تم جو یہاں کر رہے ہو اس سے امریکہ تمہارے خلاف ہو گیا ہے... کراچی کا وہ تاجر جسے اسامہ بن لادن سے ملاقات مہنگی پڑ گئی

image
 
“مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے افغانستان میں پلاسٹک اور بائی سائیکل کی فیکٹریاں لگانے کا ارادہ تھا“ فرحت پراچہ نے اپنے شوہر سیف اللہ پراچہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا۔ فرحت کے مطابق ان کے شوہر نائن الیون سے پہلے دو بار افغانستان گئے تھے جہاں ان کی ملاقات اسامہ بن لادن سے ہوئی تھی۔
 
سیف اللہ پراچہ کون ہیں؟
سیف اللہ پراچہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک کامیاب ترین بزنس مین تھے جنھوں نے امریکا میں “گلوبل ٹریول سروسز“ کے نام سے ٹریول ایجنسی کھولی اور 13 برسوں تک امریکا میں مقیم رہے۔ امریکہ میں ہی فرحت نامی خاتون سے شادی کی اور چار بچوں کے والد ہیں جنھیں انھوں نے کراچی کے اعلیٰ اسکولز میں تعلیم دلوائی۔ سیف اللہ پراچہ نماز کے پابند اور فلاحی کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے۔
 
سیف اللہ پراچہ کی زندگی میں خطرناک موڑ اس وقت آیا جب 2003 انھوں نے کراچی سے بینکاک کی فلائٹ لی لیکن اس دوران سی آئی اے نے انھیں ائیرپورٹ سے القاعدہ کی مدد کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد نہ ہی سیف الہ پراچہ پر کسی قسم کا مقدمہ چلایا گیا اور نہ ہی ان پر کوئی فردِ جرم عائد کیا گیا۔
 
فرحت پراچہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر گوانتاناموبے کی امریکی جیل میں سب سے عمر رسیدہ قیدی ہیں اور وہاں انھیں دو بار دل کا دورہ بھی پڑچکا ہے۔ البتہ اطلاعات کے مطابق سیف اللہ پراچہ نے گوانتانا ہبے ٹریبیونل کو دیے گئے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ وہ سنہ 1999 دسمبر اور سنہ 2003 جنوری میں افغانستان میں اسامہ بن لادن سے مل چکے ہیں البتہ ان کا مقصد صرف اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلافات کو ختم کرنا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ سیف اللہ نے اسامہ بن لادن سے کہا تھا کہ “ 'تم جو یہاں کر رہے ہو اس سے امریکہ تمہارے خلاف ہو گیا ہے۔ تم اپنا مؤقف بتاؤ اور ہمیں ایک انٹرویو دو“ اس کے بعد وہ اپنا وزیٹنگ کارڈ بھی وہیں چھوڑ آئے جو امریکی حکومت کے افغانستان میں القاعدہ کے کمپاؤنڈ میں چھاپے کے دوران برامد ہوا۔
 
image
 
سیف اللہ کے بیٹے کو بھی امریکہ گرفتار کرچکا ہے
سیف اللہ کے بڑے بیٹے عزیر پراچہ کو ان سے بھی پہلے یعنی مارچ 2003 میں نیویارک سے 23 سال کی عمر میں گرفتار کیا جاچکا تھا اور ان ہی کے بیانات کی روشنی میں ان کے والد کو بھی زیرِ حراست لیا گیا۔ عزیر پراچہ پر الزام تھا کہ انھوں نے القاعدہ کے رکن ماجد خان اور عمار ال بلوچی کو دہشتگردی کے لئے مدد فراہم کی البتہ عیر نے اس کا جواب یہ دیا کہ انھوں نے ان دونوں افراد کی مدد اپنے والد کے کہنے پر کی اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان افراد کا تعلق القاعدہ سے ہے دوسری طرف ماجد خان اور عمار ال بلوچی نے بھی اپنے بیانات میں اعتراف کیا کہ انھوں نے کبھی سیف اللہ اور عزیر کو اپنے اور القاعدہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ البتہ اب امریکی حکومت کا موقف ہے کہ ہے کہ عزیر 16 سال تک جیل کی سزا بھگت چکے ہیں اور اپنی امریکی شہرت بھی چھوڑنے پر تیار ہیں اس لئے اریکی حکومت ان پر مذید وقت اور وسائل نہیں ضائع کرنا چاہتی۔ عزیر کو 2020 میں رہا کرکے پاکستان واپس بھجوا دیا گیا ہے
 
البتہ سیف اللہ پراچہ تاحال گوانتاناموبے میں قید ہیں اور ان کے اہلِ خانہ ان کی ناسازی طبعیت کے باعث بہتر علاج اور رہائی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ صدر جوبائیڈن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ گوانتاناموبے کی جیل میں قید افراد کی رہائی کے لئے اقدامات کریں گے۔
 
image
YOU MAY ALSO LIKE: