچھا نہیں تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔‘
 
تھوڑی دیر بعد طیارے کے عملے نے مداخلت کرکے شوکت میکلائی کی نشست خالی کرا دی اور وہ وہاں بیٹھ گئے۔
 
image
 
شوہر بچ گئے، اہلیہ ہلاک ہو گئیں
شوکت میکلائی جن کا اوپر ذکر آیا ہے، لکھتے ہیں کہ جب اس افتتاحی پرواز کا اعلان ہوا تھا تو ان کا نام مسافروں کی فہرست میں نہیں تھا لیکن انھوں نے پی آئی اے کے حکام سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ ان کی زیادہ ٹکٹیں فروخت کرتے ہیں اس لیے انھیں اس پرواز میں شامل کیا جائے۔
 
میکلائی کی کوشش کے بعد پرواز سے چند گھنٹے پہلے ان کا نام شامل کیا گیا۔ انھوں نے اپنی اہلیہ بانو میکلائی کا نام بھی شامل کروایا۔ یہ دونوں جب طیارے میں سوار ہوئے تو دیر سے فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے دونوں کو ساتھ ساتھ نشستیں نہ مل سکیں۔
 
شوکت میکلائی کو طیارے میں سب سے آخری قطار میں ایک نشست ملی تھی جبکہ ان کی اہلیہ اگلی قطار کی نشست پر دوسرے دوستوں کے ساتھ بیٹھیں تاہم بقول ان کے دورانِ پرواز وہ باقی دوستوں کے ساتھ برِج کھیلنے کے لیے اگلی نشستوں پر چلے گئے تھے۔
 
لیکن جب پرواز قاہرہ ایئرپورٹ پر اترنے والی تھی تو وہ پیچھے اپنی نشست پر بیٹھنے چلے آئے۔
 
شوکت میکلائی نے لکھا تھا کہ جب وہ واپس اپنی نشست پر آئے تو وہاں کوئی اور مسافر بیٹھا ہوا تھا۔ ’میں کہیں اور بیٹھ سکتا تھا لیکن میں نے اصرار کیا کہ اپنی ہی نشست پر بیٹھوں گا۔ لہٰذا طیارے کے عملے نے مداخلت کر کے مجھے اُسی نشست پر بٹھا دیا جہاں میں بیٹھا ہوا تھا۔‘
 
ہلاک ہونے والے چند معروف پاکستانی
 
image
 
پی آئی اے کی لگژری بوئنگ 720 بی پرواز کے حادثہ میں زندہ بچ جانے والے چھ مسافروں کو مضافاتی شہر ہیلیوپولس کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں اُن میں سے دو کے آپریشن بھی کیے گئے تھے۔
 
طیارے میں شامل افراد میں پاکستانی صحافی بھی شامل تھے، جن میں مسٹر اے کے قریشی بھی شامل تھے جو ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر تھے اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین میجر جنرل حیاالدین بھی شامل تھے۔
 
میجر جنرل حیا الدین ابتدا ہی سے فوج کے محکمہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ان کا تعلق ضلع مردان سے تھا۔ جن چند صحافیوں سے بات ہوئی انھوں نے انھیں ایک شریف انسان اور پروفیشنل فوجی اور خوشگورا تعلقات عامہ کا افسر قرار دیا ہے۔
 
اس زمانے میں روزنامہ امروز کے چیف نیوز ایڈیٹر حمید ہاشمی بھی پرواز پی کے 705 میں قاہرہ جانے والے مسافروں میں شامل تھے۔ حمید ہاشمی ایک دائیں بازو کے دانشور اور ایکٹیوسٹ تھے۔ ساری عمر ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں فعال رہے۔ امروز میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے۔ سنہ 1952 میں نیوز ایڈیٹر بنے۔ طیارے کے حادثے تک وہ امروز کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔
 
لاہور سے تعلق رکھنے والے اپنے وقت کے معروف پرنٹر اور پریس کے ملک مجید المکی بھی اس جہاز میں سوار تھے۔ ان کے پریس کا نام الائیڈ پریس تھا جو لاہور ہائی کورٹ کے سامنے ایک عمارت میں تھا۔ ان کی سندباد ٹریولز بھی تھی۔ اسی لیے مجید المکی بھی پی کے 705 پرواز میں دعوت دی گئی تھی۔
 
مجید المکی کے دو بیٹے اب لاہور میں اپنے والد کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے سجاد المکی کا کافی عرصہ پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ المکی کے سب سے چھوٹے بیٹے جواد المکی نے بتایا کہ اُن کے والد کو پی آئی اے کی جانب سے دو ٹکٹوں کی پیشکش ہوئی تھی۔ لیکن انھوں نے صرف ایک ٹکٹ ہی قبول کی تھی۔
 
جواد بتاتے ہیں کہ اُن کے والد کو شاید احساس ہو گیا تھا کہ یہ اُن کا آخری سفر تھا۔ ’لاہور سے جب وہ کراچی پہنچے تو انھیں ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں انھوں نے بوئنگ میں سوار ہونے سے پہلے اپنے تینوں بچوں، بیوی، اپنے مینیجر اور ہمارے سکول کے پرنسپل کو اس طرح کے خط لکھے کہ جیسے وہ وصیت لکھ رہے ہوں۔‘
 
’قاہرہ میں حادثے میں ہلاکت کے بعد ہم لوگ پریشان ہوئے۔ ظاہر ہے خاندان کے بڑے کی موت ہم سب کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔ لیکن ان کی موت کے دو تین بعد میرے بڑے بھائی اور ہمیں اُن کے خطوط ملے جن میں انھوں نے مفصل ہدایات دی ہوئی تھیں۔ لگتا ہے کہ انھیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ آخری سفر پر جا رہے تھے۔‘
 
image
 
خبر رساں ادارہ اے پی اور چینی تعلق
پاکستان کی تاریخ میں طیارے کے حادثے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا لیکن یہ سب سے زیادہ المناک تھا۔ اُس زمانے کی ایسوسی ایٹ پریس (اے پی) کی ایک ویڈیو رپورٹ کے مطابق یہ پہلی افتتاحی پرواز تھی جس کے ذریعے چین کو مشرقِ وُسطیٰ سے ملایا جا رہا تھا۔ طیارے میں کئی چینی مسافر بھی سوار تھے۔
 
تاہم اُس زمانے کے پی آئی اے کے پبلک ریلیشننگ افسر صدیقی کہتے ہیں کہ پی آئی اے کی اس افتتاحی پرواز کا چین کو مشرق وُسطیٰ سے ملانے کی پالیسی یا ایسے کسی اعلان کے بارے میں پی آئی اے کے حکام کو کوئی علم نہیں تھا۔
 
چینی فوج کا انجینیئر
ہلاک ہونے والے مسافروں میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے 22 صحافی، ٹریول ایجنٹس، اور معتبر کاروباری شخصیات اور چند ایک سرکاری افسران بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی، لبنانی جرمن اور چینی شہری بھی سفر کر رہے تھے۔
 
ان میں سب سے اہم چینی مسافر پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے لڑاکا طیارے کی چیف ڈیزائنر بھی شامل تھے۔
 
51 برس کے ہوانگ کانگ (ژقیان) پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے افسر تھے۔ ایک چینی بلاگر ووتو لکھتے ہیں کہ ہوانگ ساری زندگی ہوا بازی سے پیار کرتے رہے جیسے کہ وہ صرف ہوا بازی کے لیے ہی پیدا ہوئے تھے۔
 
ان کی بے وقت موت کی وجہ سے چین کے لڑاکا طیارے J-8 کی بروقت تکمیل نہ ہو سکی۔ یہ طیارہ پھر سنہ 1979 میں مکمل ہوا۔ انھوں نے چین کے سوشلسٹ انقلاب سے پہلے امریکہ کی یونیورسٹی آف مشی گن سے ایوی ایشن انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انقلاب کے بعد وہ پی ایل اے میں شامل ہو گئے تھے۔
 
سنہ 1965 کا یہ وہ زمانہ تھا جب صرف ایک برس پہلے خلیجِ ٹونکین میں امریکہ اور شمالی ویتنامی مسلح کشتیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی، اور امریکہ نے جنوبی ویت نام میں اپنے اڈے مضبوط کر کے شمالی ویتنام میں قائم سوشلسٹ حکومت پر حملوں میں تیزی کر دی تھی۔
 
خاص طور پر اس وقت امریکہ کے رہنماؤں کو چین سے خوف تھا کیونکہ وہ ابھی ایک برس پہلے ہی جوہری طاقت بنا تھا اور وہ طویل عرصے سے امریکی مخالفت میں بیان بازی میں مصروف تھا۔
 
اس دوران چین اپنی فوجی طاقت بھی بڑھا رہا تھا جس کے لیے چینی انجینیئرز کے کردار کو کسی بھی طرح کم نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ ایک حقیقت ہے کہ طیارے پر سوار چینی ڈیزائنر کی موت سے چین کے J-8 لڑاکا طیارہ کے بنانے میں بہت تاخیر ہوئی۔ یہ لڑاکا طیارہ اپنی صلاحیت کے لحاظ سے امریکہ کے U-2 اور B-52 بمبار کو انٹرسیپٹ کر سکتا تھا۔
 
تخریب کاری کا کوئی ذکر نہیں ملا
تاہم پی آئی اے کی پرواز پی کے 705 کے بارے میں تخریب کاری کی بات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ البتہ ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی ویب سائٹ بیان کرتی ہے کہ بوئنگ کے غیر معمولی حد تک نیچے آنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔
 
کوشش کے باوجود اس بارے میں نہ بوئنگ کمپنی سے اور نہ ہی پی آئی اے سے کچھ مزید معلوم ہوسکا۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ شاید بوئنگ طیارہ ریت کے طوفان کی وجہ سے نیجے پرواز کرتے ہوئے زمین سے ٹکرا گیا ہو تاہم قاہرہ ایئرپورٹ سے پائلٹوں کا رابطہ تھا اور وہاں سے ریت کے طوفان کی وارننگ کی کوئی شہادت نہیں ملتی ہے۔
 
کیا کوئی فنی نقص پیدا ہوا تھا؟
 
image
 
رات کا وقت تھا اس لیے شاید اکثر مسافر سو رہے ہوں گے۔ طیارہ جب قاہرہ ایئر پورٹ کے قریب پہنچا تو نیچے اترنا شروع ہو گیا تھا۔ ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی سائٹ کے مطابق کیپٹن نے طیارے کے پروں میں موجود فلیپس میں خرابی کی شکایت کی تھی۔
 
طیارے کے فلائیٹ کمانڈر کیپٹن علی اختر خان کو ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور نے رن وے 34 پر اترنے کی ہدایت کی اور انھوں نے طیارے کا اس جانب رخ کر کے نیچے اتارنا شروع کر دیا تھا۔ تب ایک عینی شاہد نے اطلاع دی کہ طیارہ زمین پر گرتے ہی صحرا میں ’آگ کی گیند‘ کی مانند نظر آ رہا تھا۔
 
’یہ شعلوں میں گر کر تباہ ہوا اور سینکڑوں ٹکڑوں میں صحرا میں بکھر گیا۔‘
 
یوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے مطابق اس حادثے کی ممکنہ وجہ یہ تھی کہ ’طیارے نے سرکٹ کے لیے مناسب اونچائی کو برقرار نہیں رکھا اور جب تک یہ زمین سے ٹکرا نہیں گیا یہ تسلسل سے اترتا رہا (تاہم) اس غیر معمولی انداز سے تسلسل کے ساتھ اترنے کی وجہ معلوم نہیں ہے۔‘
 
حادثے کے بعد قاہرہ ائیرپورٹ کے چیف کنٹرولر نے بین الاقوامی انکوائری کمیشن کو بتایا تھا کہ ’بوئنگ‘ کے پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو آگاہ نہیں کیا تھا کہ حادثے سے قبل ان کے ایک انجن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اس نے واقعتاً ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ فلیپس میں خرابی کی بھی شاید کوئی بات نہ ہوئی ہو۔
 
بوئنگ 720 کو پرواز کرتے ہوئے ابھی تین برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے اس لحاظ اسے ایک نیا طیارہ کہا جا سکتا تھا۔ قاہرہ ائیرپورٹ پر طوفان کی بھی تصدیق نہیں ملتی ہے، اسی لیے ماہرین کی نظر میں اس حادثے کے دو امکانات زیادہ واضح نظر آتے ہیں:
 
اول یہ کہ قاہرہ ائیرپورٹ پر فنی نقائص تھے جس کی وجہ سے شاید پائلٹ کو ایئر پورٹ نظر نہیں آیا اور اُس نے ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طیارے کو ایئرپورٹ پہنچنے سے پہلے نیچے کرنا شروع کر دیا۔
 
دوسرا امکان یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی نقص نہ ہو، پائلٹ نے غلط اندازہ لگایا ہو اور اندھیرے کی وجہ سے طیارے کو اتار دیا ہو۔ بہرحال تحقیقات میں کوئی حتمی بات طے نہیں کی گئی۔
 
ائیر وائس مارشل نور خان کی بریفنگ
پی آئی اے کے بوئنگ 720 کے حادثے کی تحقیقات کے لیے مصری حکومت نے ایک اعلیٰ اختیارتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس پرواز کا فلائیٹ ریکارڈر محفوظ حالت میں مل گیا تھا۔ بعد میں پی آئی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر ائر وائس مارشل نور خان نے اس بارے پاکستانی صحافیوں کو آگاہ کیا تھا۔
 
ان ابتدائی تحقیقی معلومات کو پاکستان کے کئی اخبارات نے رپورٹ کیا تھا لیکن ہمیں اس کے بارے میں تفصیلات کراچی کے ایک میگزین ’نگارش‘ میں ملیں جس نے اس حادثے کے بارے میں ایک خصوصی نمبر شائع کیا تھا۔ نگارش کی ایک کاپی کراچی کے محقق ایس ایم شاہد کے پاس اب بھی محفوظ ہے۔
 
اس نگارش میگیزین کے مطابق ’ائیر وائس مارشل نور خان نے کہا ہے کہ طیارہ کے ڈھانچہ میں سے ملنے والے فلائیٹ ریکارڈر بالکل کار آمد ہے اور اس کے نتائج کی انھوں نے ماہرین کے ساتھ آزمائش کی ہے۔۔۔۔‘ نگارش کی رپورٹ کے مطابق ائیر مارشل نور خان 26 مئی کو ایک آزمائشی پرواز میں قاہرہ گئے تھے۔
 
’جب (اُن کی اس پرواز کے) قاہرہ پر تمام مسافر اتر گئے تو ایک آزمائشی پرواز کی گئی جس میں طیارے کو اسی طریقے سے اتارا گیا جس طرح پی آئی اے کا بدقسمت بوئنگ اتارا جانا تھا۔ ائیر وائس مارشل اس پرواز کے لیے طیارے میں سوار تھے۔‘ تاہم انھوں نے ابتدائی تحقیقی سطح پر مزید بتانے سے گریز کیا تھا۔
 
انھوں نے تاہم یہ کہا کہ ’چونکہ کافی قیاس آرائی کی جا رہی ہے اس لیے انھوں نے ضروری سمجھا کہ وہ پبلک کو اب تک کی معلومات فراہم کر دیں۔۔۔‘
 
’بہرحال آزمائشی پرواز کے نتیجے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں اور فلائیٹ ریکارڈر کی ریڈنگ اور قاہرہ کے کنٹرول ٹاور کے ٹیپ کو بجا کر، قاہرہ پہنچ کر طیارہ نے جس وقت آمد کی اطلاع دی، پرواز کے لیے جو راستہ اختیار کیا، آخر وقت جو کچھ ہوا وہ ثابت ہو گیا ہے۔‘
 
’طیارے نے قاہرہ میں گرین وچ ٹائم کے مطابق رات گیارہ بج کر 39 منٹ پر پہنچنے کی اطلاع دی، فضائی کنٹرول ٹاور کی جانب سے طیارہ سے کہا گیا کہ وہ سٹیشن کی حد میں سطح سمندر سے ساڑھے چھ ہزار فٹ رہ گیا ہے۔ گیارہ بج کر 43 منٹ پر فضائی کنٹرول ٹاور نے اس بلندی پر آنے اور رن وے 34 پر اترنے کی اجازت دے دی۔‘
 
رپورٹ کے مطابق طیارہ معمول کے طریقے سے درست انداز میں اتر رہا تھا۔ ’گرین وچ ٹائم کے مطابق رات گیارہ بج کر 48 منٹ پر کیپٹن نے فضائی کنٹرول ٹاور کو آخری رپورٹ دی کہ اور اس امر کی توثیق کی کہ وہ آخری مرحلے میں مڑ رہا ہے۔ اس وقت طیارہ پندرہ سو فٹ کی بلندی پر تھا۔ اس کی فضائی رفتار 173 ناٹ میل فی گھنٹہ تھی اور اترنے والے رن وے کے ابتدائی مقام سے ساڑھے پانچ میل دور تھا۔ اس کا ونگ فلیپ 20 ڈگری پر تھا۔‘
 
’اور نچلا حصہ اوپر ہی اٹھا ہوا تھا اور یہ تمام باتیں بھی اترنے کے عام ضابطوں کے مطابق تھیں۔ فلائیٹ ریکارڈر ظاہر کرتا ہے کہ اس پوائنٹ سے طیارہ اچانک بلندی سے نیچے آیا اور اس کی رفتار 19 ناٹ کا اضافہ ہوا جو 173 سے بڑھ کر 192 ہو گئی اور تقریباً 15 سیکنڈ میں 15 سو فٹ سے بلندی پر گر گیا جہاں وہ اونچی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔‘
 
ائیر وائس مارشل نور خان نے اعلان کیا تھا کہ یہ ابتدائی رپورٹ تھی، اس فلائیٹ ریکارڈر کو واشنگٹن مزید تحقیق کے لیے بھیجا گیا تھا کیونکہ کچھ معلومات سمجھی نہیں جا سکی تھی۔ یہ کہنے کے بعد انھوں بتایا کہ ’پائلٹ نے اترنے کے لیے معمول کے طریق کار اختیار کیے رہے جب طیارہ پندرہ سو فٹ کی بلندی پر تھا اور پھر نہ معلوم کیوں نیچے آیا۔‘
 
بوئنگ 720 بی طیارہ
 
image
 
یہ اس سال کا سب سے بڑی فضائی حادثہ تھا۔ پی آئی اے کو امریکی ائیر لائن کمپنی پین ایم کی تیکنیکی اور تربیتی مدد سے سنہ 1955 میں بنایا گیا تھا۔ پی آئی اے کی ٹیکنیکل مینیجمنٹ میں پین ایم سنہ 1965 تک شامل رہی تھی، پھر یہ مینیجمنٹ مکمل طور پر اسی برس مارچ میں پاکستان کے حوالے کر دی گئی تھی اور مئی میں یہ حادثہ پیش آیا۔
 
طیارہ بوئنگ 720-040B تھا جس کی رجسٹریشن نمبر اے پی- AMH تھی اور مینوفیکچرنگ سیریل نمبر 18379 تھا۔ اس طیارے نے پہلی پرواز 19 اکتوبر 1962 کو کی تھی اور سات نومبر 1962 کو ایک ’برانڈ نیو‘ طیارے کے طور پر پی آئی اے میں شامل ہوا تھا۔ حادثے کے وقت تک یہ 8378 گھنٹے کی پرواز مکمل کر چکا تھا۔
 
اجتماعی قبر میں تدفین
روزنامہ ڈان کے 23 مئی کی رپورٹ کے مطابق حادثے میں ہلاک ہونے والے مسافروں اور طیارے کے عملے کی قاہرہ کے امام شافعی سے منسوب ایک قبرستان کے قریب اجتماعی تدفین کی گئی۔ ’جب قبرستان میں لاشیں ایک دوسرے کے ساتھ لٹائی گئی تھیں، اس وقت پھولوں کی دو چادریں پتھر کی دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔‘
 
ایک مصری امام نے نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ وہاں مسیحی پادری موجود نہیں تھے۔ پی آئی اے کے ترجمان نے بتایا تھا کہ امکان ہے کہ پاکستان قبرستان میں ایک یادگار تعمیر کرائے گا۔ (تاہم بعد میں پی آئی اے نے اس قبرستان میں ہلاک ہونے والے افراد کے نام سفید پتھر پر کندہ کروا کے لگوا دیے۔)
 
اجتماعی تدفین کے موقع پر پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر ائیر وائس مارشل نور خان، (متحدہ عرب جمہوریہ) مصر کے سول ایوی ایشن کے عہدیدار، گورنر کے نمائندے اور 500 کے قریب سوگوار موجود تھے۔
 
لندن ٹائمز کے مطابق اس حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کے لواحقین میں سے ایک نے بتایا کہ تمام ذاتی املاک کو مسخ شدہ لاشوں سے ہٹا دیا گیا تھا اور شناخت ناممکن تھی۔ شناخت شدہ 19 لاشوں میں سے چھ پاکستانی، ایک جرمن، دو چیک، ایک لبنانی اور سات چینی شہری شامل تھے۔
 
ان چھ پاکستانیوں میں سے جن کی شناخت ہوئی تھی ان میں سے چار کی لاشیں کراچی روانہ کر دی گئیں ۔ کراچی کے یونیورسل ایکسپریس کی دو دیگر پاکستانی مسز بانو میکلائی اور مسٹر لوبو کی لاشوں کو ان کے اہلخانہ کی درخواست پر قاہرہ ہی میں سپرد خاک کر دیا گیا تھا۔
 
پی آئی اے نے غیرملکیوں کی شناخت شدہ لاشوں کو اُن ممالک میں پہنچانے کے انتظامات کیے تھے۔ اس کا انتظام قاہرہ میں ان ملکوں کے سفارتخانوں کے ذریعے کیا گیا تھا۔ غیر ملکیوں کی لاشوں کی شناخت پی آئی اے نے سفارتکاروں کی مدد سے کی تھی۔
 
پی ٹی ایس ڈی
حادثے کے بعد بچ جانے والے چھ مسافروں میں کسی نے بھی اپنے واقعات پر مبنی کوئی کتاب نہیں لکھی۔ صرف شوکت میکلائی کا ایک انٹرویو ملتا ہے جو انھوں نے ایک صحافی شازیہ حسن کو دیا تھا جو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا تھا۔ ایک اور بچنے والے مسافر جواد الکریمی اب بھی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
 
حادثے میں ہلاک ہونے والے ایک مسافر مجید المکی کے پوتے علی المکی جو لندن میں ایک بینک میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ شوکت میکلائی کی بھتیجی سینٹ پیٹرک سکول کراچی میں ان کی ٹیچر تھیں۔ علی کہتے ہیں کہ ان کی ٹیچر نے بتایا تھا کہ شوکت میکلائی اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔
 
میں نے صلاح الدین صدیقی سے بھی پوچھا کہ اُنھوں نے اس واقعے کے متعلق کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی، تو ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کوشش کی تو دل بہت رنجیدہ ہو گیا اور پھر ہمت نہیں ہوئی۔ کیا بچ جانے والے ان مسافروں کو کوئی نفسیاتی کاؤنسلنگ کی سہولت ملی تھی؟ اس بارے میں بھی کوئی علم نہیں۔
 
بوئنگ 720 کے بچ جانے والے مسافروں کا اس حادثے پر کھل کر بات کرنے سے گریز دراصل ان کے ’پوسٹ ٹرامیٹک سِنڈروم ڈِس آرڈر‘ (پی ٹی ایس ڈی) کی ایک علامت ہے۔ (صدمہ ذہنی و جذباتی دباوٴ، چوٹ لگنے یا سخت نفسیاتی دھچکا لگنے سے پیدا ہونے والی حالت کو پی ٹی ایس ڈی کہا جاتا ہے۔)
 
لندن کے ایک ہسپتال میں کنسلٹنٹ سائیکیٹرسٹ ڈاکٹر ہاشم رضا کہتے ہیں کہ اس نوعیت کے حادثے جن میں سے زندہ بچ نکلنا معجزے سے کم نہیں، لوگوں میں گوناگوں جذباتی کیفیات پیدا کرتا ہے جو ذہنی بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جسے پی ٹی ایس ڈی (PTSD) کہتے ہیں۔
 
’سالہا سال گزر جانے کے باوجود پرانے حادثے کا ذکر اور اس کی کوئی جھلک ایسے شخص کے لیے ان جذبات کو تازہ کر دیتی ہے جس کی وجہ سے ان کی کوشش ہوتی ہے اس موضوع سے دور رہیں.‘
 
امریکہ میں اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس صدمے کو ایک مرض کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن پاکستان جیسے ممالک میں اسے تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اُس وقت یعنی سنہ 1965 میں اس کا شکار ہونے والوں کے لیے کاؤنسلنگ کی سہولت دستیاب نہیں تھی۔
 
تعداد میں کمی بیشی
 
image
 
پی کے 705 میں کتنے افراد سوار تھے اس بارے میں اعداد و شمار میں معمولی سا اختلاف ہے۔ اس لیے جو بھی مختلف اعداد و شمار دستیاب ہیں وہ ہم بتا دیتے ہیں۔ بہرحال دو اعداد پر کوئی اختلاف نہیں: عملے میں 13 افراد تھے اور زندہ بچ جانے والے مسافروں کی تعداد چھ تھی۔
 
جو تعداد مختلف ہے وہ یہ ہے کہ بوئنگ 720 میں مسافروں کی کُل تعداد کتنی تھی۔ ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے مطابق 114 مسافر سوار تھے اور اُن میں سے 108 ہلاک ہوئے تھے جبکہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے مطابق مسافروں کی تعداد 112 تھی اور 106 ہلاک ہوئے تھے۔
 
تاہم قاہرہ میں امام شافعی کے روضے کے قریب قبرستان میں کتبے پر ہلاک ہونے والے افراد کے ناموں کی تعداد 121 بنتی ہے اور اگر ان میں زندہ بچ جانے والے چھ افراد کو شامل کیا جائے تو پھر طیارے میں سوار افراد کی کل تعداد 127 بنتی ہے۔ اگر ان میں سے 13 عملے کے افراد الگ کر لیے جائیں تو مسافروں کی کل تعداد 114 بنتی ہیں۔
 
اس طرح انٹرنیشنل ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے اعداد و شمار قرینِ قیاس لگتے ہیں یعنی مسافروں کی تعداد 114 تھی۔ عملے کے 13 افراد تھے، یعنی طیارے میں کل 127 افراد سوار تھے، ان میں سے چھ زندہ بچ گئے تھے اور ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 121 بنتی ہے۔
 
اور صلاح الدین صدیقی کی یادداشت کے مطابق بھی طیارے میں کل 127 افراد سوار تھے۔ ان میں سے 121 ہلاک ہوئے تھے اور چھ زندہ بچ گئے تھے۔ ان کے مطابق طیارے میں سات چینی شہری بھی سوار تھے۔ بہرحال ایوی ایشن سفٹی نیٹ ورک اور دی ٹائمز نے 127 مسافروں میں سے 121 افراد کی ہلاکت کی تعداد شائع کی۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: